Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 مور کے معنی ہیں حرکت و اضطراب، قیامت والے دن آسمان کے نظم میں جو اختلال اور ستارے و سیاروں کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے جو اضطراب واقع ہوگا، اس کو ان الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور یہ مذکورہ عذاب کے لئے ظرف ہے۔ یعنی عذاب اس روز واقع ہوگا جب آسمان تھر تھرائے گا اور پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ کر روئی کے گالوں اور ریت کے ذروں کی طرح اڑ جائیں گے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧] مور کا لغوی مفہوم :۔ تمور۔ مار میں بنیادی تصور حرکت اور تیز رفتاری ہے النَّاقَۃ تَمُوْرُ فِی سَیْرِھَا بمعنی اونٹنی کا تیز رفتاری کی وجہ سے غبار اڑاتے چلے جانا (مفردات) اور مور بمعنی غبار بن کر ہوا میں اڑنا (فقہ اللغۃ) اور مارالشَّی بمعنی کسی چیز کا تیز رفتاری کی وجہ سے آگے پیچھے ہلنا، لرزنا اور توازن کھو دینا (منجد) گویا اس دن آسمان کے انجر پنجر ہل جائیں گے وہ کانپنے، لرزنے، ہچکولے کھانے، ڈگمگانے اور با لآخر ذرات کی شکل میں تبدیل ہو کر اڑنے لگے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(یوم تمور السمآء موراً :” مار یمور موراً “ (ن) کسی چیز کا تیزی سے حرکت کرنا اور آگے پیچھے اور دائیں بائیں زور سے ہلنا، الٹ پلٹ ہونا، چکر کھانا۔ ” موراً “ مصدر تاکید کے لئے ہے، اس لئے ترجمہ ” سخت لرزنا “ کیا گیا ہے۔ ” یوم “ ” لواقع “ کا ظرف ہے، یعنی تیرے رب کا عذاب اس دن واقع ہونے والا ہے جب آسمان میں سخت لرزہ پیدا ہوگا اور وہ نہایت تیزی سے چکر کھائے گا اور آخر کار پھٹ جائے گا۔ قیامت کے دن آسمان پر گزرنے والے احوال کے لئے دیکھیے سورة فرقان (٢٥) ، رحمٰن (٣٧) ، حاقہ (١٦) ، معارج (٨) مزمل (١٨) ، مرسلات (٩) ، نبا (١٩) ، تکویر (١١) ، انفطار (١) ، انشقاق (١) ، ابراہیم (٤٨) ، انبیاء (١٠٤) اور سورة زمر (٦٧) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

يَّوْمَ تَمُوْرُ السَّمَاۗءُ مَوْرًا، لغت میں مضطربانہ حرکت کو مور کہا جاتا ہے، آسمان کی اضطرابی حرکت جو قیامت کے روز ہوگی یہ اس کا بیان ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَّوْمَ تَمُوْرُ السَّمَاۗءُ مَوْرًا۝ ٩ ۙ- مور - المَوْر : الجَرَيان السَّريع . يقال : مَارَ يَمُورُ مَوْراً. قال تعالی: يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً [ الطور 9] ومَارَ الدم علی وجهه، والمَوْرُ : التُّراب المتردِّد به الرّيح، وناقة تَمُورُ في سيرها، فهي مَوَّارَةٌ.- ( م و ر ) المور ۔ کے معنی تیز رفتاری کے ہیں ۔ اور یہ مار یمور مورا سے ہے چناچہ قرآن میں ہے يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً [ الطور 9] جس دن آسمان لرز نے لگے کپکپاکر ۔ مار الرم علیٰ وجھہ کے معنی چہرہ پر تیزی سے خون جاری ہونے کے ہیں اور مور غبار کو بھی کہتے ہیں جو ہوا میں ادہر ادھر اڑتا ہے اور ناقۃ تمور فی میرھا کے معنی ہیں اونٹنی کا تیز رفتاری کی وجہ سے غبار اڑاتے ہوئے چلے جانا ۔ اور تیز رو اونٹنی کو موارۃ کہا جاتا ہے ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩ یَّوْمَ تَمُوْرُ السَّمَآئُ مَوْرًا ۔ ” جس روز کہ آسمان بری طرح لرزے گا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الطُّوْر حاشیہ نمبر :7 اصل الفاظ ہیں تَمُوْرُ السَّمَآءُ مُوْراً ۔ مَور عربی زبان میں گھومنے ، اَونٹنے ، پھڑکنے ، جھوم جھوم کر چلنے ، چکر کھانے اور بار بار آگے پیچھے حرکت کرنے کے لیے بولا جاتا ہے ۔ قیامت کے دن آسمان کی جو حالت ہوگی اسے ان الفاظ میں بیان کر کے یہ تصور دلایا گیا ہے کہ اس روز عالم بالا کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور دیکھنے والا جب آسمان کی طرف دیکھے گا تو اسے یوں محسوس ہوگا کہ وہ جما جمایا نقشہ جو ہمیشہ ایک ہی شان سے نظر آتا تھا ، بگڑ چکا ہے اور ہر طرف ایک اضطراب برپا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani