انسان پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کی ایک جھلک اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کاملہ کا بیان فرماتا ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اپنے فضل و کرم سے اس کا حفظ کرنا بالکل آسان کر دیا اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا ۔ قتادہ وغیرہ کہتے ہیں بیان سے مراد خیر و شر ہے لیکن بولنا ہی مراد لینا یہاں بہت اچھا ہے ۔ حضرت حسن کا قول بھی یہی ہے اور ساتھ ہی تعلیم قرآن کا ذکر ہے جس سے مراد تلاوت قرآن ہے اور تلاوت موقوف ہے بولنے کی آسانی پر ہر حرف اپنے مخرج سے بےتکلف زبان ادا کرتی رہتی ہے خواہ حلق سے نکلتا ہو خواہ دونوں ہونٹوں کے ملانے سے مختلف ، مخرج اور مختلف قسم کے حروف کی ادائیگی اللہ تعالیٰ نے انسان کو سکھا دی ، سورج اور چاند ایک دوسرے کے پیچھے اپنے اپنے مقررہ حساب کے مطابق گردش میں ہیں نہ ان میں اختلاف ہو نہ اضطراب نہ یہ آگے بڑھے نہ وہ اس پر غالب آئے ہر ایک اپنی اپنی جگہ تیرتا پھرتا ہے اور جگہ فرمایا ہے آیت ( فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ۚ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْـبَانًا ۭذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ 96 ) 6- الانعام:96 ) ، اللہ صبح کو نکالنے والا ہے اور اسی نے رات کو تمہارے لئے آرام کا وقت بنایا ہے اور سورج چاند کو حساب پر رکھا ہے یہ مقررہ محور غالب و دانا اللہ کا طے کردہ ہے ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں تمام انسانوں ، جنات ، چوپایوں ، پرندوں کی آنکھوں کی بصارت ایک ہی شخص کی آنکھوں میں سمو دی جائے پھر بھی سورج کے سامنے جو ستر پردے ہیں ان میں سے ایک پردہ ہٹا دیا جائے تو ناممکن ہے کہ یہ شخص پھر بھی اس کی طرف دیکھ سکے باوجودیکہ سورج کا نور اللہ کی کرسی کے نور کا سترواں حصہ ہے اور کرسی کا نور عرش کے نور کا سترواں حصہ ہے اور عرش کے نور کے جو پردے اللہ کے سامنے ہیں اس کے ایک پردے کے نور کا سترواں حصہ ہے پس خیال کر لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے جنتی بندوں کی آنکھوں میں کس قدر نور دے رکھا ہو گا کہ وہ اپنے تبارک و تعالیٰ کے چہرے کو کھلم کھلا اپنی آنکھوں سے بےروک دیکھیں گے ( ابن ابی حاتم ) اس پر تو مفسرین کا اتفاق ہے کہ شجر اس درخت کو کہتے ہیں جو تنے والا ہو لیکن نجم کے معنی کئی ایک ہیں بعض تو کہتے ہیں نجم سے مراد بیلیں ہیں جن کا تنہ نہیں ہوتا اور زمین پر پھیلی ہوئی ہوتی ہیں ۔ بعض کہتے ہیں مراد اس سے ستارے ہیں جو آسمان میں ہیں ۔ یہی قول زیادہ ظاہر ہے گو اول قول امام ابن جریر کا اختیار کردہ ہے واللہ اعلم ، قرآن کریم کی یہ آیت بھی اس دوسرے قول کی تائید کرتی ہے ۔ فرمان ہے آیت ( اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَاۗبُّ وَكَثِيْرٌ مِّنَ النَّاسِ ۭ وَكَثِيْرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ ۭ وَمَنْ يُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاۗءُ 18ڍ السجدہ ) 22- الحج:18 ) ، کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ کے لئے آسمان زمین کی تمام مخلوقات اور سورج ، چاند ، ستارے ، پہاڑ ، درخت ، چوپائے ، جانور اور اکثر لوگ سجدہ کرتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے آسمان کو اسی نے بلند کیا ہے اور اسی میں میزان قائم کی ہے یعنی عدل جیسے اور آیت میں ہے آیت ( لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ 25ۧ ) 57- الحديد:25 ) یعنی یقینا ہم نے اپنے رسولوں کو دلیلوں کے ساتھ اور ترازو کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ لوگ عدل پر قائم ہو جائیں یہاں بھی اس کے ساتھ ہی فرمایا تاکہ تم ترازو میں حد سے نہ گذر جاؤ یعنی اس اللہ نے آسمان و زمین کو حق اور عدل کے ساتھ پیدا کیا تاکہ تمام چیزیں حق و عدل کے ساتھ ہو جائیں ، پس فرماتا ہے جب وزن کرو تو سیدھی ترازو سے عدل و حق کے ساتھ وزن کرو کمی زیادتی نہ کرو کہ لیتے وقت بڑھتی تول لیا اور دیتے وقت کم دے دیا اور جگہ ارشاد ہے آیت ( وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْـتَقِيْمِ ١٨٢ۚ ) 26- الشعراء:182 ) صحت کے ساتھ کھرے پن سے تول کیا کرو ، آسمان کو تو اس نے بلند و بالا کیا اور زمین کو اس نے نیچی اور پست کر کے بچھا دیا اور اس میں مضبوط پہاڑ مثل میخ کے گاڑ دئیے تاکہ وہ ہلے جلے نہیں اور اس پر جو مخلوق بستی ہے وہ باآرام رہے پھر زمین کی مخلوق کی دیکھو ان کی مختلف قسموں مختلف شکلوں مختلف رنگوں مختلف زبانوں مختلف عادات واطوار پر نظر ڈال کر اللہ کی قدرت کاملہ کا اندازہ کرو ۔ ساتھ ہی زمین کی پیداوار کو دیکھو کہ رنگ برنگ کے کھٹے میٹھے پھیکے سلونے طرح طرح کی خو شبوؤں والے میوے پھل فروٹ اور خاصۃً کھجور کے درخت جو نفع دینے والا اور لگنے کے وقت سے خشک ہو جانے تک اور اس کے بعد بھی کھانے کے کام میں آنے والا عام میوہ ہے ، اس پر خوشے ہوتے ہیں جنہیں چیر کر یہ باہر آتا ہے پھر گدلا ہو جاتا ہے پھر تر ہو جاتا ہے پھر پک کر ٹھیک ہو جاتا ہے بہت نافع ہے ، ساتھ ہی اس کا درخت بالکل سیدھا اور بےضرر ہوتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ قیصر نے امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب کو لکھا کہ میرے قاصد جو آپ کے پاس سے واپس آئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آپ کے ہاں ایک درخت ہوتا ہے جس کی سی خو خصلت کسی اور میں نہیں ، وہ جانور کے کان کی طرح زمین سے نکلتا ہے پھر کھل کر موتی کی طرح ہو جاتا ہے پھر سبز ہو کر زمرد کی طرح ہو جاتا ہے پھر سرخ ہو کر یاقوت جیسا بن جاتا ہے ، پھر یکتا ہے اور تیار ہو کر بہترین فالودے کے مزے کا ہو جاتا ہے پھر خشک ہو کر مقیم لوگوں کے بچاؤ کی اور مسافروں کے توشے بھتے کی چیز بن جاتا ہے پس اگر میرے قاصد کی یہ روایت صحیح ہے تو میرے خیال سے تو یہ درخت جنتی درخت ہے اس کے جواب میں شاہ اسلام حضرت فاروق اعظم نے لکھا کہ یہ خط ہے اللہ کے غلام مسلمانوں کے بادشاہ عمر کی طرف سے شاہ روم قیصر کے نام آپ کے قاصدوں نے جو خبر آپ کو دی ہے وہ سچ ہے اس قسم کے درخت ملک عرب میں بکثرت ہیں یہی وہ درخت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مریم کے پاس اگایا تھا جبکہ ان کے لڑکے حضرت عیسیٰ کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک حضرت آدم جیسی ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا پھر فرمایا ہو جا پس وہ ہوگئے اللہ کی طرف سے سچی اور حق بات یہی ہے تجھے چاہیے کہ شک و شبہ کرنے والوں میں نہ رہے اکمام کے معنی لیف کے بھی کئے گئے ہیں جو درخت کھجور کی گردن پر پوست کی طرح ہوتا ہے اور اس نے زمین میں بھوسی اور اناج پیدا کیا عصف کے معنی کھیتی کے سبز پتے مطلب یہ ہے کہ گیہوں جو وغیرہ کے وہ دانے جو خوشہ میں بھوسی سمیت ہوتے ہیں اور جو پتے ان کے درختوں پر لپٹے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھیتی سے پہلے ہی اگے ہوئے پتوں کو تو عصف کہتے ہیں اور جب دانے نکل آئیں بالیں پیدا ہو جائیں تو انہیں ریحان کہتے ہیں جیسے کہ زید بن عمرو بن نفیل کے مشہور قصیدے میں ہے ۔ پھر فرماتا ہے اے جنو اور انسانو تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے یعنی تم اس کی نعمتوں کے سر سے پیر تک ڈوبے ہوئے ہو اور مالا مال ہو رہے ہو ناممکن ہے کہ حقیقی طور پر تم کسی نعمت کا انکار کر سکو اور اسے جھوٹ بتا سکو ایک دو نعمتیں ہوں تو خیر یہاں تو سر تاپا اس کی نعمتوں سے تم دبے ہوئے ہو اسی لئے مومن جنوں نے اسے سن کر جھٹ سے جواب دیا ( اللھم ولا بشئی من الائک ربنا نکذب فلک الحمد ) حضرت ابن عباس اس کے جواب میں فرمایا کرتے تھے ( لا فایھا یارب ) یعنی خدایا ہم ان میں سے کسی نعمت کا انکار نہیں کر سکتے ۔ حضرت ابو بکر صدیق کی صاحبزادی حضرت اسماء فرماتی ہیں کہ شروع شروع رسالت کے زمانہ میں ابھی امر اسلام کا پوری طرح اعلان نہ ہوا تھا میں نے رسول اللہ کو بیت اللہ میں دکن کی طرف نماز پڑھتے ہوئے دیکھا آپ اس نماز میں اس سورت کی تلاوت فرما رہے تھے اور مشرکین بھی سن رہے تھے ۔
١۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ : اس سورت کا آغاز اللہ کے مبارک نام ” الرحمن “ کے ساتھ ہوا ہے اور پوری سورت اس کی بےحد و بےحساب رحمت کی تفصیل ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر ہر نعمت کا ذکر کر کے بار بار اپنا احسان یاد دلایا ہے ۔ ان نعمتوں میں وہ نعمتیں بھی ہیں جو دنیا میں تمام لوگوں پر کی گئی ہیں اور وہ بھی جو صرف ایمان والوں پر ہیں ۔ ان میں سے سب سے بڑی نعمت دین کا ذکر سب سے پہلے فرمایا ہے، کیونکہ دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی اسی پر موقوف ہے اور دین کا مدار قرآن مجید پر ہے ، اس لیے فرمایا ( اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ )” اس بےحد رحم والے نے یہ قرآن سکھایا۔ “- ٢۔” اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ “ میں نعمت کے بیان کے ساتھ کفار کے اس بہتان کا رد بھی ہے کہ ( انما یعلمہ بر) ( النحل : ١٠٣) یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی بشر ہی سکھاتا ہے۔ فرمایا ، آپ کو سکھانے والا کوئی بشر یا کوئی اور ہستی نہیں ، بلکہ دورحمن ہی ہے جس نے آپ کو قرآن سکھایا ۔ ابن عاشور نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے کہ مسند کو فعل کی صورت میں مسند الیہ کے بعد تخصیص کا فائدہ دینے کے لیے لایا گیا ہے ۔ کیونکہ کفار کا کہنا تھا کہ قرآن کسی اور نے آپ کو سکھایا ہے ، گویا وہ یہ مان گئے کہ یہ آپ نے خود نہیں بنایا بلکہ کسی اور نے آپ کو سکھایا ہے ، مگر وہ یہ نہیں مانتے تھے کہ آپ کو قرآن سکھانے والا اللہ تعالیٰ ہے ، اس لیے فرمایا :” اس رحمان ہی نے ( آپ کو) یہ قرآن سکھایا ہے۔ “” علم القرآن “” الرحمن “ مبتداء کی پہلی خبر ہے ، اس کے بعد مسلسل تین خبریں ہیں جو حرف عطف کے بغیر لائی گئی ہیں ۔ ان نعمتوں کے اس اندازے میں ذکر کرنے سے جہاں ان نعمتوں کا اظہار ہو رہا ہے وہاں یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ یہ نعمتیں رحمان ہی نے عطاء کی ہیں ، انہیں عطاء کرنے میں کسی اور کا نہ کوئی دخل ہے نہ کسی قسم کی شرکت ہے۔ مشرکین یہاں تک تو مانتے تھے ، مگر اس سے لازم آنے والی بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ جب یہ سب نعمتیں رحمان ہی کی ہیں تو عبادت بھی اسی کی ہے۔ گویا نعمتوں کے شمار کرنے میں مشرکین کو ان کی غلطی پر تنبیہ اور اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔- ٣۔” عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ “ میں ’ ’ علم “ کا ایک مفعول ” القرآن “ ذکر فرمایا ہے کہ اس رحمن نے یہ قرآن سکھایا ، دوسرا مفعول ذکر نہیں فرمایا کہ کسے سکھایا ؟ یہ حذف فرما دیا ہے ، تا کہ عام رہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا، اس محذوف سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہیں ، مگر بہتر ہے کہ اسے عام رکھا جائے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کی تعلیم دی ، مگر ظاہر ہے کہ آپ کے واسطے سے اور بعد میں قرآن کے معلمین کے واسطے سے تمام لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینے والی اصل ذات گرامی اللہ تعالیٰ کی ہے ، وہ تعلیم نہ دے تو نہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تعلیم دے سکتے ہیں ، نہ صحابہ اور نہ ہی بعد کا کوئی معلم ۔ اس لیے تعلیم قرآن کو خاص اللہ تعالیٰ کی نعمت کے طور پر ذکر فرمایا ہے۔- ٤۔ اکثر مفسرین نے چونکہ یہاں ” القرآن ‘ ‘ سے مراد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل شدہ قرآن کریم لیا ہے ، اس لیے اوپر تفسیر اس کے مطابق کی گئی ہے۔ آیت کے الفاظ میں ایک اور تفسیر کی بھی گنجائش ہے ، وہ یہ کہ ” القرآن “ کا لفظی معنی ” قراۃ “ ( پڑھنا ) ہے ، جیسا کہ سورة ٔ قیامہ میں فرمایا (فَاِذَا قَرَاْنٰـہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ )” تو جب ہم اسے پڑھیں تو تو اس کے پڑھنے کی پیروی کر “۔ اس تفسیر کے مطابق اللہ تعالیٰ انسان کو پڑھنے کی تعلیم کی نعمت یاددلا رہے ہیں ، یعنی ” اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ “ کا معنی ہے :” اس رحمن ہی نے پڑھنا سکھایا “۔ یاد رہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والی سب سے پہلی وحی میں لکھنے کی تعلیم کی نعمت کا ذکر خاص طور پر فرمایا تھا، فرمایا :(اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ) ( العلق : ٣، ٤) ” پڑھ اور تیرا رب ہی سب سے زیادہ کرم والا ہے۔ وہ جس نے قلم کے ساتھ سکھایا “۔ تو سورة ٔ رحمن میں پڑھنے کی تعلیم کی نعمت کا ذکر فرمایا۔ اس تفسیر کے مطابق یہ نعمت مزید عام ہوجاتی ہے ، جس میں قرآن کا پڑھنا بھی شامل ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ لکھنا ، پڑھنا اور بیان تینوں انسان پر اللہ تعالیٰ کی ان عظیم نعمتوں میں سے ہیں جو اسے جانوروں سے ممتاز کرتی ہیں ۔ انہی کے ذریعے سے وہ دور و نزدیک دوسرے انسانوں سے رابطہ کرتا ہے، وحی الٰہی سے حاصل ہونے والے علوم کو اور انسانی عقل اور تجربے سے حاصل ہونے والے علوم و فنون کو سیکھتا سکھاتا ہے ، لکھ کر محفوظ کرتا ہے اور آنے والی نسلوں کو پہنچاتا ہے۔
ربط سورت اور جملہ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا کے تکرار کی حکمت :- اس سے پہلی سورت القمر میں زیادہ تر مضامین سرکش قوموں پر عذاب الٰہی آنے کے متعلق تھے اسی لئے ہر ایک عذاب کے بعد لوگوں کو متنبہ کرنے کے لئے ایک خاص جملہ بار بار استعمال فرمایا ہے، یعنی فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ وَنُذُرِ ، اور اس کے متصل ایمان و اطاعت کی ترغیب کے لئے دوسرا جملہ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ بار بار لایا گیا ہے۔- سورة الرحمن میں اس کے مقابل بیشتر مضامین حق تعالیٰ کی دنیوی اور اخروی نعمتوں کے بیان میں ہیں اسی لئے جب کسی خاص نعمت کا ذکر فرمایا تو ایک جملہ لوگوں کو متنبہ کرنے اور شکر نعمت کی ترغیب دینے کے لئے فرمایا فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ ، اور پوری سورت میں یہ جملہ اکتیس مرتبہ لایا گیا ہے، جو بظاہر تکرار معلوم ہوتا ہے اور کسی لفظ یا جملے کا تکرار بھی تاکید کا فائدہ دیتا ہے، اس لئے وہ بھی فصاحت و بلاغت کے خلاف نہیں خصوصاً قرآن کریم کی ان دونوں سورتوں میں جس جملے کا تکرار ہوا ہے وہ تو صورت کے اعتبار سے تکرار ہے، حقیقت کے اعتبار سے ہر ایک جملہ ایک نئے مضمون سے متعلق ہونے کی وجہ سے مکرر محض نہیں ہے، کیونکہ سورة قمر میں ہر نئے عذاب کے بعد اس کے متعلق (فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِيْ ) آیا ہے، اسی طرح سورة رحمن میں ہر نئی نعمت کے بیان کے بعد (فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ ) کا تکرار کیا گیا ہے جو ایک نئے مضمون کے متعلق ہونے کے سبب تکرار محض نہیں، علامہ سیوطی نے اس قسم کے تکرار کا نام تردید بتلایا ہے، وہ فصحاء و بلغاء عرب کے کلام میں مستحسن اور شیریں سمجھا گیا، نثر اور نظم دونوں میں استعمال ہوتا ہے، اور صرف عربی نہیں، فارسی، اردو وغیرہ زبانوں کے مسلم شعراء کے کلام میں بھی اس کی نظائر پائی جاتی ہیں، یہ موقع ان کو جمع کرنے کا نہیں، تفسیر روح المعانی وغیرہ میں اس جگہ متعدد نظائر بھی نقل کئے ہیں۔- خلاصہ تفسیر - رحمن (کی بیشمار نعمتیں ہیں ان میں سے ایک روحانی نعمت یہ ہے کہ اسی) نے (اپنے بندوں کو احکام) قرآن کی تعلیم دی (یعنی قرآن نازل کیا کہ اس کے بندے اس کے اوپر ایمان لائیں اور اس کا علم حاصل کر کے اس پر عمل کریں تاکہ دائمی عیش و راحت کا سامان حاصل ہو اور اس کی ایک نعمت جسمانی ہے وہ یہ کہ) اسی نے انسان کو پیدا کیا (پھر) اس کو گویائی سکھلائی (جس پر ہزاروں منافع مرتب ہوتے ہیں، منجملہ ان کے قرآن کا دوسرے کی زبان سے پہنچنا اور دوسروں کو پہنچانا ہے اور ایک نعمت جسمانی آفاقی یہ ہے کہ اس کے حکم سے) سورج اور چاند حساب کے ساتھ (چلتے) ہیں اور بےتنہ کے درخت اور تنہ دار درخت دونوں (اللہ کے) مطیع ہیں (سورج چاند کا چلنا تو اس لئے نعمت ہے کہ اس پر لیل و نہار سردی گرمی، ماہ و سال کا حساب مرتب ہوتا ہے اور ان کے منافع ظاہر ہیں اور درختوں کا سجدہ اس لئے نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں انسان کے لئے بیشمار منافع کی تخلیق فرمائی ہے) اور (ایک نعمت یہ ہے کہ) اسی نے آسمان کو اونچا کیا (جس سے علاوہ دوسرے منافع متعلقہ بالسماء کے بڑی منفعت یہ ہے کہ اس کو دیکھ کر انسان اس کے بنانے والے کی عظمت شان پر استدلال کرے، کما قال تعالیٰ يَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ الخ) اور (ایک نعمت یہ ہے کہ) اسی نے (دنیا میں) ترازو رکھ دی تاکہ تم تولنے میں کمی بیشی نہ کرو اور (جب یہ ایسی بڑی منفعت کے لئے موضوع ہے کہ یہ آلہ ہے حقوق کے لین دین کو پورا کرنے کا، جس سے ہزاروں مفاسد ظاہری و باطنی دور ہوجاتے ہیں، تو تم اس نعمت کا خصوصیت کے ساتھ شکر کرو اور اس شکریہ میں سے یہ بھی ہے کہ) انصاف (اور حق رسانی) کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو گھٹاؤ مت اور (ایک نعمت یہ ہے کہ) اسی نے خلقت کے (فائدہ کے) واسطے زمین کو (اس کی جگہ) رکھ دیا کہ اس میں میوے ہیں اور کجھور کے درخت ہیں جن (کے پھل) پر غلاف (چڑھا) ہوتا ہے اور (اس میں) غلہ ہے جس میں بھوسہ (بھی) ہوتا ہے اور (اس میں) اور غذا کی چیز (بھی ہے) (جیسے بہت سی ترکاریاں وغیرہ) سو اے جن وانس (باوجود نعمتوں کی اس کثرت و عظمت کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤں گے (یعنی منکر ہونا بڑی ہٹ دھرمی اور بدیہیات بلکہ محسوسات کا انکار ہے اور ایک نعمت یہ ہے کہ) اسی نے انسان (کی اصل اول یعنی آدم (علیہ السلام) کو ایسی مٹی سے جو ٹھیکرے کی طرح (کھن کھن) بجتی تھی پیدا کیا (جس کا اجمالا چند آیت میں اوپر ذکر کر آیا ہے) اور جناب (کی اصل اول) کو خالص آگ سے (جس میں دھواں نہ تھا) پیدا کیا (اور پھر دونوں نوع میں توالد و تناسل کے ذریعہ سے نسل چلی، شرح اس کو سورة حجر کے رکوع دوم میں آ چکی ہے) سو اے جن وانس (باوجود نعمتوں کی کثرت و عظمت کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (مراد اس کی اوپر گزری ہے اور) وہ دونوں مشرق اور دونوں مغرب کا مالک (حقیقی) ہے (مراد اس سے سورج اور چاند کے طلوع و غروب کا افق ہے اس میں بھی وجہ نعمت ظاہر ہے کہ لیل و نہار کے افتتاح و اختتام کے ساتھ بہت سے اغراض متعلق ہیں) سو اے جن و انس (باوجود نعمتوں کی اس کثرت و عظمت کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (اور ایک نعمت یہ ہے کہ) اسی نے دو دریاؤں کو (صورةً ) ملایا کہ (ظاہر میں) باہم ملے ہوئے ہیں (اور حقیقۃ) ان دونوں کے درمیان میں ایک حجاب (قدرتی) ہے کہ (اس کی وجہ سے) دونوں (اپنے اپنے موقع سے) بڑھ نہیں سکتے (جس کی شرح سورة فرقان کے ختم سے ڈیڑھ رکوع قبل گزری ہے اور آب شور و آب شیریں کے منافع بھی ظاہر ہیں اور دونوں کے ملنے میں نعمت استدلال بھی ہے) سو اے جن وانس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے (اور بحرین کے متعلق ایک یہ نعمت ہے کہ) ان دونوں سے موتی اور مونگا برآمد ہوتا ہے (موتی ہوں گے کے منافع اور وجوہ نعمت ہونا ظاہر ہے) سو اے جن وانس (باوجود نعمتوں کی اس کثرت و عظمت کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے اور (ایک نعمت یہ ہے کہ) اسی کے (اختیار اور ملک میں) ہیں جہاز جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح اونچے کھڑے (نظر آتے) ہیں (ان کی منفعت بھی ظاہر بلکہ اظہر ہے) سو اے جن و انس (باوجود نعمتوں کی اس کثرت و عظمت کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے۔- معارف و مسائل - سورة رحمن کے مکی یا مدنی ہونے میں اختلاف ہے، امام قرطبی نے چند روایات حدیث کی وجہ سے مکی ہونے کو ترجیح دی ہے، ترمذی میں حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ لوگوں کے سامنے سورة رحمن پوری تلاوت فرمائی، یہ لوگ سن کر خاموش رہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے لیلتہ الجن میں جنات کے سامنے یہ سورت تلاوت کی تو اثر قبول کرنے کے اعتبار سے وہ تم سے بہتر رہے، کیونکہ جب میں قرآن کے اس جملے پر پہنچتا تھا (فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ ) تو جنات سب کے سب بول اٹھتے تھے (لا بشی من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد) " یعنی اے ہمارے پروردگار ہم آپ کی کسی بھی نعمت کی تکذیب و ناشکری نہ کریں گے، آپ ہی کے لئے حمد ہے " اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ سورت مکی ہے، کیونکہ لیلتہ الجن وہ رات جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جناب کو تبلیغ وتعلیم فرمائی مکہ مکرمہ میں ہوئی ہے۔- اسی طرح کی اور بھی چند روایات قرطبی نے نقل کی ہیں جن سے اس سورت کا مکی ہونا معلوم ہوتا ہے اس سورت کو لفظ رحمن سے شروع کیا گیا اس میں ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ کفار مکہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے رحمن سے واقف نہ تھے، اسی لئے کہتے تھے وما الرحمن کہ رحمن کیا چیز ہے، ان لوگوں کو واقف کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے یہاں رحمن کا انتخاب کیا گیا۔- دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ آگے جو کام رحمن کا ذکر کیا گیا ہے، یعنی تعلیم قرآن، اس میں یہ بھی بتلا دیا گیا کہ اس تعلیم قرآن کا مقتضی اور سبب داعی صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، ورنہ اس کے ذمہ کوئی کام واجب و ضروری نہیں، جس کا اس سے سوال کیا جاسکے اور نہ وہ کسی کا محتاج ہے۔
اَلرَّحْمٰنُ ١ ۙ- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
(١۔ ٣) کہ رحمن نے بذریعہ جبریل امین رسول اکرم اور بذریعہ حضور آپ کی امت کو قرآن کریم کی تعلیم دی، یعنی جبریل امین کے ذریعے سے رسول اکرم پر قرآن کریم نازل کیا اور آپ کو قرآن حکیم دے کر آپ کی امت کی طرف مبعوث فرمایا اور اسی نے انسان یعنی آدم کو پیدا کیا اور پھر ان کو گویائی دی اور تمام ان چیزوں کے جو کہ روئے زمین پر ہیں نام سکھائے۔
آیت ١ اَلرَّحْمٰنُ ۔ ” رحمن نے “
1: مشرکینِ مکہ اﷲ تعالیٰ کے نام ’’رحمن‘‘ کو نہیں مانتے تھے، وہ کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے رحمن کیا ہوتا ہے؟ جیسا کہ سورۂ فرقان (۲۵:۶۰) میں گزرا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رحمن کے نام سے ان لوگوں کو چڑ تھی، وہ اس لئے کہ اگر ہر طرح کی رحمت اﷲ تعالیٰ ہی کے ساتھ خاص مان لی جائے تو پھر اُن من گھڑت خداوں کے حصے میں کچھ نہیں آتا جن سے یہ لوگ اپنی مرادیں مانگا کرتے تھے، اور اس طرح اﷲ تعالیٰ کو رحمن مان لینے سے خود بخود ان کے شرک کی نفی ہوجاتی ہے۔ اس سورت میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رحمن اسی اﷲ تعالیٰ کا نام ہے جس کی رحمتوں سے یہ ساری کائنات بھری ہوئی ہے۔ اُس کے سوا کوئی نہیں ہے جو تمہیں رزق، اولاد یا کوئی اور نعمت دے سکے۔ اس لئے عبادت کا حق دار صرف وہی ہے، کوئی اور نہیں۔