3۔ 2 یعنی یہ بندر وغیرہ جانوروں سے ترقی کرتے کرتے انسان نہیں بن گئے۔ جیسا کہ ڈارون کا فلسفہ ارتقا ہے۔ بلکہ انسان کو اسی شکل و صورت میں اللہ نے پیدا فرمایا ہے جو جانوروں سے الگ ایک مستقل مخلوق ہے۔ انسان کا لفظ بطور جنس کے ہے۔
[٢] ہر مالک کا اپنے مملوک کو بتانا ضروری ہے کہ وہ اس سے کتنا کام لینا چاہتا ہے لہذا قرآن اتارا گیا :۔ اللہ ہی نے انسان کو پیدا کیا تو انسان کی ہدایت بھی اللہ کے ذمہ تھی۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے یہ قرآن نازل فرما کر اس ذمہ داری کو پورا کردیا۔ قرآن کا اتارنا اس کی رحمت کا بھی تقاضا تھا اور اس کی خا لقیت کا بھی۔ پھر وہ خالق ہونے کے ساتھ ساتھ مالک بھی ہے اور ہر چیز بشمول انسان اس کی مملوک ہے۔ اور ہر مالک کا اپنے مملوک کو یہ بتانا ضروری ہوتا ہے کہ اس سے وہ کیا کام لینا چاہتا ہے اور کس مقصد کے لیے اسے بنایا گیا ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کو بھی انسانوں کو یہ بتانا ضروری تھا کہ ان کا مقصد حیات کیا ہے ؟ اور یہ ضرورت قرآن اتار کر پوری کردی گئی۔
خَلَقَ الْاِنْسَانَ : یہ بھی ” الرحمن “ کی خبر ہے اور اسے فعل کی صورت میں لانے سے تخصیص کا فائدہ حاصل ہو رہا ہے ، چناچہ اس آیت میں بھی دو باتیں بیان ہوئی ہیں ، ایک یہ کہ رحمان ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے ، سو عبادت بھی اس اکیلے کی ہے۔ دوسری انسان کو پیدا ہے۔ زمین و آسمان میں موجود دوسری تمام نعمتوں کا ذکر اس کے بعد فرمایا ہے ، کیونکہ وہ سب انسان کی پیدائش کے بعد ہیں ، اگر وہ موجود ہی نہ ہو تو کسی نعمت کا اسے کیا فائدہ ۔ البتہ تعلیم قرآن کی نعمت کا ذکر اس کی اہمیت کی طرف توجہ دلانے کے لیے اس سے پہلے فرما دیا ۔ ” رحمن ہی نے انسان کو پیدا فرمایا “ یہ ایسی بات نہیں جسے مشرکین نہ مانتے ہوں ، مگر اسے صریح لفظوں میں کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین فی الحقیقت یہ بات نہیں مانتے ، کیونکہ اگر مانتے ہوتے تو کسی غیر کی پرستش کیوں کرتے ؟۔
خَلَقَ الْاِنْسَانَ ، عَلَّمَهُ الْبَيَانَ ، انسان کی تخلیق خود حق تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے، اور ترتیب طبعی کے اعتبار سے وہی سب سے مقدم ہے، یہاں تک کہ تعلیم قرآن جس کو پہلے ذکر کیا گیا ہے وہ بھی ظاہر ہے کہ تخلیق کے بعد ہی ہو سکتی ہے، مگر قرآن حکیم نے نعمت تعلیم قرآن کو مقدم اور تخلیق انسان کو موخر کر کے اس طرف اشارہ کردیا کہ تخلیق انسان کا اصل مقصد ہی تعلیم قرآن اور اس کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا ہے، جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہے، وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ " یعنی میں نے جن وانس کو صرف اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کیا کریں " اور ظاہر ہے کہ عبادت بغیر تعلیم الٰہی کے نہیں ہو سکتی، اسی کا ذریعہ قرآن ہے، اس لئے اس حیثیت میں تعلیم قرآن تخلیق انسان سے مقدم ہوگئی۔- تخلیق انسان کے بعد جو نعمتیں انسان کو عطا ہوئیں وہ بیشمار ہیں، ان میں خاص طور پر تعلیم بیان کو یہاں ذکر فرمانے کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جن نعمتوں کا تعلق انسان کے نشوونما اور وجود و بقا سے ہے مثلاً کھانا پینا، سردی گرمی سے بچنے کے سامان، رہنے بسنے کا انتظام وغیرہ ان نعمتوں میں تو ہر جان دار انسان اور حیوان شریک ہے، وہ نعمتیں جو انسان کے ساتھ مخصوص ہیں ان میں سے پہلے تو تعلیم قرآن کا ذکر فرمایا اس کے بعد تعلیم بیان کا، کیونکہ تعلیم قرآن کا افادہ استفادہ بیان پر موقوف ہے۔- اور بیان میں زبانی بیان بھی داخل ہے، تحریر و خط اور افہام و تفہیم کے جتنے ذرائع حق تعالیٰ نے پیدا فرمائے ہیں وہ بیان کے مفہوم میں شامل ہیں اور پھر مختلف خطوں، مختلف قوموں کی مختلف زبانیں اور ان کے محاورات سب اسی تعلیم بیان کے اجزاء ہیں جو وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّهَا کی عملی تفسیر ہے، فتبرک اللہ احسن الخلقین۔
خَلَقَ الْاِنْسَانَ ٣ ۙ- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی:- وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل :- فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔
آیت ٣ خَلَقَ الْاِنْسَانَ ۔ ” اسی نے انسان کو بنایا۔ “- اس سلسلے کا تیسرا اہم نکتہ یہ نوٹ کرلیں کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی معراج ( ) انسان ہے۔ انسان کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ نے عالم ِامر اور عالم خلق (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : سورة النحل ‘ آیت ٤٠ کی تشریح) دونوں کو جمع فرما دیا ہے ۔ اسی لیے انسان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا : خَلَقْتُ بِیَدَیَّ (ص : ٧٥) کہ میں نے اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے۔
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :2 بالفاظ دیگر ، چونکہ اللہ تعالیٰ انسان کا خالق ہے ، اور خالق ہی کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی مخلوق کی رہنمائی کرے اور اسے وہ راستہ بتائے جس سے وہ اپنا مقصد وجود پورا کر سکے ، اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کی اس تعلیم کا نازل ہونا محض اس کی رحمانیت ہی کا تقاضا نہیں ہے ، بلکہ اس کے خالق ہونے کا بھی لازمی اور فطری تقاضا ہے ۔ خالق اپنی مخلوق کی رہنمائی نہ کرے گا تو اور کون کرے گا ؟ اور خالق ہی رہنمائی نہ کرے تو اور کون کر سکتا ہے؟ اور خالق کے لیے اس سے بڑا عیب اور کیا ہو سکتا ہے کہ جس چیز کو وہ وجود میں لائے اسے اپنے وجود کا مقصد پورا کرنے کا طریقہ نہ سکھائے؟ پس در حقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی تعلیم کا انتظام ہونا عجیب بات نہیں ہے ، بلکہ یہ انتظام اگر اس کی طرف سے نہ ہوتا تو قابل تعجب ہوتا پوری کائنات میں جو چیز بھی اس نے بنائی ہے اس کو محض پیدا کر کے نہیں چھوڑ دیا ہے ، بلکہ اس کو وہ موزوں ترین ساخت دی ہے جس سے وہ نظام فطرت میں اپنے حصے کا کام کرنے کے قابل ہو سکے ، اور اس کام کو انجام دینے کا طریقہ اسے سکھایا ہے ، خود انسان کے اپنے جسم کا ایک ایک رونگٹا اور ایک ایک خلیہ ( ) وہ کام سیکھ کر پیدا ہوا ہے جو اسے انسانی جسم میں انجام دینا ہے ۔ پھر آخر انسان بجائے خود اپنے خالق کی تعلیم و رہنمائی سے بے نیاز یا محروم کیسے ہو سکتا تھا ؟ قرآن مجید میں اس مضمون کو مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے سمجھایا گیا ہے ۔ سورہ لَیل ( آیت 12 ) میں فرمایا اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدیٰ ۔ رہنمائی کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔ سورہ نحل ( آیت 9 ) میں ارشاد ہوا وَعَلَی اللہِ قَصْدُ السَّبِیلِ وَمِنْھَا جَآئِرٌ ۔ یہ اللہ کے ذمہ ہے کہ سیدھا راستہ بتائے اور ٹیڑھے راستے بہت سے ہیں ۔ سورہ طٰہٰ ( آیات 47 ۔ 50 ) میں ذکر آتا ہے کہ جب فرعون نے حضرت موسیٰ کی زبان سے پیغام رسالت سن کر حیرت سے پوچھا کہ آخر وہ تمہارا رب کونسا ہے جو میرے پاس رسول بھیجتا ہے ، تو حضرت موسیٰ نے جواب دیا کہ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطیٰ کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہ ثُمَّ ھَدیٰ ۔ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی مخصوص ساخت عطا کی اور پھر اس کی رہنمائی کی ، یعنی وہ طریقہ سکھایا جس سے وہ نظام وجود میں اپنے حصے کا کام کر سکے ۔ یہی وہ دلیل ہے جس سے ایک غیر متعصب ذہن اس بات پر مطمئن ہو جاتا ہے کہ انسان کی تعلیم کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسولوں اور کتابوں کا آنا عین تقاضائے فطرت ہے ۔