5۔ 1 یعنی اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حساب سے اپنی اپنی منزلوں پر رواں دواں رہتے ہیں، ان سے تجاوز نہیں کرتے۔
[٤] چاند اور سورج میں نظم کی بنا پر انسانوں کو پہنچنے والے فائدے :۔ سورج اور چاند کا ایک مقررہ رفتار کے مطابق چلنا۔ پھر اس میں ایک لحظہ کی بھی تاخیر نہ ہونا انسان کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ سورج سے دن رات ادل بدل کر آتے رہتے ہیں اور موسموں میں بتدریج تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ نمازوں کے اوقات کا تعلق بھی سورج سے ہے۔ فصلوں کے پکنے کا انحصار بھی سورج سے ہے۔ چاند سے ہمیں رات کو روشنی حاصل ہوتی ہے۔ ہم مہینوں اور سالوں کا حساب رکھ سکتے ہیں اور یہی حقیقی اور فطری تقویم ہے۔ اسی لیے رمضان کے روزے، حج، عیدیں اور دوسری قابل شمار مدتوں مثلاً مدت حمل، مدت رضاعت و عدت وغیرہ کا تعلق چاند سے ہوتا ہے۔ پھر سورج اور زمین کے درمیان ایسا مناسب فاصلہ رکھا گیا ہے۔ کہ اس میں کمی بیشی سے اس زمین پر انسان اور دوسرے سب جانداروں کی زندگی ہی ناممکن ہے۔ اور سب فائدے اسی صورت میں حاصل ہورہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان عظیم الجثہ کروں کو ایسے طبعی قوانین میں جکڑ رکھا ہے جس سے وہ ادھر ادھر ہو ہی نہیں سکتے اور اپنے مقرر مداروں پر مقررہ رفتار سے ہمہ وقت محو گردش رہتے ہیں۔
اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ :” حسبان “ ” حسب یحسب “ کا مصدر ہے ، جس میں ” الف نون “ زیادہ کردیا گیا ہے ، جس سے معنی میں اضافہ ہوگیا ہے ، جیسے ” طغیان “ ” رجحان “ اور ” کفران “ وغیرہ میں ہے۔ یعنی سورج اور چاند نہایت محکم اور باریک حساب کے ساتھ چل رہے ہیں ، آسمان کے نیچے ثوابت و سیار ستاروں کا کوئی شمار نہیں ، جن میں سے بعض سورج اور چاند سے بھی ہزاروں گنا بڑے ہیں ۔ ان کی پیدائش اور گردش میں اللہ تعالیٰ کی بےحساب حکمتوں کا بھی کچھ شمار نہیں ، مگر خاص طور پر سورج اور چاند کا ذکر اس لیے فرمایا کہ نمایاں نظر آنے کی وجہ سے زمین کے رہنے والوں کے معاملات کا ان دونوں کے ساتھ زیادہ تعلق ہے۔ مفسر کیلانی لکھتے ہیں :’ ’ سورج اور چاند کا ایک مقرر رفتار کے مطابق چلنا ، پھر اس میں ایک لحظہ کی بھی تاخیر نہ ہونا انسان کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ سورج سے دن رات ادل بدل کر آتے رہتے ہیں اور موسموں میں بتدریج تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ نمازوں کے اوقات کا تعلق بھی سورج سے ہے، فیصلوں کے پکنے کا انحصار بھی سورج سے ہے۔ چاند سے ہمیں رات کو روشنی حاصل ہوتی ہے، ہم مہینوں اور سالوں کا حساب رکھ سکتے ہیں اور یہی حقیقی اور فطری تقویم ( کیلنڈر) ہے۔ اسی لیے رمضان کے روزے ، حج ، عیدین اور دوسری قابل شمار مدتوں ، مثلاً مدت ِ حمل ، مدت ِ رضاعت و عدت وغیرہ کا تعلق چاند سے ہوتا ہے۔ پھر سورج اور زمین کے درمیان ایسا مناسب فاصلہ رکھا گیا ہے کہ اس میں کمی بیشی سے اس زمین پر انسان اور دوسرے سب جانداروں کی زندگی ہی ناممکن ہے اور سب فائدے اسی صورت میں حاصل ہو رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان عظیم الجثہ کروں کو ایسے طبعی قوانین میں جکڑ رکھا ہے جس سے وہ ادھر ادھر ہو ہی نہیں سکتے اور اپنے مقرر مداروں پر مقررہ رفتار سے ہمہ وقت محو گردش رہتے ہیں “۔ ( تیسیر القرآن ) مزید دیکھئے سورة ٔ انعام (٩٦) سورة ٔ بنی اسرائیل (١٢)
اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْـبَانٍ ، انسان کے لئے حق تعالیٰ نے جو نعمتیں زمین و آسمان میں پیدا فرمائی ہیں اس آیت میں علویات میں سے شمس و قمر کا ذکر خصوصیت سے شاید اس لئے کیا ہے کہ عالم دنیا کا سارا نظام کار ان دونوں سیاروں کی حرکات اور ان کی شعاعوں سے وابستہ ہے اور لفظ حسبان بضم الحاء بعض حضرات نے فرمایا کہ حساب کے معنے میں مصدر ہے، جیسے غفران، سبحان، قرآن، اور بعض نے فرمایا کہ حساب کی جمع ہے اور مراد آیت کی یہ ہے کہ شمس و قمر کی حرکات جن پر انسانی زندگی کے تمام کاروبار موقوف ہیں، رات دن کا اختلاف، موسموں کی تبدیلی، سال اور مہینوں کی تعیین، ان کی تمام حرکات اور دوروں کا نظام محکم ایک خاص حساب اور اندازے کے مطابق چل رہا ہے، اور اگر حسبان کو حساب کی جمع قرار دیا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ ان میں سے ہر ایک کے دورہ کا الگ الگ حساب ہے، مختلف قسم کے حسابوں پر یہ نظام شمسی اور قمری چل رہا ہے اور حساب بھی ایسا محکم و مضبوط کہ لاکھوں سال سے اس میں ایک منٹ، ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آیا۔- یہ زمانہ سائنس کی معراج کا زمانہ کہا جاتا ہے اور اس کی حیرت انگیز نئی نئی ایجادوں نے عقلاء کو حیران کر رکھا ہے، لیکن انسانی مصنوعات اور ربانی تخلیقات کا کھلا ہوا فرق ہر دیکھنے والا دیکھتا ہے کہ انسانی مصنوعات میں بگاڑ اور سنوار کا سلسلہ ایک لازمی امر ہے، مشین کوئی کتنی ہی مضبوط و مستحکم ہو کچھ عرصہ کے بعد اس کو مرمت کی اور کم ازکم گریس وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس وقت تک کے لئے وہ مشین معطل رہتی ہے، حق تعالیٰ کی جاری کی ہوئی یہ عظیم الشان مخلوقات نہ کبھی مرمت کی محتاج ہے نہ کبھی ان کی رفتار میں کوئی فرق آتا ہے۔
اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْـبَانٍ ٥ ۠- شمس - الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] ، وقال :- الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها .- ( ش م س ) الشمس - کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔- قمر - القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] - ( ق م ر ) القمر - ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔- حَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية،- وحَسْبُ يستعمل في معنی الکفاية، حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران 173] ، أي : کافینا هو، وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة 8] ، وَكَفى بِاللَّهِ حَسِيباً [ النساء 6] ، أي : رقیبا يحاسبهم عليه، وقوله : ما عَلَيْكَ مِنْ حِسابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَما مِنْ حِسابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنعام 52] ، فنحو قوله : عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ [ المائدة 105] ، ونحوه : وَما عِلْمِي بِما کانُوا يَعْمَلُونَ إِنْ حِسابُهُمْ إِلَّا عَلى رَبِّي [ الشعراء 112- 113] ، وقیل معناه : ما من کفایتهم عليك، بل اللہ يكفيهم وإياك، من قوله : عَطاءً حِساباً [ النبأ 36] ، أي : کافیا، من قولهم : حسبي كذا، وقیل : أراد منه عملهم، فسمّاه بالحساب الذي هو منتهى الأعمال . وقیل : احتسب ابْناً له، أي : اعتدّ به عند اللہ - الحسیب والمحاسب کے اصل معنی حساب لینے والا یا حساب کرنے والا کے ہیں ۔ پھر حساب کے مطابق بدلہ دینے والے کو بھی ھسیب کہا جاتا ہے ۔ ( اور یہی معنی اللہ تعالیٰ کے حسیب ہونے کے ہیں ) اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ حَسِيباً [ النساء 6] تو خدا ہی ( گواہ اور ) حساب لینے والا کافی ہے ۔ میں حسیب بمعنی رقیب ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی نگہبانی کے لئے کافی ہے جوان سے محاسبہ کرے گا ۔ حسب ( اسم فعل ) بمعنی کافی ۔ جیسے فرمایا : ۔ حَسْبُنَا اللَّهُ [ آل عمران 173] ہمیں خدا کافی ہے ۔ وحَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ [ المجادلة 8] ان کو دوزخ رہی کی سزا کافی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ما عَلَيْكَ مِنْ حِسابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَما مِنْ حِسابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنعام 52] ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت : ۔ عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ [ المائدة 105] اپنی جانوں کی حفاظت کرو جب تم ہدایت پر ہو تو کوئی گمراہ تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا ۔ اور آیت : ۔ وَما عِلْمِي بِما کانُوا يَعْمَلُونَ إِنْ حِسابُهُمْ إِلَّا عَلى رَبِّي [ الشعراء 112- 113] مجھے کیا معلوم کہ وہ کیا کرتے ہیں ان کا حساب ( اعمال ) میرے پروردگار کے ذمے ہے ۔ کے مفہہوم کے مطابق ہے بعض نے آیت کے یہ معنی کئے ہیں کہ ان کو کافی ہونا تمہارا کام نہیں ہے ۔ بلکہ تیرے اور ان کے لئے اللہ ہی کافی ہے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ عَطاءً حِساباً [ النبأ 36] میں حساب بمعنی کافی ہے اور یہ کے محاورہ سے لیا گیا ہے ۔
آیت ٥ اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ ۔ ” سورج اور چاند ایک حساب کے ساتھ گردش کرتے ہیں۔ “- سورج اور چاند کی گردش ایک قطعی اور مربوط نظام کا حصہ ہے۔ ان کی گردش سے ہی دن رات بنتے ہیں اور دنوں ‘ مہینوں اور سالوں کا حساب ممکن ہوتا ہے۔
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :4 یعنی ایک زبردست قانون اور ایک اٹل ضابطہ ہے جس سے یہ عظیم الشان سیارے بندھے ہوئے ہیں ۔ انسان وقت اور دن اور تاریخوں اور فصلوں اور موسموں کا حساب اسی وجہ سے کر رہا ہے کہ سورج کے طلوع و غروب اور مختلف منزلوں سے اس کے گزرنے کا جو قاعدہ مقرر کر دیا گیا ہے اس میں کوئی تغیر رونما نہیں ہوتا ۔ زمین پر بے حد و حساب مخلوق زندہ ہی اس وجہ سے ہے کہ سورج اور چاند کو ٹھیک ٹھیک حساب کر کے زمین سے ایک خاص فاصلے پر رکھا گیا ہے اور اس فاصلے میں کمی و بیشی صحیح ناپ تول سے ایک خاص ترتیب کے ساتھ ہوتی ہے ۔ ورنہ زمین سے ان کا فاصلہ کسی حساب کے بغیر بڑھ یا گھٹ جائے تو یہاں کسی کا جینا ہی ممکن نہ رہے ۔ اسی طرح زمین کے گرد چاند اور سورج کے درمیان حرکات میں ایسا مکمل تناسب قائم کیا گیا ہے کہ چاند ایک عالمگیر جنتری بن کر رہ گیا ہے جو پوری باقاعدگی کے ساتھ ہر رات ساری دنیا کو قمری تاریخ بتا دیتی ہے ۔