Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٠] عرباً اتراباً کا لغوی مفہوم :۔ عُرُبًا عُرُوْبٌ کی جمع ہے اور عروب کے معنی ہیں اپنے خاوند سے محبت کرنے والی عورت اور بمعنی بہت ہنسنے ہنسانے والی اور خوش ذوق اور ناز و ادا سے اپنے خاوند کو لبھانے والی عورت۔- [٢١] أتْرَابٌ۔ تُرَابٌ بمعنی مٹی اور تارب ایک ساتھ مٹی میں کھیلنا۔ ہم عمر ہونا۔ دوست ہونا۔ اور ترب بمعنی ہم عصر، ہم عمر ساتھی اور ترب کی مونث تربۃ ہے اور ترب اور تربہ دونوں کی جمع اتراب آتی ہے۔ لیکن اتراب کا لفظ عموماً عورتوں کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ گویا اتراب سے مراد ایسی دوست اور ہم عمر عورتیں ہیں جن کے مزاج میں بھی پوری ہم آہنگی پائی جاتی ہو۔ یہ عورتیں آپس میں بھی ہم عمر ہوں گی اور نوجوان ہی رہیں گی اور اپنے خاوندوں سے بھی عمر کا تناسب برابر قائم رہے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

عُرُبًا اَتْرَابًا لِّاَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ ” عربا “” عروب “ ( بفتح عین) کی جمع ہے ، جیسے ” رسول “ کی جمع ” رسل “ ہے ۔ یہ ” اعرب فلان فی قولہ “ سے ہے ، جب کوئی شخص فصاحت اور حسن بیان سے بات کرے۔ یعنی میٹھی میٹھی باتوں اور ناز و انداز سے خاوند کا دل لبھانے والی اور اس کی محبت حاصل کرنے والی عورتیں ، خاوند کی محبوب عورتیں ۔ ” اترابا “” ترب “ کی جمع ہے، ہم عمر جو مل کر مٹی میں کھیلتے رہے ہوں ۔ ” لا صحب الیمین “” اترابا “ سے متعلق ہے ، یعنی وہ اصحاب الیمین کی ہم عمر ہوں گی ۔ ہم عمر ی میں جو موافقت پائی جاتی ہے وہ اس کے سوا میں حاصل نہیں ہوتی ۔ واضح رہے کہ ان آیات کا یہ مطلب نہیں کہ سابقون کو ملنے والی نعمتیں اور ہوں گی اور اصحاب الیمین کو ملنے والی دوسری ، بلکہ دونوں کو ملنے والی بیشمار نعمتیں مشترک ہوں گی ، مثلاً جنت کے پھل ، مکانات ، نہریں ، بیویاں ، خدام وغیرہ ۔ ہاں ، ان کی کیفیت میں ضرور فرق ہوگا ساتھیوں کو ملنے والی نعمتیں اصحاب الیمین کو ملنے والی نعمتوں سے اعلیٰ درجے کی ہوں گی ۔ دونوں کے لیے نعمتوں کے بیان سے مقصود ترغیب اور ان کا شو ق دلانا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

عُرُبًا، بضم عین و راء، عروبہ کی جمع ہے، اس عورت کو کہتے ہیں جو اپنے شوہر کی عاشق اور اس کی من پسند محبوبہ ہو۔ - اتراب، ترب بکسر تاء کی جمع، جس کے معنی ہم عمر کے ہیں، جو مٹی میں ساتھ کھیلا ہو، جنت میں مرد و عورت سب ہم عمر کردیئے جاویں گے، بعض روایات حدیث میں ہے کہ سب کی عمر 33 سال ہوگی (مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

عُرُبًا اَتْرَابًا۝ ٣٧ ۙ- عُرُباً- وامرأةٌ عَرُوبَةٌ: مُعْرِبَةٌ بحالها عن عفّتها ومحبّة زوجها، وجمعها : عُرُبٌ. قال تعالی: عُرُباً أَتْراباً- [ الواقعة 37] ، وعَرَّبْتُ عليه : إذا رددت من حيث الإعراب . وفي الحدیث : «عَرِّبُوا علی الإمام» . والمُعْرِبُ : صاحب الفرس العَرَبِيّ- ہے امرءۃ عروبۃ وہ عورت جو اپنے خاوند سے محبت اور پاک بازی کو ظاہر کرنے والی ہو ۔ اس کی جمع عروب ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : عُرُباً أَتْراباً [ الواقعة 37]( اور شوہروں کی ) پیاریاں اور ہم عمر ۔ اور عربت علیہ کے معنی کسی کو اس کی غلطی بتانے کے ہیں حدیث میں ہے (36) عربوا علی الامام ( امام قرآت میں غلطی کرے تو اسے بتادو ) المعرب عربی گھوڑے کا مالک - ترب - التُّرَاب معروف، قال تعالی: أَإِذا كُنَّا تُراباً [ الرعد 5] ، وقال تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر 11] ، الَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] . وتَرِبَ : افتقر، كأنه لصق بالتراب، قال تعالی: أَوْ مِسْكِيناً ذا مَتْرَبَةٍ [ البلد 16] ، أي : ذا لصوق بالتراب لفقره . وأَتْرَبَ : استغنی، كأنه صار له المال بقدر التراب، والتَّرْبَاء : الأرض نفسها، والتَّيْرَب واحد التَّيَارب، والتَّوْرَب والتَّوْرَاب : التراب، وریح تَرِبَة : تأتي بالتراب، ومنه قوله عليه السلام :- «عليك بذات الدّين تَرِبَتْ يداك» تنبيها علی أنه لا يفوتنّك ذات الدین، فلا يحصل لک ما ترومه فتفتقر من حيث لا تشعر . وبارح تَرِبٌ: ريح فيها تراب، والترائب : ضلوع الصدر، الواحدة : تَرِيبَة . قال تعالی: يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرائِبِ [ الطارق 7] ، وقوله : أَبْکاراً عُرُباً أَتْراباً [ الواقعة 36- 37] ، وَكَواعِبَ أَتْراباً [ النبأ 33] ، وَعِنْدَهُمْ قاصِراتُ الطَّرْفِ أَتْرابٌ [ ص 52] ، أي : لدات، تنشأن معا تشبيها في التساوي والتماثل بالترائب التي هي ضلوع الصدر، أو لوقوعهنّ معا علی الأرض، وقیل :- لأنهنّ في حال الصبا يلعبن بالتراب معا .- ( ت ر ب ) التراب کے معنی منی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر 11] کہ اس نے تمہیں منی سے پیدا کیا ۔ الَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] کہ اے کاش کے میں مٹی ہوتا ۔ ترب کے معنی فقیر ہونے کے ہیں کیونکہ فقر بھی انسان کو خاک آلودہ کردیتا ہے ۔ فرمایا :۔ أَوْ مِسْكِيناً ذا مَتْرَبَةٍ [ البلد 16] یا فقیر خاکسار کو ۔ یعنی جو بوجہ فقر و فاقہ کے خاک آلودہ رہتا ہے ۔ اترب ( افعال ) کے معنی مال دار ہونے کے ہیں ۔ گویا اس کے پاس مٹی کی طرح مال ہے نیز تراب کے معنی زمین کے بھی آتے ہیں اور اس میں التیراب ( ج) تیارب اور التوراب والتورب والتوراب وغیرہ دس لغات ہیں ۔ ریح تربۃ خاک اڑانے والی ہو ۔ اسی سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے (50) علیک بذاب الدین تربت یداک کہ شادی کے لئے دیندار عورت تلاش کرو ۔ تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ دیندار عورت تیرے ہاتھ سے نہ جانے پائے ورنہ تمہارا مقصد حاصل نہیں ہوگا اور تم غیر شعوری طورپر فقیر ہوجاو گے ۔ بارح ترب خاک اڑانے والی ہو ۔ ترائب سینہ کی پسلیاں ( مفرد ت ربیۃ ) قرآن میں ہے ۔ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرائِبِ [ الطارق 7] جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَبْکاراً عُرُباً أَتْراباً [ الواقعة 36- 37] کنواریاں اور شوہروں کی پیاریاں اور ہم عمر ۔ اور ہم نوجوان عورتیں ۔ اور ان کے پاس نیچی نگاہ رکھنے والی ( اور ) ہم عمر ( عورتیں ) ہوں گی ۔ میں اتراب کے معنی ہیں ہم عمر جنہوں اکٹھی تربیت پائی ہوگی گو یا وہ عورتیں اپنے خاوندوں کے اس طرح مساوی اور مماثل یعنی ہم مزاج ہوں گی جیسے سینوں کی ہڈیوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور ریا اس لئے کہ گو یا زمین پر بیک وقت واقع ہوئی ہیں اور بعض نے یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ وہ اکٹھی مٹی میں ایک ساتھ کھیلتی رہی ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ عُرُبًا اَتْرَابًا ۔ ” پیار دینے دلانے والیاں ‘ ہم عمر۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :18 اصل میں لفظ عُرُباً استعمال ہوا ہے ، یہ لفظ عربی زبان میں عورت کی بہترین نسوانی خوبیوں کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اس سے مراد ایسی عورت ہے جو طرحدار ہو ، خوش اطوار ہو ، خوش گفتار ہو ، جسمانی جذبات سے لبریز ہو ، اپنے شوہر کو دل و جان سے چاہتی ہو ، اور اس کا شوہر بھی اس کا عاشق ہو ۔ سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :19 اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ اپنے شوہروں کی ہم سن ہوں گی ۔ دوسرا یہ کہ وہ آپس میں ہم سن ہوں گی ، یعنی تمام جنتی عورتیں ایک ہی عمر کی ہوں گی اور ہمیشہ اسی عمر کی رہیں گی ۔ بعید نہیں کہ یہ دونوں ہی باتیں بیک وقت صحیح ہوں ، یعنی یہ خواتین خود بھی ہم سن ہوں اور ان کے شوہر بھی ان کے ہم سن بنا دیے جائیں ۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ یدخل اھل الجنۃ الجنۃ جردا مردا بیضا جعادا مکحلین ابناء ثلاث و ثلاثین ۔ اہل جنت جب جنت میں داخل ہوں گے تو ان کے جسم بالوں سے صاف ہوں گے ۔ مسیں بھیگ رہی ہوں گی مگر ڈاڑھی نہ نکلی ہوگی ۔ گورے چٹے ہوں گے ۔ گٹھے ہوئے بدن ہوں گے ۔ آنکھیں سرمگیں ہوں گی ۔ سب کی عمریں 33 سال کی ہوں گی ۔ ( مسند احمد ، مرویات ابی ہریرہ ) قریب قریب یہی مضمون ترمذی میں حضرت معاذ بن جَبَل اور حضرت ابو سعید خدری ( رضی اللہ عنہم ) سے بھی مروی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: اس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ اپنے شوہروں کی ہم عمر ہوں گی، کیونکہ اپنی ہم عمر کے ساتھ ہی رفاقت کا صحیح لطف حاصل ہوتا ہے، اور یہ مطلب بھی ممکن ہے کہ وہ سب آپس میں ہم عمر ہوں گی، بعض احادیث میں ہے کہ جنتیوں کی عمر ٣٣ سال کردی جائے گی جو شباب کا زمانہ ہوتا ہے (ترمذی عن معاذ)۔