9 6 1حدیث میں آتا ہے کہ دو کلمے اللہ کو بہت محبوب ہیں، زبان پر ہلکے اور وزن میں بھاری۔ سُبْحَان اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہِ سُبْحَان اللّٰہِ الْعَظِیْمِ (صحیح بخاری) ۔
[٤٤] تسبیح وتحمید کی فضیلت اور فوائد :۔ تسبیح وتحمید میں مشغول رہنا ہی آخرت کی سب سے بڑی تیاری ہے۔ اس نیک مشغلہ سے جھٹلانے والوں کی دل آزار بیہودگی سے بھی یکسوئی رہتی ہے اور ان کے باطل خیالات کا رد بھی ہوتا ہے اور سیدنا عقبہ بن عامر جہنی (رض) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ نے حکم دیا کہ اس کو تم لوگ اپنے رکوع میں رکھو یعنی (سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ ) پڑھا کرو اور جب سبح اسم ربک الاعلٰی نازل ہوئی تو آپ نے فرمایا اسے اپنے سجدے میں رکھو یعنی (سُبْحَانَ رَبِّیَ الاَعْلٰی) کہا کرو۔ (مسند احمد، ابو داؤد) گویا آپ نے نماز کا جو طریقہ مقرر فرمایا اس کے چھوٹے چھوٹے اجزاء بھی قرآن کریم کے اشاروں سے ماخوذ ہیں۔ تسبیح وتحمید کی فضیلت میں وہ حدیث نہایت جامع ہے جو امام بخاری نے اپنی کتاب کے آخر میں درج فرمائی ہے جو یہ ہے۔- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا دو کلمے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں۔ زبان سے ادائیگی کے لحاظ سے ہلکے پھلکے مگر میزان اعمال میں بہت وزنی ہیں اور وہ ہیں (سُبْحَان اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ سُبْحَان اللّٰہِ الْعَظِیْمِ ) (بخاری۔ کتاب التوحید باب قولہ تعالیٰ وَنَضَعُ الْمَوَازِ یْنَ الْقِسْطَ )
فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ ، ختم سورة پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے کہ آپ اپنے رب کے نام کی تسبیح پڑھتے رہئے، یعنی اس کی پاکی تمام ان چیزوں سے جو اس کے لائق شان ہیں بیان کرتے رہئے، اس میں نماز کی تسبیحات بھی داخل ہیں اور خارج نماز کی تسبیحات بھی اور خود نماز کو بھی بعض اوقات تسبیح سے تعبیر کردیا جاتا ہے تو یہ حکم نماز کے اہتمام کا بھی ہوگیا، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔- تمت - سورة الواقعة بحمد اللہ وعونہ - لیلة الثلاثاء لعشرین من ربیع الثانی - س 1391 ھ ویتلوہ انشآء اللہ تعالیٰ سورة الحدید
فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ ٩٦ ۧ- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - اسْمُ- والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها .- وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین :- أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس .- والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ.- ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا - [ مریم 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى- [ النجم 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا - [ مریم 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره .- الاسم - کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔- عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
آیت ٩٦ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ ۔ ” پس آپ تسبیح کیجیے اپنے رب کے نام کی جو کہ بہت عظمت والا ہے۔ “- اس کے جواب میں امتثالِ امر کے طور پر کہا جائے گا : سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ یہ آیت اس سورت میں دو مرتبہ آئی ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اِجْعَلُوْھَا فِیْ رُکُوْعِکُمْ ) (١) (١) سنن ابی داوٗد ‘ کتاب الصلاۃ ‘ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ ‘ ح : ٨٦٩ و صحیح ابن حبان ‘ ح : ١٨٩٨۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح جب آیت سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی ۔ (الاعلیٰ ) نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اِجْعَلُوْھَا فِیْ سُجُُوْدِکُمْ ) کہ اس کو تم لوگ اپنے سجدوں میں رکھ دو ۔- کہ اس کو تم لوگ اپنے رکوع میں رکھ دو ۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان کے مطابق رکوع کی تسبیح سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم اس آیت سے اخذ کی گئی ہے۔
سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :42 حضرت عقبہ بن عامر جہنی کی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کو تم لوگ اپنے رکوع میں رکھ دو ، یعنی رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم کہا کرو ۔ اور جب آیت سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ نازل ہوئی تو آپ نے فرمایا اسے اپنے سجدے میں رکھو ، یعنی سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ کہا کرو ( مسند احمد ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، ابن حبان ، حاکم ) ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا جو طریقہ مقرر فرمایا ہے اس کے چھوٹے سے چھوٹے اجزاء تک قرآن پاک کے اشاروں سے ماخوذ ہیں ۔