Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم صحابہ ایک دن بیٹھے بیٹھے آپس میں یہ تذکرے کر رہے تھے کہ کوئی جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دریافت کرے کہ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب عمل کونسا ہے؟ مگر ابھی کوئی کھڑا بھی نہ ہوا تھا کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد پہنچا اور ہم میں سے ایک ایک کو بلا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا جب ہم سب جمع ہوگئے تو آپ نے اس پوری سورت کی تلاوت کی ( مسند احمد ) اس میں ذکر ہے کہ جہاد سب سے زیادہ محبوب الٰہی ہے ۔ ابن ابی حاتم کی اس حدیث میں ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے ڈرے اور اس میں یہ بھی ہے کہ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری سورت پڑھ کر سنائی تھی اسی طرح اس روایت بیان کرنے والے صحابی نے تابعی کو پڑھ کر سنائی اور تابعی نے اپنے شاگرد کو اور اس نے اپنے شاگرد کو اسی طرح آخر تک اور روایت میں ہے کہ ہم نے کہا تھا اگر ہمیں ایسے عمل کی خبر ہو جائے تو ہم ضرور اس پر عامل ہو جائیں ، مجھ سے میرے استاد شیخ مسند ابو العباس احمد بن ابو طالب حجار نے بھی اپنی سند سے یہ حدیث بیان کی ہے اور اس میں بھی مسلسل ہر استاد کا اپنے شاگرد کو یہ سورت پڑھ کر سنانا مروی ہے یہاں تک کہ میرے استاد نے بھی اپنے استاد سے اسے سنا ہے لیکن چونکہ وہ خود امی تھے اور اسے یاد کرنے کا انہیں وقت نہیں ملا انہوں نے مجھے پڑھ کر نہیں سنائی ، لیکن الحمد اللہ میرے دوسرے استاد حافظ کبیر ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عثمان نے اپنی سند سے یہ حدیث مجھے پڑھاتے وقت یہ سورت بھی پوری پڑھ کر سنائی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصَّف نام : چوتھی آیت کے فقرے یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہ صَفّاً سے ماخوذ ہے ۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورۃ ہے جس میں لفظ صف آیا ہے ۔ زمانہ نزول : کسی معتبر روایت سے اس کا زمانہ نزول معلوم نہیں ہو سکا ۔ لیکن اس کے مضامین پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ غالباً جنگ احد کے متصل زمانے میں نازل ہوئی ہو گی ، کیونکہ اس کے بین السطور میں جن حالات کی طرف اشارہ محسوس ہوتا ہے وہ اسی دور میں پائے جاتے تھے ۔ موضوع اور مضمون : اس کا موضوع ہے مسلمانوں ایمان میں اخلاص اختیار کرنے اور اللہ کی راہ میں جان لڑانے پر ابھارنا ۔ اس میں ضعیف الایمان مسلمانوں کو بھی مخاطب کیا گیا ہے ، اور ان لوگوں کو بھی جو ایمان کا جھوٹا دعویٰ کر کے اسلام میں داخل ہو گئے تھے ، اور ان کو بھی جو مخلص تھے ۔ بعض آیات کا خطاب پہلے دونوں گروہوں سے ہے ، بعض میں صرف منافقین مخاطب ہیں ، اور بعض کا روئے سخن صرف مخلصین کی طرف ہے ۔ انداز کلام سے خود معلوم ہو جاتا ہے کہ کہاں کون مخاطب ہے ۔ آغاز میں تمام ایمان لانے والوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہایت مبغوض ہیں وہ لوگ جو کہیں کچھ اور کریں کچھ ، اور نہایت محبوب ہیں وہ لوگ جو راہ حق میں لڑنے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہوں ۔ پھر آیت 5 سے 7 تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اپنے رسول اور اپنے دین کے ساتھ تمہاری روش وہ نہ ہونی چاہیے جو موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بنی اسرائیل نے اختیار کی ۔ حضرت موسیٰ کو وہ خدا کا رسول جاننے کے باوجود جیتے جی تنگ کرتے رہے ، اور حضرت عیسیٰ سے کھلی کھلی نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود وہ ان کو جھٹلانے سے باز نہ آئے ۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس قوم کے مزاج کا سانچہ ہی ٹیڑھا ہو کر رہ گیا اور اس سے ہدایت کی توفیق سلب ہو گئے ۔ یہ کوئی ایسی قابل رشک حالت نہیں ہے کہ کوئی دوسری قوم اس میں مبتلا ہونے کی تمنا کرے ۔ پھر آیت 8 ۔ 9 میں پوری تحدی کے ساتھ اعلان کیا گیا کہ یہود و نصاریٰ اور ان سے ساز باز رکھنے والے منافقین اللہ کے اس نور کو بجھانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کرلیں ، یہ پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا میں پھیل کر رہے گا اور مشرکین کو خواہ کتنا ہی ناگوار ہو ، رسول برحق کا لایا ہوا دین ہر دوسرے دین پر غالب آ کر رہے گا ۔ اس کے بعد آیات 10 سے 13 میں اہل ایمان کو بتایا گیا ہے کہ دنیا اور آخرت میں کامیابی کی راہ صرف ایک ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر سچے دل سے ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرو ۔ آخرت میں اس کا ثمرہ خدا کے عذاب سے نجات ، گناہوں کی مغفرت ، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت کا حصول ہے ، اور دنیا میں اس کا انعام خدا کی تائید و نصرت اور فتح و ظفر ہے ۔ آخر میں اہل ایمان کو تلقین کی گئی ہے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے اللہ کی راہ میں ان کا ساتھ دیا تھا اس طرح وہ بھی انصار اللہ بنیں تاکہ کافروں کے مقابلہ میں ان کو بھی اسی طرح اللہ کی تائیش حاصل ہو جس طرح پہلے ایمان لانے والوں کو حاصل ہوئی تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

تعارف سورۃ الصّفِّ یہ سورت مدینہ منوَّرہ میں اُس وقت نازل ہوئی تھی جب منافقین آس پاس کے یہودیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کررہے تھے، اس سورت میں بنی اسرائیل کے یہودیوں کا یہ کردار خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے خود اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طرح طرح سے تکلیفیں پہنچائیں، جس کے نتیجے میں ان کے مزاج میں ٹیڑھ پیدا ہوگئی، اور جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے تو انہوں نے اُن کی نبوّت کا بھی انکار کیا، اور انہوں نے حضور سَرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی جو بشارتیں دی تھیں، اُن پر بھی کان نہیں دھرا، چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ آپ کی نبوّت پر ایمان لانے سے انکار کردیا، بلکہ آپ کے خلاف سازشیں شروع کردیں، بنی اسرائیل کے اس کردار کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اس سورت میں مخلص مسلمانوں کو یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ اگر انہوں نے حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ٹھیک ٹھیک پیروی کی، اور وہ کام کئے جن کا اﷲ تعالیٰ نے اس سورت میں خاص طور پر حکم دیا ہے، اور ان میں جہاد خصوصی اہمیت رکھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ ان کو عنقریب فتح ونصرت عطا فرمانے والے ہیں، جس کے نتیجے میں منافقین اور یہودیوں کی ساری سازشیں خاک میں مل جائیں گی، اس سیاق میں اس سورت کی چوتھی آیت میں اﷲ تعالیٰ نے ان مسلمانوں کی تعریف فرمائی ہے جو اﷲ تعالیٰ کے راستے میں صف بناکر جہاد کرتے ہیں، اس مناسبت سے اس سورت کا نام سورۂ صف ہے۔