Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 جس میں یہ بات لکھی ہوئی ہے جس کا تم دعویٰ کر رہے ہو، کہ وہاں بھی تمہارے لئے وہ کچھ ہو جسے تم پسند کرتے ہو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨] غلط فہمی کی تین طرح سے تردید :۔ آیت نمبر ٣٧ تا ٤١ میں تین مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ جو ان کے اس باطل نظریہ کی تردید میں نقلی دلائل کی حیثیت رکھتی ہیں اور وہ یہ ہیں :- ١۔ کیا کسی الہامی کتاب میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ آخرت میں بھی تمہیں آسودگی اور خوشحالی کی زندگی میسر ہوگی جیسا کہ تمہاری یہ خواہش ہے۔- ٢۔ یا تم نے ہم سے کچھ ایسے حلف نامے لے رکھے ہیں کہ تمہیں قیامت کے دن وہی کچھ ملے گا جو تم چاہتے ہو اور اپنے حق میں ایسا ہی فیصلہ چاہتے ہو۔ اگر ایسی بات ہے تو بتاؤ کہ ان حلف ناموں کو ہم سے پورا کرا کے دینے کے لیے تم سے کون ذمہ دار اور ضامن ہے ؟- ٣۔ تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ان کے کچھ معبود اللہ کے کارناموں میں اس کے شریک ہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو شریکوں کی بھی کائنات میں شراکت اور امور کائنات میں ان کے تصرف کو ثابت کرکے دکھائیں۔ پھر جب ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے تو پھر آخر یہ کس برتے پر آس لگائے بیٹھے ہیں کہ انہیں اخروی زندگی میں آسودگی اور خوشحالی میسر ہوگی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ام لکم کتب فیہ تدرسون …: کفار جو کہتے تھے کہ ہمیں آخرت میں بھی جنت و نعمت ملے گی، اس بات کی تردید ایک اور طرح سے ہے، فرمایا تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی ؟ اگر کہو کہ تمہیں خود اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے تو بتاؤ تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی کون سی کتاب ہے جس میں تم نے پڑھا ہے کہ آخرت میں تمہیں تمہاری پسند ہی کی چیزیں ملیں گی ؟ صاف ظاہر ہے کہ نہ تمہارے پاس ایسی کوئی کتاب ہے اور نہ تمہارا یہ گمان کچھ حقیقت رکھتا ہے۔- (٢) ” تخیزون “ باب تفعل میں سے ” تنخیرون “ ہے، ایک تاء حذف کردی ہے۔” ان لکم فیہ لما تخیرون “ جملہ مکسور ہوگیا ۔ ترجمہ یہ ہوگا ” کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم یہ بات پڑھتے ہو کہ تمہارے لئے آخرت میں وہی ہوگا جو تم پسند کرو گے ؟ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَمْ لَكُمْ كِتٰبٌ فِيْہِ تَدْرُسُوْنَ۝ ٣٧ ۙ- أَمْ»حرف - إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه :- أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - درس - دَرَسَ الدّار معناه : بقي أثرها، وبقاء الأثر يقتضي انمحاء ه في نفسه، فلذلک فسّر الدُّرُوس بالانمحاء، وکذا دَرَسَ الکتابُ ، ودَرَسْتُ العلم : تناولت أثره بالحفظ، ولمّا کان تناول ذلک بمداومة القراءة عبّر عن إدامة القراءة بالدّرس، قال تعالی: وَدَرَسُوا ما فِيهِ- [ الأعراف 169] ، وقال : بِما كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتابَ وَبِما كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ [ آل عمران 79] ، وَما آتَيْناهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَها [ سبأ 44] ، وقوله تعالی: وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ [ الأنعام 105] ، وقرئ : دَارَسْتَ أي : جاریت أهل الکتاب، وقیل : وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف 169] ، ترکوا العمل به، من قولهم : دَرَسَ القومُ المکان، أي : أبلوا أثره، ودَرَسَتِ المرأةُ : كناية عن حاضت، ودَرَسَ البعیرُ : صار فيه أثر جرب .- ( د ر س ) درس الدار ۔ گھر کے نشان باقی رہ گئے اور نشان کا باقی رہنا چونکہ شے کے فی ذاتہ مٹنے کو چاہتا ہے اس لئے دروس کے معنی انمحاء یعنی مٹ جانا کرلئے جاتے ہیں اسی طرح کے اصل معنی کتاب یا علم حفظ کرکے اس کا اثر لے لینے کے ہیں اور اثر کا حاصل ہونا مسلسل قراءت کے بغیر ممکن نہیں اس لئے درست الکتاب کے معنی مسلسل پڑھنا کے آتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف 169] اور جو کچھ اس ( کتاب ) میں لکھا ہ اس کو انہوں نے پڑھ بھی لیا ہے ۔ بِما كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتابَ وَبِما كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ [ آل عمران 79] کیونکہ تم کتاب ( خدا کی ) تعلیم دینے اور اسے پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو ۔ وَما آتَيْناهُمْ مِنْ كُتُبٍ يَدْرُسُونَها [ سبأ 44] اور ہم نے نہ تو ان کو کتابیں دیں جن کو یہ پڑھتے ہیں اور یہ آیت کریمہ : ۔ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ [ الأنعام 105] میں ایک قراءت وارسلت بھی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کافر یہ نہ کہیں کہ تم نے کتاب کو دوسروں سے پڑھ لیا ۔ بعض نے کہا ہے وَدَرَسُوا ما فِيهِ [ الأعراف 169] کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے اس پر عمل ترک کردیا اور یہ کے محاورہ سے ماخوذ ہے ۔ یعنی انہوں نے مکان کے نشانات مٹادیئے درست المرءۃ ( کنایہ ) عورت کا حائضہ ہونا ۔ درس البعیر ۔ اونٹ کے جسم پر خارش کے اثرات ظاہر ہونا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٧۔ ٣٩) کیا اس کتاب میں تمہارے لیے وہ چیز لکھی ہو جس کو تم پسند کرتے ہو یعنی جنت ملنا، کیا ہمارے ذمہ کچھ قسمیں چڑھی ہوئی ہیں کہ تمہیں آخرت میں جنت ملے جس کا تم اپنے لیے فیصلہ کر رہے ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :21 یعنی اللہ تعالی کی بھیجی ہوئی کتاب ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani