Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 یعنی قرآن اللہ کی طرف سے ہونا بالکل یقینی ہے، اس میں قطعًا شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ یا قیامت کی بابت جو خبر دی جا رہی ہے، وہ بالکل حق اور سچ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٧] حق الیقین، یقین کا آخری درجہ جو بار بار کے تجربوں کے بعد حاصل ہو۔ جیسے ہر جاندار کو بالآخر موت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یا کوئی جاندار کھانے پینے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ یا آگ کا کام جلانا ہے اور ایسی بیشمار حقیقتیں ہیں جن کے یقینی ہونے میں ذرہ بھر شبہ نہیں ہوتا۔ قرآن بھی ایسی ہی ایک ٹھوس حقیقت ہے اس کے مضامین سراپا سچ ہیں جو عقل اور تجربہ کی کسوٹی پر بھی پورے اترتے ہیں اور ہر طرح کے شک و شبہ سے بھی بالاتر ہیں۔ لہذا ہر شخص کو چاہیے کہ اس پر ایمان لا کر اس کے نازل کرنے والے کی تسبیح وتحمید میں مشغول رہے جس نے انہیں یہ گرانقدر نعمت عطا فرمائی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وانہ لحق الیقین :” حق “ جو ثابت ہو اور ” الیقین “ وہ بات جس میں کوئی شک نہ ہو۔ قرآن مجید سے یقین کے تین درجے معلوم ہوتے ہیں، پہلا علم الیقین ، وہ یقین جو خبر وغیرہ سے معلوم ہوجائے، جیسے فرمایا :(کلا لو تعلموکن علم الیقین، لترون الجحیم) (التکاثر، ٥، ٦)” ہرگز نہیں، کاش تم یقینی جاننا جان لیتے کہ تم ضرور جہنم کو دیکھو گے۔ “ دوسرا عین الیقین ، وہ یقین جو آنکھوں کے دیکھنے سے حاصل ہو۔ آنکھوں سے دیکھی ہوئی بات کا یقین سنی ہوئی بات کے یقین سے قوی ہوتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لیس الخبر کالمغاینۃ) (مسند احمد : ١ ٢١٥، ج : ١٨٣٢۔ صحیح الجامع الصغیر : ٥٣٨٢)” سنن ادیکھنے کی طرح نہیں۔ “ ابراہیم (علیہ السلام) نے ” رب ارنی کیف تخی الموتی “ کہہ کر یقین ہوتا ہے اس وقت وہ ہر طرح سے پختہ اور ثابت ہوجاتا ہے۔ یہ پہلے دونوں درجوں سے بڑھ کر ہے۔ ان تینوں درجوں کی مثال یہ ہے کہ اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے بتانے سے جنت کا یقین ہے، یہ علم الیقین ہے۔ جب میدان محشر میں جنت قریب لائی جائے گی (دیکھیے شعراء : ٩٠) اور وہ اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیں گے تو یہ عین الیقین ہے۔ پھر جب اس میں داخل ہوں گے اور اس کی نعمتوں سے لذت اٹھائیں گ ے تو انہیں حق الیقین حاصل ہوگا۔ فرمایا یہ قرآن حق الیقین ہے، یعنی قرآن میں جو علوم و معارف اور حقائق بیان ہوئے ہیں، جو شخص ان کی لذت سے آشنا ہوجائے اس کے لئے یہ ہر طرح سے ثابت شدہ یقین ہے۔ (خلاصہ بدائع التفسیر و تفسیر عبدالرحمٰن السعدی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّہٗ لَحَقُّ الْيَقِيْنِ۝ ٥١- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- يقن - اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما .- ( ی ق ن ) الیقین - کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ - إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥١۔ ٥٢) اور یہ قرآن کریم تحقیقی اور یقینی بات ہے کیونکہ یہ میرا کلام ہے جس کو میں نے بذریعہ جبریل امین معزز و مکرم رسول پر اتارا ہے یا یہ کہ قیامت کے دن جو کافروں کے لیے حسرت و ندامت کا ذکر کیا ہے وہ قطعا اور یقینا ان پر ہوگی۔- سو آپ اپنے پروردگار کی نماز پڑھیے یا یہ کہ عظیم الشان پروردگار کی توحید کا ذکر کیجیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ وَاِنَّہٗ لَحَقُّ الْیَقِیْنِ ۔ ” اور یقینا یہ (قرآن) بالکل یقینی حق ہے۔ “- یہ ایسا یقین ہے جو سراسر حق ہے ‘ جس میں باطل کی ذرا ملاوٹ تک نہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani