[٢١] سورة مومنون کی ابتدا میں فلاح پانے والے ایمانداروں کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ جو بہت حد تک انہی صفات سے ملتی جلتی ہیں جو یہاں بیان کی جارہی ہیں سورة مومنون میں ان صفات کی ابتدا بھی نماز سے ہوئی تھی اور انتہا بھی نماز پر ہی ہوئی۔ اور اس مقام پر بھی بعینہ وہی صورت ہے جس سے دین میں نماز کی اہمیت کا ٹھیک طور پر اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
والذین ھم علی صلاتھم یحافظون : نمازیوں کے اوصاف کا آغاز نماز پر ہمیشگی سے کیا اور ان کا اختتام نماز پر محافظت سے کیا ہے۔ اس سے نماز کی اہمیت صاف واضح ہو رہی ہے۔ محافظت سے مراد اس کے اوقات کا خیال رکھنا اور اس کے شروط و ارکان کی صحیح ادائیگی کا خیال رکھنا ہے۔ منافق نہ صحیح وقت پر نمازپ ڑھتا ہے اور نہ اطمینان و سکون سے اس کے ارکان کو درست طریقے سے ادا کرتا ہے۔ انس (رض) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرما رہے تھے :(تلک صلاۃ المنافق یجلس یرقب الشمس حتی اذا کانت بین قرنی الشیطان فام فنقرھا اربعاً لایذکر اللہ فیھا الاقلیلاً ) (مسلم، المساجد، باب استحباب التبکیر بالعصر : ٦٢٢)” یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھ کر سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہوجاتا ہے (یعنی غروب ہونے کے قریب ہوجاتا ہے) تو اٹھ کر اس کے لئے چار ٹھونگے مار لیتا ہے، اس میں اللہ کا ذکر نہیں کرتا مگر کم۔ “
وَالَّذِيْنَ ہُمْ عَلٰي صَلَاتِہِمْ يُحَافِظُوْنَ ٣٤ ۭ - صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔
(٣٤۔ ٣٥) اور جو اپنی پانچوں نمازوں کے اوقات کی حفاظت کرتے ہیں، ان خوبیوں کے مالک باغوں میں ثواب و عزت کے ساتھ داخل ہوں گے۔
سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :23 اس سے نماز کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ جس بلند سیرت و کردار کے لوگ خدا کی جنت کے مستحق قرار دیے گئے ہیں ، ان کی صفات کا ذکر نماز ہی سے شروع اور اسی پر ختم کیا گیا ہے ۔ نمازی ہونا ان کی پہلی صفت ہے ، نماز کا ہمیشہ پابند رہنا ان کی دوسری صفت ، اور نماز کی حفاظت کرنا ان کی آخری صفت ۔ نماز کی حفاظت سے بہت سی چیزیں مراد ہیں ۔ وقت پر نماز ادا کرنا ۔ نماز سے پہلے اطمینان کر لینا کہ جسم اور کپڑے پاک ہیں ۔ باوضو ہونا اور وضو میں اعضاء کو اچھی طرح دھونا ۔ ارکان اور واجبات اور مستحبات نماز کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنا ۔ نماز کے آداب کو پوری طرح ملحوظ رکھنا ۔ خدا کی نافرمانیاں کر کے اپنی نمازوں کو ضائع نہ کرنا ۔ یہ سب چیزیں نماز کی حفاظت میں شامل ہیں ۔
9: آیت نمبر 23 میں نماز کی پابندی کا ذکر ہے، اور یہاں اُس کی پوری حفاظت سے مراد اُس کے تمام آداب کی رعایت ہے۔ مسلمانوں کے انہی جیسے اوصاف سور مومنون کی ابتدائی آیات میں بھی گذرے ہیں۔