Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

رسول اللہ کو قیام اللیل اور ترتیل قرآن کا حکم اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ راتوں کے وقت کپڑے لپیٹ کر سو رہنے کو چھوڑیں اور تہجد کی نماز کے قیام کو اختیار کر لیں ، جیسے فرمان ہے آیت ( تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ۡ وَّمِـمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ 16؀ ) 32- السجدة:16 ) ، ان کے پہلو بستروں سے الگ ہوتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور لالچ سے پکارتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے دیتے رہتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم پوری عمر اس حکم کی بجا آوری کرتے رہے تہجد کی نماز صرف آپ پر واجب تھی یعنی امت پر واجب نہیں ہے ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا 79؀ ) 17- الإسراء:79 ) ، راتوں کو تہجد پڑھا کر یہ حکم صرف تجھے ہے تیرا رب تجھے مقام محمود میں پہچانے والا ہے ، یہاں اس حکم کے ساتھ ہی مقدار بھی بیان فرما دی کہ آدھی رات یا کچھ کم و بیش مزمل کے معنی سونے والے اور کپڑا لپیٹنے والے کے ہیں ، اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اے قرآن کے مفہوم کو اچھی طرح اخذ کرنے والے تو آدھی رات تک تہجد میں مشغول رہا کر ، یا کچھ بڑھا گھٹا دیا کر اور قرآن شریف کو آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کر تاکہ خوب سمجھتا جائے ، اس حکم کے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم عامل تھے ، حضرت صدیقہ کا بیان ہے کہ آپ قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے جس سے بڑی دیر میں سورت ختم ہوتی تھی گویا چھوٹی سی سورت بڑی سے بڑی ہو جاتی تھی ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کا وصف پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خوب مد کر کے پڑھا کرتے تھے پھر آیت ( بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ) پڑھ کر سنائی جس میں لفظ اللہ پر لفظ رحمٰن پر لفظ رحیم پر مد کیا ، ابن جریج میں ہے کہ ہر ہر آیت پر آپ پورا پورا وقف کرتے تھے ، جیسے آیت ( بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ) پڑھ کر وقف کرتے آیت ( الحمد للہ رب العلمین ) پڑھ کر وقف کرتے آیت ( الرحمٰن الرحیم ) پڑھ کر وقف کرتے آیت ( مالک یوم الدین ) پڑھ کر ٹھہرتے ۔ یہ حدیث مسند احمد ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ قرآن کے قاری سے قیامت والے دن کہا جائے گا کہ پڑھتا جا اور چڑھتا جا اور ترتیل سے پڑھ جیسے دنیا میں ترتیل سے پڑھا کرتا تھا تیرا درجہ وہ ہے جہاں تیری آخری آیت ختم ہو ، یہ حدیث ابو داؤد و ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں ، ہم نے اس تفسیر کے شروع میں وہ احادیث وارد کر دی ہیں ، جو ترتیل کے مستحب ہونے اور اچھی آواز سے قرآن پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں ، جیسے وہ حدیث جس میں ہے قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو ، اور ہم میں سے وہ ہیں جو خوش آوازی سے قرآن نہ پڑھے اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اسے آل داؤد کی خوش آوازی عطا کی گئی ہے اور حضرت ابو موسیٰ کا فرمانا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ سن رہے ہیں تو میں اور اچھے گلے سے زیادہ عمدگی کے ساتھ پڑھتا ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان کہ ریت کی طرح قرآن کو نہ پھیلاؤ اور شعروں کی طرح قرآن کو بے ادبی سے نہ پڑھو اس کی عجائب پر غور کرو اور دلوں میں اثر لیتے جاؤ اور اس میں دوڑ نہ لگاؤ کہ جلد سورت ختم ہو ( بغوی ) ایک شخص آ کر حضرت ابن مسعود سے کہتا ہے میں نے مفصل کی تمام سورتیں آج کی رات ایک ہی رکعت میں پڑھ ڈالیں آپ نے فرمایا پھر تو تو نے شعروں کی طرح جلدی جلدی پڑھا ہو گا مجھے برابر برابر کی سورتیں خوب یاد ہیں جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ملا کر پڑھا کرتے تھے پھر مفصل کی سورتوں میں سے بیس سورتوں کے نام لئے کہ ان میں سے دو دو سورتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے ۔ پھر فرماتا ہے ہم تجھ پر عنقریب بھاری بوجھل بات اتاریں گے ، یعنی عمل میں ثقیل ہو گی اور اترتے وقت بوجہ اپنی عظمت کے گراں قدر ہو گی ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری اس وقت آپ کا گھٹنا میرے گھٹنے پر تھا وحی کا اتنا بوجھ پڑا کہ میں تو ڈرنے لگا کہ میری ران کہیں ٹوٹ نہ جائے ، مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ وحی کا احساس بھی آپ کو ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا میں ایسی آواز سنتا ہوں جیسے کسی زنجیر کے بجنے کی آواز ہو میں چپکا ہو جاتا ہوں جب بھی وحی نازل ہوتی ہے مجھ پر اتنا بوجھ پڑتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ میری جان نکل جائے گی ، صحیح بخاری شریف کے شروع میں ہے حضرت حارث بن ہشام پوچھتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟ آپ نے فرمایا کبھی تو گھنٹی کی آواز کی طرح ہوتی ہے جو مجھ پر بہت بھاری پڑتی ہے اور وہ گن گناہٹ کی آواز ختم ہو جاتی ہے تو میں اس میں جو کچھ کہا گیا وہ مجھے خوب محفوظ ہو جاتا ہے اور کبھی فرشتہ انسانی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور میں یاد کر لیتا ہوں ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے دیکھا ہے کہ سخت جاڑے والے دن میں بھی جب آپ پر وحی اتر چکتی تو آپ کی پیشانی مبارک سے پسینے کے قطرے ٹپکتے ، مسند احمد میں ہے کہ کبھی اونٹنی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوتے اور اسی طاقت میں وحی آتی تو اونٹنی جھک جاتی ، ابن جریر میں یہ بھی ہے کہ پھر جب تک وحی ختم نہ ہو لے اونٹنی سے قدم نہ اٹھایا جاتا نہ اس کی گردن اونچی ہوتی ۔ مطلب یہ ہے کہ خود وحی کا اترنا بھی اہم اور بجھل تھا پھر احکام کا بجا لانا اور ان کا عامل ہونا بھی اہم اور بوجھل تھا ۔ یہی قول حضرت امام ابن جریر کا ہے ، حضرت عبدالرحمٰن سے منقول ہے کہ جس طرح دنیا میں یہ ثقیل کام ہے اسی طرح آخرت میں اجر بھی بڑا بھاری ملے گا ۔ پھر فرماتا ہے رات کا اٹھنا نفس کو زیر کرنے کے لئے اور زبان کو درست کرنے کے لئے اکسیر ہے ، نشاء کے معنی حبشی زبان میں قیام کرنے کے ہیں ، رات بھر میں جب اٹھے اسے ناشئتہ اللیل کہتے ہیں ، تہجد کی نماز کی خوبی یہ ہے کہ دل اور زبان ایک ہو جاتا ہے اور تلاوت کے جو الفاظ زبان سے نکلتے ہیں دل میں گڑ جاتے ہیں اور بنسبت دن کے رات کی تنہائی میں معنی خوب ذہن نشین ہوتا جاتا ہے کیونکہ دن بھیڑ بھاڑ کا ، شورغل کا ، کمائی دھندے کا وقت ہوتا ہے ۔ حضرت انس نے آیت ( اقوم قیلاً ) کو اصوب قیلا پڑھا تو لوگوں نے کہا ہم تو اقوم پڑھتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ( اصوب اقوم اھیاء ) اور ان جیسے سب الفاظ ہم معنی ہیں ۔ پھر فرماتا ہے دن میں تجھے بہت فراغت ہے ، نیند کر سکتے ہو ، سو بیٹھ سکتے ہو ، راحت حاصل کر سکتے ہو ، نوافل بکثرت ادا کر سکتے ہو ، اسے دنیوی کام کاج پورے کر سکتے ہو ۔ پھر رات کو آخرت کے کام کے لئے خاص کر لو ، اس بنا پر یہ حکم اس وقت تھا جب رات کی نماز فرض تھی پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر احسان کیا اور بطور تخفیف کے اس میں کمی کر دی اور فرمایا تھوڑی سی رات کا قیام کرو ، اس فرمان کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے آیت ( ان ربک ) سے ( فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْه 20؀ۧ ) 73- المزمل:20 ) تک پڑھا اور آیت ( وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا 79؀ ) 17- الإسراء:79 ) ، کی بھی تلاوت کی ۔ آپ کا یہ قول ہے بھی ٹھیک ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت سعید بن ہشام نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور مدینہ کی طرف چلے تاکہ وہاں کے اپنے مکانات بیچ ڈالیں اور ان کی قیمت سے ہتھیار وغیرہ خرید کر جہاد میں جائیں اور رومیوں سے لڑتے رہیں یہاں تک کہ یا تو روم فتح ہو یا شہادت ملے مدینہ شریف میں اپنی قوم والوں سے ملے اور اپنا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے کہا سنو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں آپ ہی کی قوم میں سے چھ شخصوں نے بھی ارادہ کیا تھا کہ عورتوں کو طلاق دے دیں مکانات وغیرہ بیچ ڈالیں اور راہ اللہ کھڑے ہو جائیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا کیا جس طرح میں کرتا ہوں کیا اس طرح کرنے میں تمہارے لئے اچھائی نہیں ہے؟ خبردار ایسا نہ کرنا اپنے اس ارادے سے باز آ جاؤ یہ حدیث سن کر حضرت سعید نے بھی اپنا ارادہ ترک کیا اور وہیں اسی جماعت سے کہا کہ تم گواہ رہنا میں نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا اب حضرت سعید چلے گئے پھر جب اس جماعت سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ یہاں سے جانے کے بعد میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس گیا اور ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر پڑھنے کی کیفیت دریافت تو انہوں نے کہا اس مسئلے کو سب سے زیادہ بہتری طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بتا سکتی ہیں تم وہیں جاؤ اور ام المومنین ہی سے دریافت کرو اور ام المومنین سے جو سنو وہ ذرا مجھ سے کہہ جانا ۔ میں حضرت حکیم بن افلح کے پاس گیا اور ان سے میں نے کہا تم مجھے ام المومنین کی خدمت میں لے چلو ۔ انہوں نے فرمایا میں وہاں نہیں جاؤں گا اس لئے کہ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ آپس میں لڑنے والی جماعتوں یعنی حضرت علی اور ان کے مقابلین کے بارے میں آپ دخل نہ دیجئے لیکن انہوں نے نہ مانا اور دخل دیا ۔ میں نے انہیں قسم دی اور کہا کہ نہیں آپ مجھے ضرور وہاں لے چلئے خیر بمشکل تمام وہ راضی ہوئے اور میں ان کے ساتھ گیا ۔ ام المومنین صاحبہ نے حضرت حکیم کی آواز پہچان لی اور کہا کیا حکیم ہے؟ جواب دیا گیا کہ ہاں حضور میں حکیم بن افلح ہوں پوچھا تمہارے ساتھ کون ہیں؟ کہا سعید بن ہشام پوچھا ہشام کون؟ عامر کے لڑکے؟ کہا ہاں عامر کے لڑکے ، تو حضرت عائشہ نے حضرت عامر کے لئے دعاء رحمت کی اور فرمایا عامر بہت اچھا آدمی تھا اللہ اس پر رحم کرے میں نے کہا ام المومنین مجھے بتایئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیا تھے؟ آپ نے فرمایا کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا کیوں نہیں؟ فرمایا بس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا اب میں نے اجازت مانگنے کا قصد کیا لیکن فوراً ہی یاد آ گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کا حال بھی دریافت کر لوں ، اس سوال کے جواب میں ام المومنین نے فرمایا کیا تم نے سورہ مزمل نہیں پڑھی؟ میں نے کہا ہاں پڑھی ہے ، فرمایا سنو اس سورت کے اول حصے میں قیام الیل فرض ہوا اور سال بھر تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب تہجد کی نماز بطور فرضیت کے ادا کرتے رہے یہاں تک کہ قدموں پر ورم آگیا بارہ ماہ کے بعد اس سورت کے خاتمہ کی آیتیں اتریں اور اللہ تعالیٰ نے تخفیف کر دی فرضیت اٹھ گئی اور عملی صورت باقی رہ گئی ، میں نے پھر اٹھنے کا ارادہ کیا لیکن خیال آیا کہ وتر کا مسئلہ بھی دریافت کر لوں تو میں نے کہا ام المومنین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر پڑھنے کی کیفیت سے بھی آگاہ فرمایئے ، آپ نے فرمایا ہاں سنو ہم آپ کی مسواک وضو کا پانی وغیرہ تیار ایک طرف رکھ دیا کرتے تھے جب بھی اللہ چاہتا اور آپ کی آنکھ کھلتی اٹھتے مسواک کرتے وضو کرتے اور آٹھ رکعت پڑھتے بیچ میں تشہد میں بالکل نہ بیٹھتے آٹھویں رکعت پوری کر کے آپ التحیات میں بیٹھتے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر کرتے دعا کرتے اور زور سے سلام پھیرتے کہ ہم بھی سن لیں پھر بیٹھے بیٹھے ہی دو رکعت اور ادا کرتے ( اور ایک وتر پڑھتے ) بیٹا یہ سب مل کر گیارہ رکعت ہوئیں ، اب جبکہ آپ عمر رسیدہ ہوئے اور بدن بھاری ہو گیا تو آپ نے سات وتر پڑھے پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کر دو رکعت ادا کیں بس بیٹا یہ نو رکعت ہوئیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جب کسی نماز کو پڑھتے تو پھر اس پر مداومت کرتے ہاں اگر کسی شغل یا نیند یا دکھ تکلیف اور بیماری کی وجہ سے رات کو نماز نہ پڑھ سکتے تو دن کو بارہ رکعت ادا فرما لیا کرتے میں نہیں جانتی کہ کسی ایک رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا قرآن صبح تک پڑھا ہو اور نہ رمضان کے سوا کسی اور مہینے کے پورے روزے رکھے ، اب میں ام المومنین سے رخصت ہو کر ابن عباس کے پاس آیا اور وہاں کے تمام سوال جواب دوہرائے آپ نے سب کی تصدیق کی اور فرمایا اگر میری بھی آمد و رفت ام المومنین کے پاس ہوتی تو جا کر خود اپنے کانوں سن آتا ، یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی ہے ، ابن جریر میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بوریا رکھ دیا کرتی جس پر آپ تہجد کی نماز پڑھتے لوگوں نے کہیں یہ خبر سن لی اور رات کی نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرنے کے لئے وہ بھی آ گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہو کر باہر نکلے چونکہ شفقت و رحمت آپ کو امت پر تھی اور ساتھ ہی ڈر تھا کہ ایسا نہ ہو یا نماز فرض ہو جائے آپ ان سے فرمانے لگے کہ لوگو ان ہی اعمال کی تکلیف اٹھاؤ جن کی تم میں طاقت ہو اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہ تھکے گا البتہ تم عمل کرنے سے تھک جاؤ گے سب سے بہتر عمل وہ ہے جس پر دوام ہو سکے ادھر قرآن کریم میں یہ آیتیں اتریں اور صحابہ نے قیام الیل شروع کیا یہاں تک کہ رسیاں باندھنے لگے کہ نیند نہ آ جائے آٹھ مہینے اسی طرح گذر گئے ان کی اس کوشش کو جو وہ اللہ کی رضامندی کی طلب میں کر رہے تھے دیکھ کر اللہ نے بھی ان پر رحم کیا اور اسے فرض عشاء کی طرف لوٹا دیا اور قیام الیل چھوڑ دیا ، یہ روایت ابن ابی حاتم میں بھی ہے لیکن اس کا راوی موسیٰ بن عبیدہ زبیدی ضعیف ہے اصل حدیث بغیر سورہ مزمل کے نازل ہونے کے ذکر کی صحیح میں بھی ہے اور اس حدیث کے الفاظ کے تسلسل سے تو یہ پایا جاتا ہے کہ یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی حالانکہ دراصل یہ سورت مکہ شریف میں اتری ہے ، اسی طرح اس روایت میں ہے کہ آٹھ مہینے کے بعد اس کی آخری آیتیں نازل ہوئیں یہ قول بھی غریب ہے ، صحیح وہی ہے جو بحوالہ مسند پہلے گذر چکا کہ سال بھر کے بعد آخری آیتیں نازل ہوئیں ۔ حضرت ابن عباس سے بھی ابن ابی حاتم میں منقول ہے کہ سورہ مزمل کی ابتدائی آیتوں کے اترنے کے بعد صحابہ کرام مثل رمضان شریف کے قیام کے قیام کرتے رہے اور اس سورت کی اول آخر کی آیتوں کے اترنے میں تقریباً سال بھر کا فاصلہ تھا ۔ حضرت ابو اسامہ سے بھی ابن جریر میں اسی طرح مروی ہے ، حضرت ابو عبدالرحمٰن فرماتے ہیں کہ ابتدائی آیتوں کے اترنے کے بعد صحابہ کرام نے سال بھر تک قیام کیا یہاں تک کہ ان کے قدم اور پنڈلیوں پر ورم آگیا پھر آیت ( فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْه 20؀ۧ ) 73- المزمل:20 ) ، نازل ہوئی اور لوگوں نے راحت پائی ، حسن بصری اور سدی کا بھی یہی قول ہے ۔ ابن ابی حاتم میں بہ روایت حضرت عائشہ سولہ مہینے کا فاصلہ مروی ہے ، حضرت قتادہ فرماتے ہیں ایک سال یا دو سال تک قیام کرتے رہے پنڈلیاں اور قدم سوج گئے پھر آخری سورت کی آیتیں اتریں اور تخفیف ہو گئی ۔ حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ دس سال کا فاصلہ بتاتے ہیں ( ابن جریر ) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ پہلی آیت کے حکم کے مطابق ایمانداروں نے قیام الیل شروع کیا لیکن بڑی مشقت پڑتی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے رحم کیا اور آیت ( عَلِمَ اَنْ سَيَكُوْنُ مِنْكُمْ مَّرْضٰى 20؀ۧ ) 73- المزمل:20 ) سے ( ما تیسر منہ ) تک آیتیں نازل فرما کر وسعت کر دی اور تنگی نہ رکھی فلہ الحمد پھر فرمان ہے اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہ اور کرتا رہ اور اس کی عبادت کے لئے فارغ ہو جا ، یعنی امور دنیا سے فارغ ہو کر دل جمعی اور اطمینان کے ساتھ بہ کثرت اس کا ذکر کر ، اس کی طرف مائل اور سراسر راغب ہو جا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ Ċ۝ۙ ) 94- الشرح:7 ) ، یعنی جب اپنے شغل سے فارغ ہو تو ہماری عبادت محنت سے بجا لاؤ ، اخلاص فارغ البالی کوشش محنت دل لگی اور یکسوئی سے اللہ کیطرف جھک جاؤ ، ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تبل سے منع فرمایا یعنی بال بچے اور دنیا کو چھوڑ دینے سے ۔ یہاں مطلب یہ ہے کہ علائق دنیوی سے کٹ کر اللہ کی عبادت میں توجہ اور انہماک کا وقت بھی ضرور نکالا کرو ۔ وہ مالک ہے وہ متصرف ہے مشرق مغرب سب اس کے قبضہ میں ہے اس کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں ، تو جس طرح صرف اسی اللہ کی عبادت کرتا ہے اسی طرح صرف اسی پر بھروسہ بھی رکھ ، جیسے اور آیت میں ہے آیت ( فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ١٢٣؀ۧ ) 11-ھود:123 ) اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسہ کر ، یہی مضمون آیت ( ایاک نعبد وایاک نستعین ) میں بھی ہے ، اس معنی کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں کہ عبادت ، اطاعت ، توکل اور بھروسہ کے لائق ایک اس کی پاک ذات ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 جس وقت یہ آیت نازل ہوئی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چادر اوڑھے ہوئے تھے اللہ نے آپ کی اسی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا مطلب یہ ہے کہ اب چادر چھوڑ دیں اور رات کو تھوڑا قیام کریں یعنی نماز تہجد پڑھیں کہا جاتا ہے کہ اس حکم کی بناء پر تہجد آپ کے لیے واجب تھی۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] انداز خطاب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو سونے کے لیے بستر پر چادر اوڑھ کر لیٹ چکے تھے۔ اور اس لطیف انداز خطاب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت دی جارہی ہے کہ اب پاؤں پھیلا کر اور بےفکر ہو کر سونے کے دن بیت چکے، اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داریاں کچھ اور قسم کی ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) یایھا الزمل :’ المزمل “ اصل میں ” المتزمل “ تھا، تاء کو زاء سے بدل کر زاء میں ادغام کردیا، کپڑے میں لپٹنے والا ۔ یہ بات لازم ہے۔- (٢) یایھا المزمل :” اے کپڑے میں لپٹنے والے “ ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ ان آیات کے اترنے کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کپڑے میں لپٹ کر لیٹے ہوئے تھے۔ اس خطاب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت لطف و کرم اور محبت کا اظہار ہے، کیونکہ اہل عرب کا طریقہ ہے کہ وہ مخاطب سے نرمی اور محب سے بات کرنا چاہتے ہوں تو ایسے لفظ سے مخاطب کرتے ہیں جو مخاطب کی اس وقت کی حالت پر دلالت کر رہا ہو، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (رض) عنہماکو مسجد میں زمین پر لیٹے ہوئے دیکھا تو فرمایا :(قم ابا تراب ) (بخاری، الصلاۃ ، باب نوم الرجال فی المسجد : ٣٣١) ” مٹی والے اٹھ کھڑا ہو۔ “- (٣) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چادر میں لیٹنے کی وجہ کیا تھی ؟ اس میں تین قول ہیں، پہلا یہ کہ عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ پہلی وحی :(اقرا باسم ربک الذی خلق ) کے نزول کے موقع پر جب فرشتے نے آپ کو تین مرتبہ زور سے دبایا تو آپ گھر میں خدیجہ (رض) کے پاس آئے اور فرمایا :(زملونی زملونی) (بخاری، الوحی، باب کیف کان بدء الوحی …: ٣)” مجھے چادر اوڑھا دو ، مجھے چادر اوڑھا دو ۔ “ اسی طرح جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سے مروی ہے کہ کچھ عرصہ تک وحی بند رہنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب وحی اتری تو آپ نے اس کے متعلق بیان فرمایا :” میں چلا جا رہا تھا کہ میں نے آسمان سے ایک آواز سنی، میں نے نظر اٹھائی تو وہی فرشتہ جو حرا میں میرے پاس آیا تھا، آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ میں اس سے ڈر گیا اور واپس آکر کہا : (رملونی زملونی) تو اللہ عزوجل نے ” یھا المدثر “ سے لے کر ” والرجز فاھجر “ تک آیات اتاریں۔ “ (بخاری، الوحی، یاب کیف کان بدء الوحی …: ٣) ان دونوں موقعوں پر ” زملونی “ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فرشتے کی ملاقات اور وحی کے اترنے سے جو رعب اور خوف طاری ہوتا تھا اس کی وجہ سے آپ کپڑا لپیٹ لیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے اس بارگراں کو اٹھانے کے لئے تیار کرنے کی خاطر آپ کو قیام اللیل کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیام اللیل کے ساتھ آپ کو وحی کا بوجھ اٹھانے کیلئے تیار کیا جا رہا ہے، چناچہ بعد میں وحی تسلسل اور کثرت سے اترنے لگی۔ - دوسرا قول یہ ہے کہ ” اے چادر میں لپٹ کر سونے والے سستی اور سونے کا وقت گیا، رات کو قیام کر…۔ “ تیسرا قوال یہ ہے کہ قریش مکہ دارالندوہ میں جمع ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے کوئی ایسا نام طے کرنے لگے جسے سن کر لوگ آپ کے پاس آنے سے باز رہیں۔ کسی نے کہا کہ کاہن ہے، کچھ دوسرے کہنے لگے کاہن نہیں ہے۔ کسی نے دیوانہ کہا، اس کی بھی تردید ہوگئی۔ کھچ بولے جادوگر ہے، دوسروں نے کہا جادوگر نہیں۔ غرض مشرکین اس قسم کی باتیں کر کے چلے گئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ باتیں پہنچیں تو آپ کو بہت صدمہ ہوا اور اس پریشانی اور غم کی حالت میں آپ چادر لپیٹ کر لیٹ گئے۔ جبریل (رض) آئے مقصد یہ ہے کہ آپ ان کی باتوں سے بددل اور رنجیدہ ہو کر چادر لپیٹ کر نہ لیٹ جائیں بلکہ رتا کو قیام کریں، اس سے آپ میں یہ بارگراں اٹھانے کی قوت پیدا ہوگی، ان لوگوں کی باتوں پر صبر کریں اور ان سے اچھے طریقے سے علیحدگی اختیار کریں۔ ابن کثیر نبی ہ قول جابر بن عبداللہ (رض) کی روایت سے مسند بزار سے نقل کیا ہے، مگر اس کی سند میں ایک راوی معلی بن عبدالرحمن ہے جس کے متعلق تقریب میں ہے :” متھم بالوضع و قد رمی بالرفض “ ” اس پر احادیث گھڑنے کی توہمات ہے اور رافضیت کا الزام بھی ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اے کپڑوں میں لپٹنے والے (وجہ اس عنوان سے خطاب کرنے کی یہ ہے کہ ابتدائے نبوت میں قریش نے دارالندوہ میں جمع ہو کر آپ کے بارے میں مشور کیا کہ آپ کی حالت کے مناسب کوئی لقب تجویز کرنا چاہئے کہ اس پر سب متفق رہیں کسی نے کہا کہ کاہن ہیں اس کو دوسروں نے رد کردیا کسی نے مجنوں کہا پھر اس کو بھی سب نے غلط قرار دیا پھر ساحر کہا پھر بعض نے اس کو بھی رد کردیا لیکن پھر یہی کہنے لگے کہ ساحر اس لئے ہیں کہ دوست کو دوست سے جدا کردیتے ہیں۔ آپ کو یہ خبر پہنچ کر رنج ہوا اور رنج کی حالت میں لپٹ گئے۔ اکثر سوچ اور رنج میں آدمی اس طرح کرلیتا ہے اس لئے آپ کو خوش کرنے اور لطف کا اظہار کرنے کے لئے اس عنوان سے خطاب فرمایا، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آپ نے حضرت علی کو ابوتراب فرمایا تھا۔ غرض آپ کو خطاب ہے کہ ان باتوں کا رنج نہ کرو بلکہ حق تعالیٰ کی طرف مداومت کے ساتھ اور زیادہ توجہ رکھو اس طرح سے کہ) رات کو (نماز میں) کھڑے رہا کرو مگر تھوڑی سی رات یعنی نصف رات (کہ اس میں آرام کرو) یا اس نصف سے کم مصداق ایک ثلث ہے۔ بقریتہ قولہ تعالیٰ فیما بعدوثلثہ) یا نصف سے کچھ بڑھا دو (یعنی نصف سے زیادہ قیام کرو اور نصف سے کم آرام کرو اور اس نصف سے زیادہ کا مصداق قریب دو ثلث کے ہے بقرینہ قولہ تعالیٰ فیما بعد ادنی من ثلثی الیل “ غرض قیام لیل تو امر وجوبی سے فرض ہوا مگر مقدار وقت قیام میں تین صورتوں میں اختیار ہے نصف شب، دو تہائی شب، ایک تہائی شب) اور (اس قیام لیل میں) قرآن کو خوب صاف صاف پڑھو (کہ ایک ایک حرف الگ الگ ہو اور یہی حکم غیر صلوة میں بھی ہے اور تخصیص محض مقام کی وجہ سے ہے، آگے قیام اللیل کے حکم کی علت اور مصلحت کا بیان ہے کہ) ہم تم پر ایک بھاری کلام ڈالنے کو ہیں (مراد قرآن مجید ہے جو نزول کے وقت بھی آپ کی حالت کو متغیر کردیتا تھا جیسا حدیثوں میں ہے کہ ایک بار آپ کی ران زید بن ثابت کی ران پر رکھی تھی، اس وقت وحی نازل ہوئی تو زید بن ثابت کی ران پھٹنے لگی اور جب آپ نزول وحی کے وقت ناقہ پر سوار ہوتے تو ناقہ گردن ڈال دیتی اور حرکت نہ کرسکتی اور شدت کے جاڑوں میں آپ پسینہ پسینہ ہوجاتے۔ پھر علاوہ اس کے اس کا محفوظ رکھنا پھر دوسروں تک پہنچانے میں کلفتیں برداشت کرنا ان اعتبارات سے ثقیل کہا گیا اور مقصد یہ ہے کہ قیام لیل کو شاق نہ سمجھنا ہم تو اس سے بھی بھاری بھاری کام تم سے لینے والے ہیں۔ قیام اللیل کا حکم آپ کو اسی لئے دیا گیا ہے کہ آپ خوگر ہوں ریاضت کے جس سے استعداد نفس اکمل و اقویٰ ہو کیونکہ ہم آپ پر قول ثقیل نازل کرنے والے ہیں تو اس کے لئے اپنی استعداد کا قوی کرنا ضروری ہے، آگے قیام لیل کی دوسری مصلحت ہے کہ) بیشک رات کا اٹھنا خوب موثر ہے (نفس کے) کچلنے میں اور (دعا ہو یا قرات ہو ظاہراً و باطنا) بات خوب ٹھیک نکلتی ہے (ظاہراً تو اس طرح کہ فرصت کا وقت ہوتا ہے الفاظ و عاء و قرات کے خوب اطمینان سے ادا ہوتے ہیں اور باطنا اس طرح کہ جی خوب لگتا ہے اور موافقت دل و زبان کا یہی مطلب ہے اور اس کا علت ہونا ظاہر ہے۔ آگے ایک تیسری علت ہے جس میں تخصیص شب کی حکمت کا بیان ہے وہ یہ کہ) بیشک تم کو دن میں بہت کام رہتا ہے (دنیوی بھی جیسے تدبیر مہمات خانہ داری اور دینی بھی جیسے تبلیغ اس لئے ان کاموں کے لئے رات تجویز کی گئی) اور (علاوہ قیام لیل کے جس کا اوپر ذکر ہوا دوسرے اوقات میں بھی) اپنے رب کا نام یاد کرتے رہو اور سب سے (تعلق قطع) کر کے اسی کی طرف متوجہ رہو (یعنی ذکر و تبتل یہ ہر وقت کا فرض ہے اور تعلق قطع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خالق کا تعلق مخلوق کے سب تعلقات پر غالب رہے، آگے توحید کے ساتھ اس کی تاکید اور تصریح ہے یعنی) وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے اس کے سوا کوئی قابل عبادت نہیں تو اسی کو اپنے کام سپرد کرنے کے لئے قرار دیئے رہو، اور یہ لوگ جو جو باتیں کرتے ہیں ان پر صبر کرو اور خوبصورتی کے ساتھ ان سے الگ ہوجاؤ (الگ ہونا یہ کہ کوئی تعلق نہ رکھو اور خوبصورتی سے یہ کہ ان کی شکایت و انتقام کی فکر میں مت پڑو) اور (آگے ان کے عذاب کی خبر دے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے) مجھ کو اور ان جھٹلانے والوں کو ناز و نعمت میں رہنے والوں کو (حالت موجودہ پر) چھوڑ دو (یعنی رہنے دو و مرتفسیرہ فی ایتہ فذ رنی و من یکذب بھذا الحدیث) اور ان لوگوں کو تھوڑے دنوں اور مہلت دے دو (یہ کنایہ ہے صبر و انتظار سے یعنی کچھ دن اور صبر کرلیجئے عنقریب ان کو سزا ہونے والی ہے کیونکہ) ہمارے یہاں بیڑیاں ہیں اور دوزخ ہے اور گلے میں پھنس جانے والا کھانا ہے ( وھذا کقولہ یتجرعہ ولا یکاد یسیغہ) اور درد ناک عذاب ہے (پس ان لوگوں کو ان چیزوں سے سزا دی جاوے گی اور یہ سزا اس روز ہوگی) جس روز زمین و پہاڑ ہلنے لگیں اور پہاڑ (ریزہ ریزہ ہو کر) ریگ رواں ہوجائیں گے ( پھر اڑتے پھریں گے آگے مکذبین مذکورین کو بطور التفات کے خطاب ہے جس میں اثبات رسالت و تخقیق و عید بھی ہے یعنی) بیشک ہم نے تمہارے پاس ایک ایسا رسول بھیجا ہے جو تم پر (قیامت کے روز) گواہی دیں گے (کہ ان لوگوں نے تبلیغ کے بعد کیا برتاؤ کیا) جیسا ہم نے فرعون کے پاس ایک رسول بھیجا تھا، پھر فرعون نے اس رسول کا کہنا نہ مانا تو ہم نے اس کو سخت پکڑنا پکڑا سو اگر تم (بھی بعثت رسول کے بعد نافرمانی اور) کفر کرو گے تو (اسی طرح ایک روز تم کو بھی مصیبت بھگتنا پڑے گی چناچہ وہ مصیبت کا دن آنے والا ہے سو تم) اس دن (کی مصیبت) سے کیسے بچو گے جو (اپنی شدت اور طول کی وجہ سے) بچوں کو بوڑھا کر دے گا جس میں آسمان پھٹ جاوے گا بیشک اس کا وعدہ ضرور ہو کر رہے گا (یہ بھی احتمال نہیں ہے کہ وہ وقت ٹل جاوے) یہ (تمام مضمون) ایک (بلیغ) نصیحت ہے سو جس کا جی چاہے اپنے پروردگار کی طرف رستہ اختیار کرے (یعنی اس تک پہنچنے کے لئے دین کا رستہ قبول کرے، آگے اس قیام لیل کی فرضیت کا نسخ ہے جو شروع سورت میں مذکور تھا یعنی) آپ کے رب کو معلوم ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھ والوں میں سے بعضے آدمی (کبھی) دو تہائی رات کے قریب اور (کبھی) آدھی رات اور (کبھی) تہائی رات (نماز میں) کھڑے رہتے ہیں اور رات اور دن کا پورا اندازہ اللہ ہی کرسکتا ہے اس کو معلوم ہے کہ تم اس (مقدار وقت) کو ضبط نہیں کرسکتے (اور اس وجہ سے تم کو سخت مشقت لاحق ہوتی ہے کیونکہ انداز سے تخمینہ کرنے میں تو شبہ رہتا ہے کمی کا اور انداز سے زیادہ کرنے میں تمام رات کے قریب صرف ہوجاتا ہے تاکہ وقت مقدر یقیناً پورا ہوجاوے اور ان دونوں امر میں مشقت شدید ہے روحانی یا جسمانی) تو (ان وجوہ سے) اس نے تمہارے حال پر عنایت کی ( اور اس سے پہلے حکم کو منسوخ فرما دیا) سو (اب) تم لوگ جتنا قرآن آسانی سے پڑھا جاسکے پڑھ لیا کرو ( مراد اس قرآن پڑھنے سے تہجد پڑھنا ہے کہ اس میں قرآن پڑھا جاتا ہے اور یہ امر استحباب کے لئے ہے۔ مطلب یہ کہ تہجد کی فرضیت منسوخ ہوگئی اب جس قدر وقت تک آسان ہو بطور استحباب کے اگر چاہو پڑھ لیا کرو اور منسوخ ہونے کی اصل علت مشقت ہے جس پر علم ان لن تخصوہ کا قرینہ ہے اور اس کے قبل کا مضمون اس کی تمہید ہے، آگے اسی نسخ کی دوسری علت کا بیان ہے کہ) اس کو (یہ بھی) معلوم ہے کہ بعضے آدمی تم میں بیمار ہوں گے اور بعضے تلاش معاش کے لئے ملک میں فر کریں گے اور بعضے اللہ کی راہ میں جہد کریں گے (اس لئے بھی اس حکم کو منسوخ کردیا کیونکہ ان حالتوں میں پابندی تہجد اور اس کے اوقات کی مشکل تھی) سو (اس لئے بھی تم کو اجازت ہے کہ اب) تم لوگ جتنا قرآن آسانی سے پڑھا جاسکے پڑھ لیا کرو، اور (گوتجہد منسوخ ہوگیا مگر یہ احکام اب بھی باقی ہیں یعنی یہ کہ) نماز (فرض) کی پابندی رکھو اور زکوة دیتے رہو (قد مرتفسیرہ، فی اول المومنین) اور اللہ کو اچھی طرح (یعنی اخلاص سے) قرض دو اور جو نیک عمل اپنے لئے آگے (ذخیرہ آخرت کا بنا کر) بھیج دو گے اس کو اللہ کے پاس پہنچ کر اس سے اچھا اور ثواب میں بڑا پاؤ گے (یعنی دنیوی اغراض میں خرچ کرنے سے جو عوض اور نفع مرتب ہوتا ہے اس سے بہتر اور اعظم نفقات خیر پر ملے گا) اور اللہ سے گناہ معاف کراتے رہو، بیشک اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے (استغفار بھی ان ہی احکام باقیہ میں ہے) - معارف ومسائل - يٰٓاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ، مزمل کے لفظی معنے اپنے اوپر کپڑے لپیٹنے والا۔ تقریباً اسی کا ہم معنے لفظ مدثر ہے جو اگلی سورت میں آ رہا ہے۔ ان دونوں سورتوں میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک وقتی حالت اور مخصوص صفت کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے کیونکہ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شدت خوف و فزع کے سبب سخت سردی محسوس کر رہے تھے اس لئے اپنے اوپر کپڑے ڈالنے کے لئے فرمایا یہ کپڑے ڈال دیئے گئے تو آپ ان میں لپٹ گئے۔ واقعہ اس کا صحیحین بخاری و مسلم میں حضرت جابر کی روایت سے یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فترت وحی کے زمانے کا ذکر فرما رہے تھے فترت کے لفظی معنی سست یا بند ہوجانے کے ہیں، واقعہ اس کا یہ پیش آیا تھا کہ سب سے پہلے غار حرا میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جبرئیل امین نازل ہوئے اور سورة اقراء کی ابتدائی آیتیں آپ کو سنائیں۔ یہ فرشتے کا نزول اور وحی کی شدت پہلے پہل تھی جس کا اثر طبعی طور پر ہو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ام المومنین حضرت خدیجہ کے پاس تشریف لے گئے سخت سردی محسوس کر رہے تھے اس لئے فرمایا زملونی زملونی یعنی ڈھانپو مجھے ڈھانپو۔ اس کا مفصل اور طویل واقعہ صحیح بخاری کے پہلے ہی باب میں مذکور ہے اس کے بعد کچھ دنوں تکیہ سلسلہ وحی کا بند رہا اس زمانے کو جس میں سلسلہ وحی بند رہا زمانہ فترت الوحی کہا جاتا ہے آپ نے اس زمانہ فترت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک روز میں چل رہا تھا کہ اچانک میں نے آواز سنی تو نظر آسمان کی طرف اٹھائی دیکھتا کیا ہوں کہ وہ ہی فرشتہ جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان ایک معلق کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ مجھے ان کو اس ہئیت میں دیکھ کر پھر وہ ہی رعب وہیبت کی کیفیت طاری ہوگئی جو پہلی ملاقات کے وقت ہوچکی تھی میں واپس اپنے گھر چلا آیا اور گھر والوں سے کہا کہ مجھے ڈھانپ دو اس پر یہ آیت نازل ہوئی یایھا المدثر اس حدیث میں آیت یایھا المدثر کے نزول کا ذکر ہے ہوسکتا ہے کہ اسی حالت کو بیان کرنے کے لئے يٰٓاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ کا خطاب بھی آیا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لفظ مزمل کے لقب کا واقعہ الگ وہ ہو جو خلاصہ تفسیر میں بیان ہوا ہے، اس عنوان سے خطاب کرنے میں ایک خاص لطف و عنایت کی طرف اشارہ ہے جیسے محبت و شفقت میں کسی کو اس کی وقتی حالت کے عنوان سے محض تلطف کے لئے خطاب کیا جاتا ہے (روح المعانی) اس عنوان خاص سے خطاب فرما کر آپ کو نماز تہجد کا حکم اور اس کی کچھ تفصیل بتلائی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الْمُزَّمِّلُ۝ ١ ۙ- زمل - يا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ [ المزمل 1] ، أي : الْمُتَزَمِّلُ في ثوبه، وذلک علی سبیل الاستعارة، كناية عن المقصّر والمتهاون بالأمر وتعریضا به، والزُّمَيْلُ : الضّعيف، قالت أمّ تأبّط شرّا : ليس بزمّيل شروب للقیل - ( ز م ل ) يا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ [ المزمل 1] اے اوڑھنے والے ۔ تو مزمل اصل میں متزمل ہے جس کے معنی کپڑے میں لپیٹے کے ہیں اور استعارہ کے طور پر سستی اور کوتاہی کرنے والے کو بھی تعریضا مزمل کہا جاتا ہے اسی سے زمیل ہے جس کے معنی کمزور اور ناتواں کے ہیں تابط شرا کے متعلق اس کی والدہ نے کہا ہے ۔ لیس بزمیل شروب للغیل کہ وہ کمزور اور ناتواں نہیں ہے کہ دوپہر کے وقت دودھ پینے کی ضرورت ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قیام اللیل کا حکم - قول باری ہے (یایھا المزمل قم اللیل الا قلیلا، اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم) زرادہ بن اوفیٰ نے سعد بن ہشام سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہا ” مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قیام اللیل کے بارے میں بتائیے۔ “ انہوں نے فرمایا : ” تم سورة مزمل نہیں پڑھتے۔ “ میں نے عرض کیا۔” پڑھتا ہوں۔ “ انہوں نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آغاز میں قیام اللیل کو فرض کردیا تھا۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ قیام اللیل کرتے رہے حتیٰ کہ ان سب کے پائوں پھول گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخری حصے کے نزول کو بارہ ماہ تک روکے رکھا پھر اس سورت کے آخری حصے کے ذریعے تخفیف کا حکم نازل فرمایا اس طرح قیام اللیل کی فرضیت کو نفل میں تبدیل کردیا گیا۔- حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ جب سورة مزمل کا اول حصہ نازل ہوا تو صحابہ کرام رمضان کے قیام کی طرح قیام اللیل کرتے رہے حتیٰ کہ سورت کا آخری حصہ نازل ہوگیا۔ دونوں حصوں کے نزول کی درمیانی مدت تقریباً ایک سال تھی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١۔ ٤) محمد رات کو نماز کے لیے کھڑے رہا کرو مگر تھوڑی رات یعنی نصف رات یا رات کے دو حصے نماز پڑھا کرو اور قرآن کریم کو خوب صاف صاف ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو یعنی ایک آیت اور دو آیات اور تین آیات یہاں تک کہ قرات پوری کرو۔- شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ (الخ)- بزاز، طبرانی نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ قریش دار الندوہ میں جمع ہوئے اور آپس میں کہنے لگے کہ اس شخص کا کوئی نام تجویز کرو جس سے لوگ بھاگتے ہیں، تو بعض کہنے لگے کہ کاہن ہیں اس پر لوگوں نے کہا کاہن نہیں ہیں تو پھر بعض کہنے لگے کہ مجنوں ہیں اس پر بھی بعض نے کہا کہ مجنوں نہیں ہیں، پھر بعض کہنے لگے کہ ساحر ہیں اس پر بھی لوگ کہنے لگے کہ ساحر نہیں ہیں، تو اس چیز کی رسول اکرم کو اطلاع ہوئی آپ نے اپنی چادر اوڑھی اور اس میں لیٹے تو آپ کے پاس جبریل تشریف لائے اور فرمایا يٰٓاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ۔ يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ۔- اور ابن ابی حاتم نے ابراہیم نخعی سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم مخمل کی چادر اوڑھے ہوئے تھے تب یہ آیت نازل ہوئی۔- اور امام حاکم نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت يٰٓاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ۔ قُمِ الَّيْلَ نازل ہوئی، تو آپ نے ایک سال تک نماز میں اس قدر طویل قیام فرمایا کہ آپ کے قدم مبارک سوج گئے تب یہ آیت نازل ہوئی فاقروا ما تیسر منہ (الخ) اور ابن جریر نے حضرت ابن عباس سے اسی طرح روایت کی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ یٰٓــاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ ۔ ” اے کمبل میں لپٹ کر لیٹنے والے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ - فداہ آباونا وامّھاتنا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :1 ان الفاظ کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرنے اور پھر یہ حکم دینے سے کہ آپ اٹھیں اور راتوں کو عبادت کے لیے کھڑے رہا کریں ، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت یا تو آپ سو چکے تھے یا سونے کے لیے چادر اوڑھ کر لیٹ گئے تھے ۔ اس موقع پر آپ کو اے نبی ، یا اے رسول کہہ کر خطاب کرنے کے بجائے اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے کہہ کر پکارنا ایک لطیف انداز خطاب ہے جس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اب وہ دور گزر گیا جب آپ آرام سے پاؤں پھیلا کر سوتے تھے ۔ اب آپ پر ایک کار عظیم کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے جس کے تقاضے کچھ اور ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: یہ پیار بھرا خطاب حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہے، جب آپ پر پہلی پہلی بار غارِ حرا میں جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آئے تھے تو آپ پر نبوت کی ذمہ داری کا اتنا بوجھ ہوا کہ آپ کو جاڑا لگنے لگا، اور جب آپ اپنی اہلیہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو یہ فرمارہے تھے کہ مجھے چادر میں لپیٹ دو، مجھے چادر میں لپیٹ دو، اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہاں محبوبانہ انداز میں آپ کو ’’اے چادر میں لپٹنے والے‘‘ کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔