(کلا و القمر…:” کلا “ ہرگز نہیں، یعنی جہنم یا اس پر مامور فرشتوں کی تعداد سے انکار ہرگز درست نہیں۔ اس کے بعد تینچ یزوں کی قسم کھا کر فرمایا کہ جہنم یقیناً بہت ہی بڑی چیز ہے۔ ان قسموں کی مناسبت جواب قسم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جہنم کا انکار کرنے والوں کا انکار اس لئے ہے کہ وہ ان کی نگاہوں سے اوجھل ہے اور ان کے خیال میں اتنی بڑی ہولناک اور عظیم الشان چیز کا موجود ہونا ممکن نہیں۔ فرمایا اس کائنات میں چاند کو دیکھو، وہ ہلال اور بدر اور بدر سے ہلال ہونے تک روزانہ جن مراحل سے گزرتا ہے ان پر غور کرو، رات کو دیکھو جب وہ رخصت ہوتی ہے اور کائنات میں روزانہ ایک عظیم انقلاب رونما ہوتا ہے، پھر صبح کو دیکھو جب روشن ہوتی ہے تو رات کی ظلمت اپنا بوریا بستر سمیٹ لیتی ہے۔ ان میں سے ہر چیز اللہ کی قدرت کی بہت بڑی نشانی ہے، ان میں سے کوئی بھی چیز اگر تم نے دیکھی نہ ہوتی اور تمہیں اس کے متعلق بتایا جاتا تو تم اس کا اسی طرح انکار کردیتے جس طرح جہنم کا اناکر کر رہے ہو ؟ جب اتنی بڑی بڑی حقیقتیں تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو اور تمہیں ان کے موجود ہونے میں کوئی شک نہیں تو ان چیزوں کا پیدا کرنے والا تمہیں بتارہا ہے کہ یقیناً جہنم بھی اس کی بہت بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے، اس میں تمہیں شک کیوں ہے ؟- ایک مناسبت یہ بھی ہے کہ تمہارا یہ جلدی مچانا بھی بےمحل ہے کہ اگر سچے ہو تو ابھی لاؤ وہ قیامت اور جہنم جس سے ڈراتے ہو۔ فرمایا چاند کا ہلال سے بدر اور بدر سے ہلال تک پہنچنا، رات کا جانا اور صبح کا روشن ہونا اور کائنات کے بڑے بڑے انقلابات میں سے ہر انقلاب اپنے مقرر وقت پر آتا ہے، کبھی وقت ہلے نہیں آتا، اسی طرح تم یقینا درجہ بدرجہ قیامت کی طرف جا رہے ہو اور بہت جلد جہنم تمہارے سامنے آجائے گی۔ سورة انشقاق کی آیات (١٦ تا ١٩) میں یہ مضمون بیان ہوا ہے، تفصیل کے لئے ان آیات کی تفسیر ملاحظہ کریں۔- ” الکبر “” کبری “ کی جمع ہے، جو ” اکبر “ کی مونث ہے۔ ” نذیراً “ ڈرانے والی ” فعیل “ کا وزن مذکر و مونث اور واحد، تثنیہ و جمع سب کے لئے آجاتا ہے۔ یعنی یہ انسانوں کو ڈرانے والی ہے، ان انسانوں کو جنہیں اختیار ہے کہ یہ جہنم سے ڈرانے والی آیات سن کر چاہیں تو ایمن قبول کر کے جنت کی طرف بڑھ جائیں اور چاہیں تو پیچھے رہ کر جہنم کے سزا وار بن جائیں، جیسا کہ فرمایا :(فمن شآء فلیومن ومن شآء فلیکفر) (الکھف : ٢٩)” پھر جو چاہے سو ایمان لے آئے اور جو چاہے سو کفر کرے۔ “ یعنی ایمان و کفر دونوں کا اختیار ہے، ہاں، کفر کی اجازت نہیں اور نہ وہ اللہ کو پسند ہے، جیسا کہ فرمایا :(ولا یرضی لعبادہ الکفر “ (الزمر : ٨)” اور وہ اپنے بندوں کیلئے کفر کو پسند نہیں کرتا۔ “
كَلَّا وَالْقَمَرِ ٣٢ - كلا - كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] .- کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔- قمر - القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] - ( ق م ر ) القمر - ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔
(٣٢۔ ٣٨) قسم ہے چاند کی اور رات کی جس وقت وہ جانے لگیں اور صبح کی جبکہ وہ آنے لگے یا یہ کہ روشن ہوجائے اور سقر دوزخ کے حصوں میں سے ایک بڑا حصہ ہے، چناچہ جہنم، سقر، نطی، حظمہ، سعیر، جحیم، ہاویہ یہ سب دوزخ کے حصے ہیں جو ان کے لیے بڑا ڈراوا ہے۔- یا یہ کہ محمد انسانوں کو ڈرانے والے ہیں اب اس صورت میں اس جملہ کا تعلق صورت کے ابتدائی کلمات قم فانذر سے ہوجائے گا۔- یعنی تم میں جو چیز خیر کی طرف بڑھ کر ایمان لے آئے اس کے لیے بھی یا شر سے ہٹ کر اس کو چھوڑ دے اس کے لیے بھی، یا یہ کہ خیر سے ہٹ کر کفر اختیار کرے ہر کافر شخص اپنے اعمال کفر کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے دوزخ میں محبوس ہوگا۔
سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :27 یعنی یہ کوئی ہوائی بات نہیں ہے جس کا اس طرح مذاق اڑایا جائے ۔