[٢٢] دَحٰی کا معنی اور زمین کا گول ہونا :۔ دحیٰ اور طحٰی دونوں ہم معنی بلکہ ایک ہی لفظ ہے۔ صرف مختلف علاقوں کے الگ الگ تلفظ کی وجہ سے یہ دو لفظ بن گئے ہیں۔ قرآن میں یہ دونوں الفاظ صرف ایک ایک بار ہی استعمال ہوئے ہیں اور ایک ہی معنی میں آئے ہیں۔ کہتے ہیں دحی المطر الحصی یعنی بارش کنکریوں کو دور دور تک بہا کرلے گئی۔ گویا ان دونوں الفاظ کا معنی دور دور تک بچھا دینا یا پھیلادینا ہے نیز دحی ٰکے مفہوم میں گولائی کا تصور پایا جاتا ہے۔ دحوۃ شتر مرغ کے انڈہ کو کہتے ہیں۔ اس سے بعض لوگوں نے زمین کے گول ہونے پر استدلال کیا ہے۔
والارض بعد ذلک دحھا…: یہاں ایک سوال ہے کہ اس جگہ آسمان بنانے کے بعد زمین بچھانے کا ذکر فرمایا ہے، جب کہ سورة بقرہ کی آیت (٢٩) اور رحم سجدہ کی آیات (٩ تا ١٢) سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے زمین پیدا کی گئی پھر آسمان، ان دونوں کے درمیان تطبیق کیا ہوگی ؟ اہل علم نے اس کے متعدد جوابات ذکر فرمائے ہیں :(١) بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ پہلے زمین بنی پھر آسمان، البتہ زمین کو بچھانے۔ اس کا پانی اور چارہ نکالنے اور اس میں پہاڑ گاڑنے کا کام بعد میں ہوا۔ گویا زمین کی خلق (پیدائش) آسمان سے پہلے، البتہ ” حو “ (چھانا) بعد میں ہے۔ طبری نے یہ تفسیر علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے نقل کی ہے اور اسے ترجیح دی ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں :(قولہ حیث ذکر خلق الارض قبل السماء ثم ذکر السماء قبل الارض، وذلک ان اللہ خلق الارض باقوا تھا من عیران یدحوھا قبل السماء ثم استوی الی السماء فسوھن سبع سموات ثم دحا الارض بعد ذلک فذلک قولہ قبل السماء ثم استوی الی السماء فسواھن سبع سموات ثم دحا الارض بعد ذلک ، فذلک قولہ قبل السمائ، ثم استوی الی السماء فسواھن سبع سموات ثم دحا الارض بعد ذلک، فذلک قولہ : (والارض بعد ذلک دحھا) (طبری : ٢٣ ٩٢، ج : ٣٦٦٣٢)” یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس میں موجود روزیوں سمیت اسے بچھائے بغیر آسمان سے پہلے پیدا کیا، پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں درست کر کے سات آسمان بنادیا، پھر زمین کو اس کے بعد بچھا دیا، یہی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مطلب ہے :(والارض بعد ذلک دحھا) (النازعات : ٣٠)” اور زمین کو اس کے بعد بچھا دیا۔ “ ابن کثیر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ” والارض بعد ذلک دحھا “ کی تفسیر بعد والی آیات :(اخرج منھا مآء ھا ومرعھا…“ کے ساتھ فرمائی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ زمین میں پہلے پیدا کردیا تھا، مگر انہیں آسمانوں کو پیدا کرنے کے بعد زمین سے نکالا۔ (٢) بعض مفسرین نے سورة نازعات کی زیر تفسیر آیات اور حم سجدہ کی آیات (٩ تا ١٢) کو ملا کر خلاصہ یوں نکالا ہے :” اللہ تعالیٰ نے پہلے آسمان پیدا کیا، اس حال میں کہ وہ دھوئیں کی مانند تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے زمین کپیدا کیا، پھر اس پر پہاڑوں کو رکھ دیا، پھر زمین میں سبزیاں درخت وغیرہ کی پیدائش کا اندازہ مقرر کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان کو، جواب تک دھوئیں کی شکل میں تھا، سات آسمانوں میں تبدیل کیا اور آسمان کی چھت کو بلند کیا، پھر زمین کو بچھا دیا، اس میں سے پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو زمین میں مضبوطی سے گاڑ دیا۔ “ (تفسیر قرآن عزیز، سورة النازعات) (٣) تیسری تطبیق یہ ہے کہ یہاں سورة نازعات میں زمین و آسمان پیدا کرنے کی ترتیب زمانی بیان کرنا مقصود ہی نہیں ، وہ تو وہی ہے جو سورة بقرہ اور سورة حم سجدہ میں ہے، بلکہ یہاں اللہ تعالیٰ کے انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہونے کی دلیل کے طور پر پہلے آسمان کو ذکر کیا گیا ہے پھر زمین کو۔ واضح رہے کہ بعد کا لفظ ہر جگہ زمانے کی ترتیب کے لئے نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات ترتیب ذکری کے لئے ہوتا ہے، یعنی موقع کی مناسبت سے زیادہ اہم چیز پہلے ذکر ہوتی ہے اور دوسری بعد میں جیسا کہ فرمایا :(عتل بعد ذلک زنیم) (القلم : ١٣)” سخت مزاج اس کے بعد بدنام۔ “ ایسے موقع پر زمانی ترتیب کچھ بھی ہو لفظ بعد کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پہلی چیز کے بعد اس کی خبر دی جا رہی ہے، اس کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ ایسے موقع پر عموماً بعد کا معنی ” مع “ (ساتھ) ہوتا ہے، یعنی سخت مزاج ہونے کے ساتھ وہ وہ بدنام بھی ہے۔ اسی طرح سورة بلد کی آیات (١١ تا ١٧) کی تفسیر بھی دیکھ لیں، جن میں ” فک رقبۃ…“ کے بعد فرمایا :(ثم کان من الذین امنوا…) یہاں بھی ” ثم “ ترتیب زمانی کے لئے نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ گردن چھڑانے اور کھانا کھلانے کے ساتھ ساتھ ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ یہ تطبیق تقریباً تمام مفسرین نے ذکر کی ہے اور سب سے بہتر ہے، کیونکہ پہلی دونوں تطبیقوں میں چھ دن میں زمین و آسمان کی پیدائش کی تفصیل اور ترتیب پوری طرح واضح نہیں ہوتی اور نہ اصل اشکال دور ہوتا ہے۔
وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىہَا ٣٠ ۭ- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - بعد - البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء 167] - ( ب ع د ) البعد - کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔- دحا - قال تعالی: وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذلِكَ دَحاها[ النازعات 30] ، أي : أزالها عن مقرّها، کقوله : يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ [ المزمل 14] ، وهو من قولهم : دحا المطر الحصی عن وجه الأرض، أي : جرفها، ومرّ الفرس يَدْحُو دَحْواً : إذا جرّ يده علی وجه الأرض، فيدحو ترابها، ومنه : أُدْحِيُّ النّعام، وهو أُفْعُول من دحوت، ودِحْيَة : اسم رجل .- ( د ح و ) الدحو ۔ کے معنی کسی چیز کو اس کی جگہ سے زائل کردینے کے ہیں ؛ قرآن میں ہے : ۔ وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذلِكَ دَحاها[ النازعات 30] اور اس کے بعد زمین کو اس کے مقرر سے دور کیا یعنی اسے اس کی قرار گاہ سے زائل کردیا جیسا کہ آیت کریمہ : يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبالُ [ المزمل 14] میں ہے ۔ یہ کہ بارش زمین سے کنکر بہا کرلے گئی ) کے محاورہ سے ماخوذ ہے ۔ نیز کہا جاتا ہے : ۔ گھوڑا اپنے سم زمین پر لگاتا اڑاتا چلا گیا ۔ اور اسی سے ادحی النعام ہے جس کے معنی ریت میں شتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ کے ہیں ۔ یہ حوت سے افعول کے وزن پر ہے دحیہ ایک مرد کا نام تھا ( جو دحیہ کلبی کے نام سے مشہور تھا
آیت ٣١ اَخْرَجَ مِنْہَا مَآئَ ہَا وَمَرْعٰٹہَا ۔ ” اس میں سے نکالا اس کا پانی اور اس کا چارہ۔ “- یہاں یہ نکتہ خصوصی طور پر لائق توجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جتنا پانی موجود ہے اس کا منبع خود زمین ہے۔ آج سائنسی معلومات کی روشنی میں ہم اس کی وضاحت یوں کرسکتے ہیں کہ ابتدا میں زمین آگ کا ایک گولا تھی۔ جوں جوں یہ ٹھنڈی ہوتی گئی اس کے بخارات نکل کر فضا میں جمع ہوتے رہے۔ اس طرح زمین کے ارد گرد مختلف گیسوں پر مشتمل ایک غلاف سا بن گیا ‘ جسے آج ہم فضا ( ) کہتے ہیں۔ پھر کسی مرحلے پر فضا میں ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے پانی بنا۔ یہ پانی فضا سے بارش کی شکل میں سالہا سال تک زمین پر برستا رہا۔ اس کے بعد سورج کی تپش سے بخارات اٹھنے ‘ بادل بننے اور بارش برسنے کے معمول پر مشتمل پانی کا وہ مربوط نظام بنا جسے آج کی سائنس نے واٹر سائیکل ( ) کا نام دیا ہے۔- گویا اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مقدار کے مطابق دنیا میں پانی پیدا فرما کر زمین پر موجود ” زندگی “ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کی رسد اور ترسیل کا ایک خوبصورت نظام ( ) تشکیل دے دیا ہے۔ اس نظام کے تحت سمندروں کے بخارات سے بادل بنتے ہیں۔ ان بادلوں سے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت کے تحت مختلف علاقوں میں بارش برستی ہے اور برفباری ہوتی ہے۔ پھر پہاڑوں پر برف کے وسیع ذخائر سے نالوں اور دریائوں کے ذریعے نشیبی علاقوں کو سارا سال پانی کی سپلائی جاری رہتی ہے۔ گویا بارشوں اور پہاڑی گلیشیرز کے سے حاصل ہونے والے پانی سے پوری دنیا میں زیرزمین پانی کے ذخیرے کو رسد بھی مہیا ہوتی رہتی ہے اور ہر طرح کی ” زندگی “ کی تمام ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں۔ اس کے بعد جو پانی بچ رہتا ہے وہ واپس سمندر میں چلا جاتا ہے۔
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :16 اس کے بعد زمین کو بچھانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آسمان کی تخلیق کے بعد اللہ تعالی نے زمین پیدا کی ، بلکہ یہ ایسا ہی طرز بیان ہے جیسے ہم ایک بات کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں پھر یہ بات غور طلب ہے اس سے مقصود ان دونوں باتوں کے درمیان واقعاتی ترتیب بیان کرنا نہیں ہوتا کہ پہلے یہ بات ہوئی اور اس کے بعد دوسری بات ، بلکہ مقصود ایک بات کے بعد دوسری بات کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے اگرچہ دونوں ایک ساتھ پائی جاتی ہوں ۔ اس طرز بیان کی متعدد نظیریں خود قرآن مجید میں موجود ہیں ۔ مثلاً سورہ قلم میں فرمایا عتل بعد ذلک زنیم جفا کار ہے اور اس کے بعد بد اصل اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے وہ جفا کار بنا اور اس کے بعد بد اصل ہوا ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جفا کار ہے اور اس پر مزید یہ کہ بد اصل بھی ہے ۔ اسی طرح سورہ بلد میں فرمایا فک رقبۃ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ثم کان من الذین امنو ۔ غلام آزاد کرے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ایمان لانے والوں میں سے ہو ۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے وہ نیک اعمال کرے ، پھر ایمان لائے ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان نیک اعمال کے ساتھ ساتھ اس میں مومن ہونے کی صفت بھی ہو ۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن میں کہیں زمین کی پیدائش کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور آسمانوں کی پیدائش کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے ، جیسے سورہ بقرہ آیت 29 میں ہے ۔ اور کسی جگہ آسمان کی پیدائش کا ذکر پہلے اور زمین کی پیدائش کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے ، جیسے ان آیات میں ہم دیکھ رہے ہیں ۔ یہ دراصل تضاد نہیں ہے ۔ ان مقامات میں سے کسی جگہ بھی مقصود کلام یہ بتانا نہیں ہے کہ کسے پہلے بنایا گیا اور کسے بعد میں ، بلکہ جہاں موقع و محل یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالی کی قدرت کے کمالات کو نمایاں کیا جائے وہاں آسمانوں کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور زمین کا بعد میں ، اور جہاں سلسلہ کلام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ لوگوں کو ان نعمتوں کا احساس دلایا جائے ۔ جو انہیں زمین پر حاصل ہو رہی ہیں وہاں زمین کے ذکر کو آسمانوں کے ذکر پر مقدم رکھا گیا ہے ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم ، حمٰ السجدہ ، حواشی 13 ۔ 14 ) ۔