Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣] پہاڑوں کے فوائد کا ذکر قرآن میں بہت سے مقامات پر مذکور ہوا ہے۔ یہاں سورج اور پہاڑوں کا ذکر اس مناسبت سے ہے کہ بارش کے نزول میں یہ دونوں چیزیں اسباب ہیں۔ سورج کی حرارت سے سطح سمندر کے آبی بخارات اٹھتے ہیں جو پہاڑوں سے ٹکرا کر اور ٹھنڈے ہو کر برسنے لگتے ہیں۔ اسی بارش سے نباتات اور چارہ اور غلے پیدا ہوتے ہیں۔ غلے انسانوں کی غذا کے کام آتے ہیں اور گھاس اور چارہ ہمارے مویشیوں کی غذا کا کام دیتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِاَنْعَامِكُمْ۝ ٣٣ ۭ- متع - الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی:- وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] ،- ( م ت ع ) المتوع - کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔- نعم ( جانور)- [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . - ( ن ع م ) نعام - النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :18 ان آیات میں قیامت اور حیات بعد الموت کے لیے دو حیثیتوں سے استدلال کیا گیا ہے ۔ ایک یہ کہ اس خدا کی قدرت سے ان کا برپا کرنا ہرگز بعید نہیں ہے جس نے یہ وسیع و عظیم کائنات اس حیرت انگیز توازن کے ساتھ اور یہ زمین اس سرد سامان کے ساتھ بنائی ہے ۔ دوسرے یہ کہ اللہ کے مال حکمت کے جو آثار اس کائنات اور اس زمین میں صریحا نظر آرہے ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہاں کوئی کام بے مقصد نہیں ہو رہا ہے ۔ عالم بالا میں بے شمار ستاروں اور سیاروں اور کہکشانوں کے درمیان جو توازن قائم ہے وہ شہادت دے رہا ہے کہ یہ سب کچھ الل ٹپ نہیں ہو گیا ہے بلکہ کوئی بہت سوچا سمجھا منصوبہ اس کے پیچھے کار فرما ہے ۔ یہ رات اور دن کا باقاعدگی سے آنا اس بات پر گواہ ہے کہ زمین کو آباد کرنے کے لیے یہ نظم کمال درجہ دانائی کے ساتھ قائم کیا گیا ہے ۔ خود اسی زمین پر وہ خطے بھی موجود ہیں جہاں 24 گھنٹے کے اندر دن اور رات کا الٹ پھیر ہو جاتا ہے اور وہ خطے بھی موجود ہیں جہاں بہت لمبے دن اور بہت لمبی راتیں ہوتی ہیں ۔ زمین کی آبادی کا بہت بڑا حصہ پہلی قسم کے خطوں میں ہے ۔ اور جہاں رات اور دن جتنے زیادہ لمبے ہوتے جاتے ہیں وہاں زندگی زیادہ سے زیادہ دشوار اور آبادی کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے ، یہاں تک کہ 6 مہینے کے دن اور 6 مہینے کی راتیں رکھنے والے علاقے آبادی کے بالکل قابل نہیں ہیں ۔ یہ دونوں نمونے اسی زمین پر دکھا کر اللہ تعالی نے اس حقیقت کی شہادت پیش کر دی ہے کہ رات اور دن کی آمدو رفت کا یہ باقاعدہ انتظام کچھ اتفاقاً نہیں ہو گیا ہے بلکہ یہ زمین کو آبادی کے قابل بنانے کے لیے بڑی حکمت کے ساتھ ٹھیک ٹھیک ایک اندازے کے مطابق کیا گیا ہے ، اسی طرح زمین کو اس طرح بچھانا کہ وہ قابل سکونت بن سکے ، اس میں پانی پیدا کرنا جو انسان اور حیوان کے لیے پینے کے قابل اور نباتات کے لیے روئیدگی کے قابل ہو ، اس میں پہاڑوں کا جمانا اور وہ تمام چیزیں پیدا کرنا جو انسان اور ہر قسم کے حیوانات کے لیے زندگی بسر کرنے کا ذریعہ بن سکیں ۔ یہ سارے کام اس بات کی صریح علامت ہیں کہ یہ آفاقی حوادث یا کسی کھلنڈرے کے لیے بے مقصد کام نہیں ہیں ، بلکہ ان میں سے ہر کام ایک بہت بڑی حکیم و دانا ہستی نے بامقصد کیا ہے ۔ اب یہ ہر صاحب عقل آدمی کےخود سوچنے کی بات ہے کہ آیا آخرت کا ہونا حکمت کا تقاضا ہے یا نہ ہونا ؟ جو شخص ان ساری چیزوں کو دیکھنے کے باوجود یہ کہتا ہے کہ آخرت نہیں ہو گی وہ گویا یہ کہتا ہے کہ یہاں اور سب کچھ تو حکمت اور مقصدیت کے ساتھ ہو رہا ہے ، مگر زمین پر انسان کو ذی ہوش اور بااختیار بنا کر پیدا کرنا بے مقصد اور بے حکمت ہے ۔ کیونکہ اس سے بڑی کوئی بےمقصد اور بے حکمت بات نہیں ہو سکتی کہ اس زمین میں تصرف کے وسیع اختیارات دے کر انسان کو یہاں ہر طرح کے اچھے اور برے کام کرنے کا موقع تو دے دیا جائے مگر کبھی اس کا محاسبہ نہ کیا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani