Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یعنی کفر و گناہوں میں حد سے تجاوز کیا ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

پہلے اہل جہنم کی خاص علامات بیان کی گئی وہ دو ہیں - فَاَمَّا مَنْ طَغٰى،ۙوَاٰثَرَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا - اول طغیان یعنی اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول کے احکام کی پابندی کے بجائے سر کشی کرنا، دوسرے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دینا یعنی جب ایسا کوئی کام سامنے آئے کہ اسکے اختیار کرنے سے دنیا میں تو آرام یا لذت ملتی ہے مگر آخرت میں اس پر عذاب مقرر ہے اس وقت وہ دنیا کی لذت کو ترجیح دے کر آخرت کی فکر کو نظر انداز کردے۔ جو شخص دنیا میں ان دو بلاؤں میں مبتلا ہے اس کے لئے فرمایا فان الجحیم ھی الماوی، یعنی جہنم ہی اس کا ٹھکانا ہے۔ اسکے بعد اہل جنت کی اسی طرح دو علامتیں بتلائی ہیں۔ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى اول یہ کہ جس شخص کو دنیا میں اپنے ہر عمل ہر کام کے وقت یہ خوف لگا رہا کہ مجھے ایک روز حق تعالیٰ کے سامنے پیش ہو کر ان اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ دوسرے جس نے اپنے نفس کو قابو میں رکھا، ناجائز خواہشوں سے اس کو روک دیا، جس نے دنیا میں یہ دو وصف حاصل کر لئے قرآن کریم نے اس کو یہ خوشخبری دے دی فَاِنَّ الْجَنَّةَ ھِيَ الْمَاْوٰى یعنی جنت ہی اس کا ٹھکانا ہے۔- مخالفت نفس کے تین درجے - آیت مذکورہ میں جنت کے ٹھکانے کی دو شرطیں بتلائی ہیں اور غور کیا جائے تو وہ نتیجہ کے اعتبار سے ایک ہی ہے۔ کیونکہ پہلی شرط خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہی کا خوف ہے۔ دوسری شرط نفس کو ہوای سے روکنا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ خدا کا خوف ہی نفس کو اتباع ہوی سے روکنے والی چیز ہے۔ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) نے تفسیر مظہری میں فرمایا کہ مخالفت ہویٰ کے تین درجے ہیں۔- اول درجہ تو یہ ہے کہ آدمی ان عقائد باطلہ سے بچ جائے جو ظاہر نصوص اور اجماع سلف کے خلاف ہوں، اس درجہ میں پہنچ کر وہ سنی مسلمان کہلانے کا مستحق ہوجاتا ہے۔- متوسط درجہ یہ ہے کہ وہ مسی معصیت اور گناہ کا ارادہ کرے پھر اس کو یہ بات یاد آجائے کہ مجھے اللہ کے سامنے حساب دینا ہے اس خیال کی بنا پر گناہ کو ترک کردے۔ اسی متوسط درجہ کا تکملہ یہ ہے کہ آدمی شبہات سے بھی پرہیز کرے اور جس مباح و جائز کام میں مشغول ہونے سے کسی ناجائز کام میں مبتلا ہوجانیکا خطرہ ہو اس جائز کام کو بھی ترک کردے، جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کے جسنے مشتبہات سے پرہیز کیا اس نے اپنی آبرو اور دین کو بچالیا اور جو شخص مشتبہات میں مبتلا ہوگیا وہ بالآخر محرمات میں مبتلا ہوجائیگا۔ مراد مشتبہات سے وہ کام ہیں جن میں جائز و ناجائز ہونیکے دونوں احتمال ہوں، یعنی عمل کرنے والے کو یہ شبہ ہو کہ میرے لئے یہ کام جائز ہے یا ناجائز، مثلاً ایک شخص بیمار ہے وضو کرنے پر قادر ہے تو اور اس کا یقین پورا نہیں کہ میرے لئے وضا کرنا اس حالت میں مضر ہی ہے تو تمیم کا جواز اور عدم جواز مشتبہ ہوگیا اسی طرح کھڑے ہو کر نماز پڑھ تو سکتا ہے مگر مشقت بہت زیادہ ہے اس کی وجہ سے یہ اشتباہ ہوگیا کہ بیٹھ کر نماز میرے لئے درست ہے یا نہیں ایسے مواقع میں مشتبہ چیز کو چھوڑ کر یقینی جواز کو اختیار کرنا تقویٰ ہے اور مخالفت کا متوسط درجہ یہی ہے۔- مکائد نفس - نفس کی مخالفت ان چیزوں میں جو صریح طور سے گناہ اور سیئات ہیں یہ تو اگر کوئی کوشش کرے تو باختیار خود بھی اس میں کامیابی ہوجاتی ہے لیکن ایک ہوئی نفس وہ ہے جو عبات اور اعمال حسنہ میں شامل ہوجاتی ہے۔ ریا ونمود، خود پسندی یہ ایسے دقیق گناہ اور شدید ہوائی نفس ہیں جس میں انسان اکثر خود بھی دھوکا کھاتا ہے اپنے عمل کو درست و صحیح سمجھتارہتا ہے اور یہی وہ ہوائی نفس ہے جسکی مخالفت سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ضروری ہے۔ مگر اس سے بچنے کا صحیح علاج اور مجرب نسخہ اسکے سوا نہیں کہ انسان کوئی ایسا شیخ کامل تلاش کرے جو کسی ماہر شیخ کی خدمت میں رہ کر مجاہدات کرکے عیوب نفس اور انکے معالجہ سے واقف ہو اپنے آپکو اسکے حوالہ کردے اور اسکے مشورہ پر عمل کرے۔- شیخ امام حضرت یعقوب کرخی (رح) فرماتے ہیں کہ میں اپنی ابتدائی عمر میں نجار تھا (لکڑی کا کام کرتا تھا) میں نے اپنے نفس میں سستی اور باطن میں ایک قسم کی ظلمت محسوس کی تو ارادہ کیا کہ چند روز روزے رکھوں تاکہ یہ ظلمت اور سستی دور ہوجائے۔ اتفاقاً اسی روزے کی حالت میں ایک روز میں شیخ اجل امام بہاؤ الدین نقشبند (رح) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شیخ نے مہمانوں کے لئے کھانا منگایا اور مجھے بھی کھانیکا حکم دیا اور فرمایا بہت برا بندہ ہے جو اپنی ہوائی نفسانی کا بندہ ہو جو اس کو گمراہ کرے اور فرمایا کہ کھانا کھا لینا اس روزے سے بہتر ہے جو ہوائی نفسانی کے ساتھ ہو، اس وقت مجھے احساس ہا کہ میرا نفس عجب وخود پسندی کا شکار ہو رہا تھا جس کو شیخ نے محسوس کیا اور مجھے ثابت ہوگیا کہ ذکر وشغل اور نفلی عبادات میں کسی شیخ کامل کی اجازت و ہدایت درکار ہے کیونکہ وہ مکائد نفس سے واقف ہوتا ہے جس نفلی عمل میں کوئی نفس کا کید ہوگا اسی سے روک دے گا، اس وقت میں نے حضرت شیخ نقشبند قدس سرہ سے عرض کیا کہ حضرت اگر ایسا شیخ جس کو اصطلاح میں فانی فی اللہ اور باقی باللہ کہا جاتا ہے کسی کو میسر نہ ہو تو وہ کیا کرے۔ شیخ نے فرمایا کہ اس کو چاہے کہ استغفار ہوجائے کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ بعض اوقات میں اپنے قلب میں کدورت محسوس کرتا ہوں اور میں ہر روز اللہ تعالیٰ سے سو مرتبہ استغفار یعنی طلب مغفرت کرتا ہوں۔- تیسرا اعلیٰ درجہ مخالفت ہوائی نفسانی کا یہ ہے کہ کثرت ذکر اور مجاہدات وریاضات کے ذریعہ اپنے نفس کو ایسا مزکی بنا لے کہ اس میں و ہوائی نفسانی باقی ہی نہ رہے جو انسان کی شر کی طرف کھنچتی ہے یہ مقام ولایت کہا جاتا ہے۔ یہی لوگ قرآن کی اس آیت کے مصداق ہیں جو شیطان کو مخاطب کرکے کہی گئی ہے ان عبادی لیس لک علیہم سلطن، یعنی میرے خاص بندوں پر تیرا قابو نہیں چل سکے گا اور یہی مصداق ہیں اس حدیث کے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا یومن احد کم حتی یکون ھواہ تبعالما جت بہ یعنی تم میں کوئی شخص اس وقت تک مومن کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی ہوائی نفسانی میری تعلیمات کے تابع نہ ہوجائیں ( اللہم ارزقناہ بفضلک وکرمک) - آخر سورت میں کفار کے اس معاندانہ سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قیامت کے معین تاریخ اور وقت بتلانے پر اصرار کرتے تھے حاصل جواب یہ ہے کہ اس کو حق تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے صرف اپنی ذات کیلئے مخصوص رکھا ہے اس کی اطلاع کسی فرشتے یا رسول کو بھی نہیں دیگئی ہے اسلئے یہ مطالبہ لغو ہے۔- تمت سورة النازعات الحمد اللہ ٦ شعبان ١٩٣١ دو شنبہ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاَمَّا مَنْ طَغٰى۝ ٣٧ ۙ- «أمَّا»- و «أمَّا» حرف يقتضي معنی أحد الشيئين، ويكرّر نحو : أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ [يوسف 41] ، ويبتدأ بها الکلام نحو : أمّا بعد فإنه كذا . ( ا ما حرف ) اما ۔ یہ کبھی حرف تفصیل ہوتا ہے ) اور احد اشیئین کے معنی دیتا ہے اور کلام میں مکرر استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ ( سورة يوسف 41) تم میں سے ایک ( جو پہلا خواب بیان کرنے ولا ہے وہ ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کریگا اور جو دوسرا ہے وہ سونی دیا جائے گا ۔ اور کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے جیسے امابعد فانہ کذا ۔- طغی - طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] - ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا - کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani