فَاِنَّ الْجَــحِيْمَ ھِيَ الْمَاْوٰى ٣٩ ۭ- جحم - الجُحْمَة : شدة تأجج النار، ومنه : الجحیم، وجَحَمَ وجهه من شدة الغضب، استعارة من جحمة النار، وذلک من ثوران حرارة القلب، وجَحْمَتَا الأسد : عيناه لتوقدهما .- ( ج ح م ) الجحمۃ آگ بھڑکنے کی شدت اسی سے الجحیم ( فعیل ہے جس کے معنی ( دوزخ یا دہکتی ہوئی آگ کے ہیں ۔ اور جحمۃ النار سے بطور استعارہ جحم استعار ہوتا ہے جس کے معنی غصہ سے چہرہ جل بھن جانے کے ہیں کیونکہ غصہ کے وقت بھی حرارت قلب بھڑک اٹھتی ہے کہا جاتا ہے : ۔ جحم ( ف ) الا سد بعینیۃ شیر نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا کیونکہ شیر کی آنکھیں بھی آگ کی طرح روشن ہوتی ہیں ۔- أوى- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] - ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔
آیت ٣٩ فَاِنَّ الْجَحِیْمَ ہِیَ الْمَاْوٰی ۔ ” تو یقینا اس کا ٹھکانہ اب جہنم ہی ہے۔ “- ایک بندئہ مومن کو چاہیے کہ یہ تین آیات ہمیشہ کے لیے اپنی گرہ میں باندھ لے اور اپنی عملی زندگی میں ان کے مفہوم اور پیغام کو اپنے دل و دماغ میں ہر وقت مستحضر رکھے۔ طَغٰی کے معنی ہیں کسی کا اپنی حدود سے تجاوز کرنا۔ اسی معنی میں ہمارے ہاں طغیانی کا لفظ معروف ہے اور اسی مفہوم میں اس مادہ سے لفظ ” طاغوت “ مشتق ہے۔ چناچہ ان آیات کے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ۔ (الذّٰریت) یعنی جنوں اور انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ اس کے ” بندے “ بن کر رہیں۔ اب جب کوئی انسان ” بندگی “ کی حدود سے آگے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنے قانون ‘ اپنے اختیار اور اپنی مرضی کی بات کرے گا تو وہ ” بندے “ کے بجائے ” طاغوت “ بن جائے گا۔ چناچہ جو ” بندہ “ بندگی کی حدود سے تجاوز کر کے طاغوت بن گیا اور پھر اس نے اپنی سوچ ‘ اپنی مرضی ‘ اپنی منصوبہ بندی اور اپنے فیصلوں میں آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینے کی روش اپنا لی تو آخرت میں اس کے لیے جہنم کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا۔
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :21 یہاں چند مختصر الفاظ میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ آخرت میں اصل فیصلہ کس چیز پر ہونا ہے ۔ دنیا میں زندگی کا ایک رویہ ہے کہ آدمی بندگی کی حد سے تجاور کر کے اپنے خدا کے مقابلے میں سرکشی کرے اور یہ طے کر لے کہ اسی دنیا کے فائدے اور لذتیں اسے مطلوب ہیں خواہ کسی طرح بھی وہ حاصل ہوں ۔ دوسرا رویہ یہ ہے کہ یہاں زندگی بسر کرتے ہوئے آدمی اس بات کو پیش نظر رکھے کہ آخر کار ایک دن اسے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے ، اور نفس کی بری خواہشات کو پورا کرنے سے اس لیے باز رہے کہ اگر یہاں اس نے اپنے نفس کا کہا مان کر کوئی ناجائز فائدہ کما لیا یا کوئی ناروا لذت حاصل کرلی تو اپنے رب کو کیا جواب دے گا ۔ آخرت میں فیصلہ اسی بات پر ہونا ہے کہ انسان نے ان دونوں میں سے کونسا رویہ دنیا میں اختیار کیا ۔ پہلا رویہ اختیار کیا ہو تو اس کا مستقل ٹھکانا دوزخ ہے ، اور دوسرا رویہ اختیار کیا ہو تو اس کی مستقل جائے قیام جنت ۔