8۔ 1 قیامت کے ہول اور شدائد سے۔
قلوب یومئذ واجفۃ…: کئی دس اس دن دھڑک رہے ہوں گے ، یعنی سخت خوف زدہ ہوں گے۔” کئی دل “ اس لئے فرمایا کہ صالح مومن اس دن کی گھبراٹہ سے محفوظ رہیں گے۔ جیسا کہ فرمایا :(لایحزنھم الفزع الاکبر) (النبیائ : ١٠٣)”(اس دن ) سب سے بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہیں رکے گی۔ “ دلوں اور آنکھوں کا حال بیان کرنے سے اس دن کفار کی ظاہری اور باطنی پریشانی کی مکمل تصویر سامنے آگئی۔
قُلُوْبٌ يَّوْمَىِٕذٍ وَّاجِفَۃٌ ٨ ۙ- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - يَوْمَئِذٍ- ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ .- اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔- وجف - الوجیف : سرعة السّير، وأوجفت البعیر : أسرعته . قال تعالی: فَما أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكابٍ [ الحشر 6] وقیل : أدلّ فأمّل، وأوجف فأعجف، أي : حمل الفرس علی الإسراع فهزله بذلک، قال تعالی: قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ واجِفَةٌ [ النازعات 8] أي : مضطربة کقولک : طائرة وخافقة، ونحو ذلک من الاستعارات لها .- ( و ج ف ) الوجیف کے معنی تیز رفتاری کے ہیں اور اوجفت البعیر کے معنی ہیں میں نے اونٹ کو تیز دوڑایا ( قرآن میں ہے : ۔ فَما أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكابٍ [ الحشر 6] کیونکہ اس کے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ ۔ مثل مشہور ہے ۔ ادل فامل و او جف فاعجف یعنی گھوڑے کو تیز دوڑا کرو بلا کردیا ۔ وجف الشئی کسی چیز کا مضطرب ہون ا۔ قلب واجف مضطرب دل جیسے فرمایا : ۔ قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ واجِفَةٌ [ النازعات 8]
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :3 کچھ دل کے الفاظ اس لیے استعمال کیے گئے ہیں کہ قرآن مجید کی رو سے صرف کفار و فجار اور منافقین ہی پر قیامت کے روز ہول طاری ہو گا ۔ مومنین صالحین اس ہول سے محفوظ ہوں گے ۔ سورہ انبیاء میں ان کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت ان کو ذرا پریشان نہ کرے گا اور ملائکہ بڑھ کر ان کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ ( آیت 103 ) ۔