Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 یعنی معاملہ اس طرح نہیں ہے، جس طرح یہ کافر کہتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦] اسے حکم تو یہ دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کا فرمانبردار بن کر رہے۔ یہ حکم اس کی فطرت میں بھی ودیعت کیا گیا تھا پھر اسے پیغمبروں اور کتابوں کے ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ نے ایسا حکم دیا تھا۔ اگر وہ اپنے مندرجہ بالا حالات پر غور کرتا تو اس کے لیے اللہ کا فرمانبردار بن کر رہنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ مگر اس نے ان تقاضوں کو مطلقاً پورا نہیں کیا۔ بعض مفسرین نے اس آیت کو ایک الگ مستقل آیت سمجھنے کے بجائے سابقہ آیت سے مربوط کیا ہے۔ اور اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اللہ جب چاہے گا زندہ کرکے اٹھائے گا لیکن ابھی ایسا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ابھی تک اس دنیا کی آبادی اور کائنات کی تکمیل سے متعلق اس کا جو طے شدہ حکم ہے وہ ابھی تک اس نے پورا نہیں کیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

کلا لما یقض ما امرہ :” کلا “ ہرگز نہیں۔ ابن جریر (رح) نے فرمایا کہ یہ کافر انسان جو سمجھتا ہے کہ اس کے مال و جان پر اللہ کا جو حق تھا وہ اس نے ادا کردیا ہے، یہ ہرگز درست نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان نے بھی ابھی تک وہ فرئاض ہی پورے ادا نہیں کئے جن کا اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا تھا، حق کا ادا کرنا تو بہت دور ہے۔ ” لم یقض “ پورا نہیں کای۔” لما یقض “ ابھی تک پورا نہیں کیا۔ مجاہد (رح) نے فرمایا :” لا یقضی احد ماامربہ “ (بخاری، التفسیر، باب سورة عبس، بعد ج : ٣٩٣٦)” کوئی بھی شخص وہ کام پورا نہیں کرتا جس کا اسے حکم دیا گیا ہے (کمی رہ ہی جاتی ہے۔ ) “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَآ اَمَرَهٗ ، اس میں تخلیق انسانی کی ابتدا و انتہا اور ان میں حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور انعامات کا ذکر کرنے کے بعد منکر انسان کو تنبیہ کی گئی کہ ان آیات الیہہ اور انعامات کا تقاضا تھا کہ انسان ان میں غور کرکے اللہ پر ایمان لاتا اور اسکے احکام کی تعمیل کرتا مگر اس بدنصیب نے ایسا نہیں کیا، آگے پھر ان انعامات الیہہہ کا تذکر ہے جو تخلیق انسانی کی ابتداء و انتہا کے درمیانی زمانے میں انسانی پر مبذول ہوتے ہیں کہ انسان کا رزق کس طرح پیدا کیا جاتا ہے کہ آسمان سے پانی برستا ہے، بیج اور دانہ جو زمین میں مدفون ہے یہ بارش اس میں ایک حیات نباتی پیدا کرتی ہے جس کے ذریعہ ایک نحیف وصیعف کونپل زمین کو شق کرکے اوپر نکلتی ہے اور پھر اس سے انواع و اقسام کے غلے میوے اور باغات وجود میں آتے ہیں۔ ان سب انعامات الہیہ پر انسان کو مکرر سکرر تنبیہ کے بعد آخر سورت میں پھر قیامت کا ذکر ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَآ اَمَرَہٗ۝ ٢٣ ۭ- كلا - كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] .- کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٣۔ ٢٤) اللہ تعالیٰ نے جو اسے توحید کا حکم دیا تھا ہرگز اس نے اس کی بجا آوری نہیں کی سو اس کافر کو اپنے کھانے ہی میں ذرا غور کرنا چاہیے کہ کیسے ایک حالت سے وہ دوسری حالت اختیار کرتا ہے پھر اس کے بعد اسے کھاتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة عَبَس حاشیہ نمبر :16 حکم سے مراد وہ حکم بھی ہے جو اللہ تعالی نے فطری ہدایت کی صورت میں ہر انسان کے اندر ودیعت کر دیا ہے ۔ وہ حکم بھی جس کی طرف انسان کا اپنا وجود اور زمین سے لے کر آسمان تک کائنات کا ہر ذرہ اور قدرت الہی کا ہر مظہر اشارہ کر رہا ہے اور وہ حکم بھی جو ہر زمانے میں اللہ تعالی نے اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے بھیجا اور ہر دور کے صالحین کے ذریعہ سے پھیلایا ہے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ششم ، تفسیر سورہ دہر ، حاشیہ 5 ) ۔ اس سلسلہ بیان میں یہ بات اس معنی میں ارشاد فرمائی گئی ہے کہ جو حقائق اوپر کی آیتوں میں بیان ہوئے ہیں ان کی بنا پر فرض تو یہ تھا کہ انسان اپنے خالق کی فرمانبرداری کرتا ، مگر اس نے الٹی نافرمانی کی راہ اختیار کی اور بندہ مخلوق کا جو تقاضا تھا اسے پورا نہ کیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: اس سے مراد کافر بھی ہوسکتے ہیں کہُ ان کی نافرمانی بالکل ظاہر ہے، اور اگر مسلمان مراد ہوں تب بھی یہ بات صحیح ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی فرماں برداری کا پورا پورا حق کون ادا کرسکتا ہے؟