5۔ 1 ایمان سے اور اس علم سے جو تیرے پاس اللہ کی طرف سے آیا ہے۔ یا دوسرا ترجمہ جو صاحب ثروت و غنا ہے۔
(اما من استغنی …:” تصدی “ اصل میں ” تنصدی ‘ اور ” تلھی “ اصل میں ” تتلھی “ فعل مضارع مخاطب ہیں۔ یعنی جسے اپنی دولت اور سرداری کی وجہ سے آپ کی پرواہی نہیں آپ اس کے پیچھے پڑ رہے ہیں، حالانکہ اگر وہ کفر کی نجاست سے پاک نہیں ہوتا تو آپ پر کچھ الزام نہیں اور جو کوشش کر کے آیا ہے اور وہ اللہ سے ڈرتا ہے تو آپ سے بےتوجہی کرتے ہیں، حالانکہ آپ کی توجہ کا اصل حق دار وہ ہے جو طلب رکھتا ہے گونادار ہے، وہ نہیں جو بےپروا ہے خواہ سرمایہ دار ہے۔
اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰى ٥ ۙفَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰى ٦ ۭ- «أمَّا»- و «أمَّا» حرف يقتضي معنی أحد الشيئين، ويكرّر نحو : أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ [يوسف 41] ، ويبتدأ بها الکلام نحو : أمّا بعد فإنه كذا . ( ا ما حرف ) اما ۔ یہ کبھی حرف تفصیل ہوتا ہے ) اور احد اشیئین کے معنی دیتا ہے اور کلام میں مکرر استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ ( سورة يوسف 41) تم میں سے ایک ( جو پہلا خواب بیان کرنے ولا ہے وہ ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کریگا اور جو دوسرا ہے وہ سونی دیا جائے گا ۔ اور کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے جیسے امابعد فانہ کذا ۔- صدی - الصَّدَى: صوت يرجع إليك من کلّ مکان صقیل، والتَّصْدِيَةُ : كلّ صوت يجري مجری الصَّدَى في أن لا غناء فيه، وقوله : وَما کانَ صَلاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكاءً وَتَصْدِيَةً- [ الأنفال 35] ، أي : غناء ما يوردونه غناء الصّدى، ومکاء الطّير . والتَّصَدِّي : أن يقابل الشیء مقابلة الصَّدَى، أي : الصّوت الرّاجع من الجبل، قال : أَمَّا مَنِ اسْتَغْنى فَأَنْتَ لَهُ تَصَدَّى[ عبس 5- 6] ، والصَّدَى يقال لذکر البوم وللدّماغ لکون الدّماغ متصوّرا بصورة الصّدى، ولهذا يسمّى: هامة، وقولهم : أصمّ اللہ صَدَاهُ فدعاء عليه بالخرس، والمعنی: لا جعل اللہ له صوتا حتّى لا يكون له صدی يرجع إليه بصوته، وقد يقال للعطش : صَدَى، يقال : رجل صَدْيَانٌ ، وامرأة صَدْيَا، وصَادِيَةٌ.- ( ص د ی ) الصدیٰ ۔ صدائے باز گشت جو کسی شفاف مکان سے ٹکرا کر واپس آئے اور التصدیہ ( تفعیل ) ہر اس آواز کو کہتے ہیں جو صدی کی طرح ہو یعنی جس کا کوئی مفہوم نہ ہو ۔ اور آیت : ۔ وَما کانَ صَلاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكاءً وَتَصْدِيَةً [ الأنفال 35] اور لوگوں کی نماز خانہ کعبہ کے پاس سیٹیاں اور تالیان بجانے کے سوا کچھ نہ تھی ۔ میں بتایا ہے کہ ان کی نماز بےمعنی ہونے میں صدی یا پرند کی چہچہا ہٹ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ۔ التصدی صدائے باز گشت کی طرح کسی چیز کے درپے ہونا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمَّا مَنِ اسْتَغْنى فَأَنْتَ لَهُ تَصَدَّى[ عبس 5- 6] جو پرواہ انہیں کرتا اس کی طرف تم توجہ کرتے ہو ۔ الصدیٰ کے معنی بو مہ یا دماغ کے ہیں کیونکہ دماغ بھی بومہ کی شکل پر ہوتا ہے اسی لئے اس کو ہامہ بھی کہا جاتا ہے مشہور محاورہ ہے ۔ ( مثل ) اصم اللہ صداہ : خدا اسے ہلاک کرے یعنی اس میں آواز ہی نہ رہے حتیٰ کہ اس کی صدائے باز گشت آئے ۔ صد ی پیاس صد یان پیا سا آدمی امراءۃ صد یاء وصادیۃ : پیاسی عورت ۔
(٥۔ ١٦) سو جو شخص اللہ تعالیٰ سے بےپروائی کرتا ہے آپ اس کی طرف توجہ کرتے ہیں حالانکہ ان کے موحد نہ بننے کا آپ پر کوئی الزام نہیں اور جو شخص نیکی کے شوق میں آپ کے پاس دوڑ کر آتا ہے اور وہ اللہ سے ڈرتا ہے تو آپ اس پر توجہ نہیں کرتے ہیں۔ حالانکہ آپ کو ایسا نہ کرنا چاہیے اور حضرت ابن ام مکتوم پہلے ہی سے مشرف بااسلام ہوچکے تھے، چناچہ اس کے بعد جب حضرت ابن ام مکتوم آپ کے پاس آتے تو آپ ان کی بڑی خاطر و احترام کرتے، امیر ہو یا غریب یہ سورت سب کے لیے اللہ کی طرف سے ایک نصیحت کی چیز ہے لہذا جس کا دل چاہے نصیحت قبول کرے اور یہ قرآن ایسے صحیفوں میں ثبت ہے جو عنداللہ مکرم ہیں۔ رفیع المکان ہیں اور وہ شرک و برائی سے پاک ہیں جو ایسے لکھنے والوں یعنی فرشتوں کے ہاتھوں میں ہیں کہ وہ مکرم ہیں اور نیک کار ہیں۔
آیت ٥ اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی ۔ ” لیکن وہ جو بےنیازی دکھاتا ہے۔ “- ایک ایسا شخص جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سننے کو تیار نہیں ہے۔