[١٠] اعمال لکھنے والے فرشتے :۔ حالانکہ ہم نے تم پر نگران چھوڑ رکھے ہیں جو ہر وقت تمہارے ساتھ لگے رہتے ہیں وہ تمہاری ایک ایک حرکت، ایک ایک قول اور ایک ایک فعل کو ساتھ ساتھ ریکارڈ کرتے جارہے ہیں اور تمہیں خبر بھی نہیں ہوتی۔ یہ لکھنے والے نہایت معزز فرشتے ہیں۔ لکھنے میں کوئی کمی بیشی نہیں کرسکتے۔ یہ ناممکن ہے کہ وہ تمہاری کسی حرکت کو ریکارڈ نہ کریں یا تم نے کوئی کام نہ کیا ہو اور وہ تمہارے اعمال میں درج کردیں۔ پھر وہ تمہاری اس نیت سے بھی واقف ہیں جس کے تحت تم نے کوئی فعل سرانجام دیا تھا۔ لہذا ان کے اندراج میں کسی غلطی کا ہونا ناممکن ہے۔
یعلمون ماتفعلون : تمہارا کوئی مخفی سے مخفی کام ، حتیٰ کہ تمہاری نیتیں اور ارادے بھی ان سے پوشیدہ نہیں۔ لہٰذا تمہارا یہ سمجھنا کہ تمہارے چھپا کر کئے ہوئے گناہ ریکارڈ میں نہیں آئیں گے اور تم ان کی سزا سے بچ جاؤ گے، ، زبردست نادانی ہے۔ ان فرشتوں کا مزید ذکر سورق ق (١٧، ١٨) میں دیکھیے۔
يَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ١٢- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔
آیت ١٢ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ۔ ” وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کر رہے ہو۔ “- اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے بطور نگران مقرر کر رکھے ہیں جو اس کا ایک ایک عمل لکھ رہے ہیں۔ اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انسانوں کا محاسبہ کرنا منظور نہیں ہے تو گویا وہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اس کا فرشتوں کو بطور نگران مقرر کرنا اور ان فرشتوں کا ایک ایک انسان کے ایک ایک عمل کا ریکارڈ مرتب کرنا سب کا رعبث ہے۔ ایسے خیالات کے حامل لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ” کارِعبث “ اللہ کے شایانِ شان نہیں ‘ وہ احتساب ضرور کرے گا اور اس احتساب کے نتائج بھی ضرور نکلیں گے ‘ جن کا ذکر اگلی آیات میں ہے :
سورة الْاِنْفِطَار حاشیہ نمبر :7 یعنی تم لوگ چاہے دارالجزاء کا انکار کرو یا اس کو جھٹلاؤ یا اس کا مذاق اڑاؤ ، اس سے حقیقت نہیں بدلتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ تمہارے رب نے تمہیں دنیا میں شتر بے مہار بنا کر نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ اس نے تم میں سے ایک ایک آدمی پر نہایت راستباز نگران مقرر کر رکھے ہیں جو بالکل بے لاگ طریقے سے تمہارے تمام اچھے اور برے اعمال کو ریکارڈ کر رہے ہیں ، اور ان سے تمہارا کوئی کام چھپا ہوا نہیں ہے ، خواہ تم اندھیرے میں ، خلوتوں میں ، سنسان جنگلوں میں ، یا اور کسی ایسی حالت میں اس کا ارتکاب کرو جہاں تمہیں پورا اطمینان ہو کہ جو کچھ تم نے کیا ہے وہ نگاہ خلق سے مخفی رہ گیا ہے ۔ ان نگراں فرشتوں کے لیے اللہ تعالی نے کراماً کاتبین کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ، یعنی ایسے کاتب جو کریم ( نہایت بزرگ اور معزز ) ہیں ۔ کسی سے نہ ذاتی محبت رکھتے ہیں نہ عداوت کہ ایک کی بے جا رعایت اور دوسرے کی ناروا مخالفت کر کے خلاف واقعہ ریکارڈ تیار کریں ۔ خائن بھی نہیں ہیں کہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوئے بغیر بطور خود غلط سلط اندراجات کرلیں ۔ رشوت خوار بھی نہیں ہیں کہ کچھ لے دے کر کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف جھوٹی رپورٹیں کر دیں ۔ ان کا مقام ان ساری اخلاقی کمزوریوں سے بلند ہے ، اس لیے نیک و بد دونوں قسم کے انسانوں کو مطمئن رہنا چاہیے کہ ہر ایک کی نیکی بےکم و کاست ریکارڈ ہو گی ، اور کسی کے ذمہ کوئی ایسی بدی نہ ڈال دی جائے گی جو اس نے نہ کی ہو ۔ پھر ان فرشتوں کی دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ جو کچھ تم کرتے ہو اسے وہ جانتے ہیں ، یعنی ان کا حال دنیا کی سی آئی ڈی اور اطلاعات ( ) کی ایجنسیوں جیسا نہیں ہے کہ ساری تگ و دو کے باوجود بہت سی باتیں ان سے چھپی رہ جاتی ہیں ۔ وہ ہر ایک کے اعمال سے پوری طرح باخبر ہیں ، ہر جگہ ہر حال میں ہر شخص کے ساتھ اس طرح لگے ہوئے ہیں کہ اسے یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کوئی اس کی نگرانی کر رہا ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس شخص نے کس نیت سے کوئی کام کیا ہے ۔ اس لیے ان کا مرتب کردہ ریکارڈ ایک مکمل ریکارڈ ہے جس میں درج ہونے سے کوئی بات رہ نہیں گئی ہے ۔ اسی کے متعلق سورہ کہف آیت 49 میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے روز مجرمین یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ ان کا جو نامہ اعمال پیش کیا جا رہا ہے اس میں کوئی چھوٹی یا بڑی بات درج ہونے سے نہیں رہ گئی ہے ، جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب جو کا توں ان کے سامنے حاضر ہے ۔
3: اس سے مراد فرشتے ہیں جو اِنسان کے سارے اعمال کو لکھتے رہتے ہیں، اور اسی سے اُس کا اعمال نامہ تیار ہوتا ہے۔