Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٤] یعنی علیین ایسا بلند مرتبہ مقام ہے کہ وہاں ہر وقت اللہ کے مقرب فرشتے موجود رہتے ہیں یا اللہ کے مقرب بندوں کی ارواح وہاں موجود رہتی ہیں۔ یا مقرب فرشتے وہاں ابرار کے اعمالناموں کو دیکھتے اور پڑھ کر خوش ہوتے ہیں اور قیامت کے دن ان کے حق میں گواہی دیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

يَّشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُوْنَ ، یشہد، شہود سے مشتق ہے جس کے معنے حاضر ہونے اور مشاہدہ کرنیکے آتے ہیں۔ بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ مراد آیت کی یہ ہے کہ ابرار و صالحین کی کتاب الاعمال کو مقربین دیکھتے ہوں گے اور مراد مقربین سے فرشتے ہیں اور دیکھنے سے مراد اس کی نگرانی اور حفاظت ہے، مطلب یہ ہے کہ ابرار و صالحین کے صحائف اعمال مقرب فرشتوں کی نگرانی میں ہوں گے (قرطبی) اور شہود سے مراد حضور کے معنی لئے جائیں تو یشہدہ کی ضمیر کتاب کے بجائے علیین کی طرف راجع ہوگی اور معنی آیت کے یہ ہوں گے کہ مقربین بارگاہ کی ارواح اسی مقام علیین میں حاضر ہوں گی کیونکہ یہ ہی مقام ان کی ارواج کا مستقر بنایا گیا ہے۔ جس طرح سجین کفار کی ارواح مستقر ہے اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شہدا کی ارواح اللہ تعالیٰ کے نزدیک سبز پرندوں کے پوٹوں میں ہوں گی جو جنت کے باغات اور نہروں کی سیر کرتی ہوں گی اور ان کے رہنے کی جگہ قندیل ہوں گے جو عرش کے نیچے معلق ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ شہدا کی ارواح تحت العرش رہیں گی اور جنت کی سیر کرسکیں گی اور سورة یٰسین میں جو حبیب نجار کے واقعہ میں آیا ہے۔ (آیت) قیل ادخل الجنہ قال یلیت قومی یعلمون بما غفرلی ربی، اس سے معلوم ہوا کہ حبیب نجار موت کے ساتھ ہی جنت میں داخل ہوگئے اور بعض روایات حدیث سے بھی ارواح مومنین کا جنت میں ہونا معلوم ہوتا ہے، ان سب کا حاصل ایک ہی ہے کہ مستقر ان ارواح کا ساتویں آسمان پر تحت العرش ہے اور یہی مقام جنت کا بھی ہے ان ارواح کو جنت کی سیر کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اور یہاں اگرچہ یہ حال صرف مقربین کا ان کی اعلیٰ خصوصیات اور فضیلت کی وجہ سے بیان کیا گیا ہے مگر درحقیقت یہی مستقر تمام مومنین کی ارواح کا بھی ہے جیسا کہ حضرت کعب بن مالک کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ۔- انما نسمة المومن طائر یعلق فی شجر الجنة حتے ترجع الی جسدہ یوم القیمة (رواہ مالک والنسائی بسند صحیح) - مومن کی روح ایک پرندہ کی شکل میں جنت کے درختوں میں معلق رہے گی یہاں تک کہ قیامت کے روز وہ اپنے جسم میں پھر لوٹ جائے۔- اسی مضمون کی ایک حدیث ام ہانی کی روایت سے مسند احمد اور طبرانی میں آئی ہے (مظہری) - مقر ارواح یعنی موت کے بعد انسانی روحوں کا مقام کہاں ہے - اس معاملے میں روایات حدیث بظاہر مختلف ہیں، سجین اور علیین کی تفسیر میں جو روایات اوپر مذکور ہوئی ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ارواح کفار سجین میں رہتی ہیں جو ساتویں زمین میں ہے اور ارواح مومنین علیین میں رہتی ہیں جو ساتویں آسمان پر زیر عرش ہے اور مذکور الصدر روایات میں بعض سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ارواح کفار جہنم میں اور ارواح مومنین جنت میں رہیں گی۔ اور بعض روایات حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مومنین و کفار دونوں کی روحیں ان کی قبروں میں رہتی ہیں جیسا کہ حضرت برا بن عازب کی طویل حدیث میں ہے کہ جب مومن کی روح کو آسمان میں فرشتے لیجاتے ہیں تو حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے اس بندے کا اعمالنامہ علیین میں لکھ دو اور اس کو زمین کی طرف لوٹا دو کیونکہ اس کو میں نے زمین ہی سے پیدا کیا ہے اور مرنے کے بعد اسی میں لوٹاؤں گا اور پھر اسی زمین سے ان کو دوبارہ زندہ کرکے نکالوں گا، اس حکم پر فرشتے اس کی روح کو قبر میں لوٹا دیتے ہیں۔ اسی طرح کافر کی روح کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور یہی حکم ہوگا کہ اس کو اس کی قبر میں لوٹا دو ۔ امام ابن عبدالبر نے اسی کو ترجیح دی ہے کہ سب کی ارواح بعد الموت قبر ہی میں رہتی ہیں۔ ان میں پہلی اور دوسری روایات میں جو یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ بعض سے ارواح مومنین کا ........ علیین میں رہنا معلوم ہوتا ہے اور بعض سے جنت میں رہنا، غور کیا جائے تو یہ کوئی اختلاف نہیں کیونکہ مقام علیین بھی ساتویں آسمان پر زیر عرش ہے اور جنت کا بھی یہی مقام خود قرآن کریم کی تصریح سے ثابت ہے (آیت) عند سدرة المنتھی عندھا جنة الماوی اس میں تصریح ہے کہ جنت سندرة المنتہی کے پاس ہے اور سدرہ کا ساتویں آسمان میں ہونا حدیث سے ثابت ہے اسلئے مقام ارواح جب علیین ہوا تو وہ جنت کے متصل ہے اور ان ارواح کو جنت کے باغات کی سیر نصیب ہے اسلئے ان کا مقام جنت بھی کہا جاسکتا ہے۔- اسی طرح کفار کی ارواح سجین میں ہیں اور ساتویں زمین میں ہے اور حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ جہنم بھی ساتویں زمین میں ہے اور اہل سجین کو جہنم کی تپش اور ایذائیں پہنچتی رہیں گی اسلئے انکا مقام جہنم میں کہہ دینا بھی صحیح ہے۔ البتہ اوپر جس روایت میں ارواح کا قبر میں رہنا معلوم ہوتا ہے بظاہر پچھلی دونوں روایتوں سے بہت مختلف ہے اس کی تطبیق بیہقی زمانہ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) نے تفسیر مظہری میں یہ بیان کی ہے کہ یہ بات کچھ بعید نہیں کہ اصل مستقر ارواح کا علیین اور سجین ہی ہوں مگر ان ارواح کا ایک خاص رابطہ قبروں کے ساتھ بھی قائم ہو۔ اس رابطہ کی حقیقت تو اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا مگر جس طرح آفتاب ماہتاب آسمان میں ہیں اور ان کی شعاعیں زمین پر پڑ کر اس کو روشن بھی کردیتی ہیں گرم بھی۔ اسی طرح علیین و سجین کی ارواح کا کوئی رابطہ معنویہ قبروں سے ہوسکتا ہے اور ان تمام اقوام کی تطبیق میں حضرت قاضی ثناء اللہ (رح) کی تحقیق سورة نازعات کی تفسیر میں بھی گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ روح کی دو قسمیں ہیں ایک جسم لطیف ہے جو انسان کے بدن میں حلول کرتا ہے اور وہ مادی اور عنصری جسم ہے مگر لطیف ہے نظر نہیں آتا، اسی کو نفس کہا جاتا ہے۔ دوسری روح جوہر مجرد ہے مادی نہیں، اور وہ روح مجرد ہی روح اول کی حیات ہے اسلئے اس کو روح الروح کہہ سکتے ہیں، انسان کے جسم سے تعلق تو ان دونوں قسم کی روحوں کا ہے مگر پہلی قسم جسم انسانی کے اندر رہتی ہے اسکے نکلنے ہی کا نام موت ہے۔ دوسری روح کا اس پہلی روح سے تعلق قریب تو ہے مگر اس تعلق کی حقیقت اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ مرنے کے بعد روح اول تو آسمانوں میں لیجائی جاتی ہے پھر قبر میں لوٹا دیجاتی ہے اس کا مستقر قبر ہی ہے اسی پر عذاب وثواب ہوتا ہے اور روح مجرد علیین یا سجین میں رہتی ہے۔ اسطرح اقوام جمع ہوگئے مستقر ارواح کا جنت یا علیین میں یا اسکے بالمقابل جہنم یا سجین میں ہونا روح مجرد کے اعتبار سے ہے اور انکار مستقر قبر میں ہونا روح کی قسم اول یعنی نفس کے اعتبار سے ہے جو جسم لطیف ہے اور مرینکے بعد قبر میں رہتا ہے۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يَّشْہَدُہُ الْمُقَرَّبُوْنَ۝ ٢١ ۭ- شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے - قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] ، وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] ، وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] .- وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، - ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ یَّشْہَدُہُ الْمُقَرَّبُوْنَ ۔ ” وہاں موجود ہوں گے ملائکہ مقربین۔ “- ان لوگوں کی ارواح کو ملائکہ مقربین کی صحبت میسر ہوگی۔ اس بلند مقام پر انہیں قیام قیامت تک رکھا جائے گا ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: مومنوں کا اعمال نامہ چونکہ نیکیوں پر مشتمل ہوتا ہے، اس لئے مقرّب فرشتے اُس کے اِعزاز و اِکرام کے طور پر اُسے دیکھتے ہیں، اور دیکھنے کا مطلب اُس کی نگرانی بھی ہوسکتا ہے۔