زمین مردے اگل دے گی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن آسمان پھٹ جائے گا وہ اپنے رب کے حکم پر کاربند ہونے کے لیے اپنے کان لگائے ہوئے ہو گا پھٹنے کا حکم پاتے ہی پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیگا اسے بھی چاہیے کہ امر اللہ بجا لائے اس لیے کہ یہ اس اللہ کا حکم ہے جسے کوئی روک نہیں سکتا جس سے بڑا اور کوئی نہیں جو سب پر غالب ہے اس پر غالب کوئی نہیں ، ہر چیز اس کے سامنے پست و لاچار ہے بےبس و مجبور ہے اور زمین پھیلا دی جائیگی بچھا دی جائیگی اور کشادہ کر دی جائیگی ۔ حدیث میں ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمین کو چمڑے کی طرح کھینچ لے گا یہاں تک کہ ہر انسان کو صرف دو قدم ٹکانے کی جگہ ملے گی سب سے پہلے مجھے بلایا جائیگا حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی دائیں جانب ہوں گے اللہ کی قسم اس سے پہلے اس نے کبھی اسے نہیں دیکھا تو میں کہوں گا اللہ جبرائیل نے مجھ سے کہا تھا کہ یہ تیرے بھیجے ہوئے میرے پاس آتے ہیں اللہ فرمائے گا سچ کہا تو میں کہوں گا اللہ پھر مجھے شفاعت کی اجازت ہو چنانچہ مقام محمود میں کھڑا ہو کر میں شفاعت کروں گا اور کہوں گا کہ اللہ تیرے ان بندوں نے زمین کے گوشتے گوشتے پر تیری عبادت کی ہے ( ابن جریر ) پھر فرماتا ہے کہ زمین اپنے اندر کے کل مردے اگل دے گی اور خالی ہو جایئگی یہ بھی رب کے فرمان کی منتظر ہو گی اور اسے بھی یہی لائق ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اے انسان تو کوشش کرتا رہیگا اور اپنے رب کی طرف آگے بڑھتا رہیگا اعمال کرتا رہیگا یہاں تک کہ ایک دن اس سے مل جائیگا اور اس کے سامنے کھڑا ہو گا اور اپنے اعمال اور اپنی سعی و کوشش کو اپنے سامنے دیکھ لے گا ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جی لے جب تک چاہے بالآخر موت آنے والی ہے جس سے چاہ و دل بستگی پیدا کر لے ایک دن اس سے جدائی ہونی ہے جو چاہے عمل کر لے ایک دن اس کی ملاقات ہونے والی ہے ، ملاقیہ کی ضمیر کا مرجع بعض نے لفظ رب کو بھی بتایا ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ اللہ سے تیری ملاقات ہونے والی ہے وہ تجھے تیرے کل اعمال کا بدلہ دے گا اور تیری تمام کوشش و سعی کا پھل تجھے عطا فرمائے گا دونوں ہی باتیں آپس میں ایک دوسری کو لازم و ملزوم ہیں قتادہ فرماتے ہیں کہ اے ابن آدم تو کوشش کرنے والا ہے لیکن اپنی کوشش میں کمزور ہے جس سے یہ ہو سکے کہ اپنی تمام تر سعی و کوشش نیکیوں کی کرے تو وہ کر لے دراصل نیکی کی قدرت اور برائیوں سے بچنے کی طاقت بجز امداد الٰہی حصال نہیں ہو سکتی ۔ پھر فرمایا جس کے داہنے ہاتھ میں اس کا اعمال نامہ مل جائیگا اس کا حساب سختی کے بغیر نہایت آسانی سے ہو گا اس کے چھوٹے اعمال معاف بھی ہو جائیں گے اور جس سے اس کے تمام اعمال کا حساب لیا جائیگا وہ ہلاکت سے نہ بچے گا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس سے حساب کا مناقشہ ہو گا وہ تباہ ہو گا تو حضرت عائشہ نے فرمایا قرآن میں تو ہے کہ نیک لوگوں کا بھی حساب ہو گا آیت ( فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا Ďۙ ) 84- الانشقاق:8 ) آپ نے فرمایا دراصل یہ وہ حساب نہیں یہ تو صرف پیشی ہے جس سے حساب میں پوچھ گچھ ہو گی وہ برباد ہو گا ( مسند احمد ) دوسری روایت میں ہے کہ یہ بیان فرماتے ہوئے آپ نے اپنی انگلی اپنے ہاتھ پر رکھ کر جس طرح کوئی چیز کریدتے ہیں اس طرح اسے ہلا جلا کر بتایا مطلب یہ ہے کہ جس سے باز پرس اور کرید ہو گی وہ عذاب سے بچ نہیں سکتا خود حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ جس سے باقاعدہ حساب ہو گا وہ تو بےعذاب پائے نہیں رہ سکتا اور حساب یسیر سے مراد صرف پیشی ہے حالانکہ اللہ خوب دیکھتا رہا ہے حضرت صدیقہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نماز میں یہ دعا مانگ رہے تھے دعا ( اللھم حاسبنی حسابا یسیرا ) جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ آسان حساب کیا ہے؟ فرمایا صرف نامہ اعمال پر نظر ڈال لی جائیگی اور کہہ دیا جائیگا کہ جاؤ ہم نے درگذر کیا لیکن اے عائشہ جس سے اللہ حساب لینے پر آئے گا وہ ہلاک ہو گا ( مسند احمد ) غرض جس کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال آئیگا وہ اللہ کے سامنے پیش ہوتے ہی چھٹی پا جائے گا اور اپنے والوں کی طرف خوش خوش جنت میں واپس آئیگا ، طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں تم لوگ اعمال کر رہے ہو اور حقیقت کا علم کسی کو نہیں عنقریب وہ وقت آنے والا ہے کہ تم اپنے اعمال کو پہچان لو گے بعض وہ لوگ ہوں گے جو ہنسی خوشی اپنوں سے آ ملیں گے اور بعض ایسے ہوں کہ رنجیدہ افسردہ اور ناخوش واپس آئیں گے اور جسے پیٹھ پیچھے سے بائیں ہاتھ میں ہاتھ موڑ کر نامہ اعمال دیا جائیگا وہ نقصان اور گھاٹے کی پکار پکارے گا ہلاکت اور موت کو بلائے گا اور جہنم میں جائیگا دنیا میں خوب ہشاش بشاش تھا بےفکری سے مزے کر رہا تھا آخرت کا خوف عاقبت کا اندیشہ مطلق نہ تھا اب اس کو غم و رنج ، یاس محرومی و رنجیدگی اور افسردگی نے ہر طرف سے گھیر لیا یہ سمجھ رہا تھا کہ موت کے بعد زندگی نہیں ۔ اسے یقین نہ تھا کہ لوٹ کر اللہ کے پاس بھی جانا ہے پھر فرماتا ہے کہ ہاں ہاں اسے اللہ ضرور دوبارہ زندہ کر دے گا جیسے کہ پہلی مرتبہ اس نے اسے پیدا کیا پھر اس کے نیک و بد اعمال کی جزا و سزا دے گا بندوں کے اعمال و احوال کی اسے اطلاع ہے اور وہ انہیں دیکھ رہا ہے ۔
1۔ 1 یعنی جب قیامت برپا ہوگی۔
(اذا السمآء انشقت : دوسری جگہ فرمایا :(وفتحت السمآء فکانت ابواباً ) (النبا : ١٩)” اور آسمان کھولا جائے گا تو وہ دروازے دروازے ہوجائے گا۔ “ اور فرمایا :(یوم تشقق السمآء بالغمام و نزل الملٓئکۃ تنزیلاً ) (الفرقان ٢٥)” جس دن آسمان بادلوں کے ساتھ پھٹے گا اور فرشتے گروہ درگروہ در گروہ اتارے جائیں گے۔ “ یہ نفخہ ثانیہ کے ساتھ ہوگا، آگے زمین سے مردوں کے نکلنے کے ذکر سے بھی یہی معلمو ہو رہا ہے۔
خلاصہ تفسیر - جب (نفخہ ثانیہ کے وقت) آسمان پھٹ جاوے گا (تاکہ اس میں سے غمام یعنی بادل کی شکل کی ایک چیز کا نزول ہو جس میں فرشتے ہوں گے جس کا ذکر پارہ وقال الذین لایرجون آیت و یوم تشفق السماء والخ میں ہے) اور اپنے رب کا حکم سن لیگا (اور مان لیگا، یہاں حکم سے مراد حکم تکوینی انشاق کا ہے اور ماننے سے مراد اس کا وقوع ہے) اور وہ (آسمان بوجہ محکوم قدرت ہونے کے) اسی لائق ہے (کہ جس امر کی مشیت اس کے متعلق ہو اس کا وقوع ضرور ہوجاوے) اور جب زمین کھینچ کر بڑھا دی جاوے گی (جس طرح چمڑا یا ربڑ کھینچا جاتا ہے، پس اس وقت کی مقدار سے اس وقت مقدار زیادہ ہوجاوے گی تاکہ سب اولین و آخرین اس میں سماجا ویں جیسا در منشور میں بسند جید حاکم کی روایت سے مرفوعاً وارد ہے تمد الارض یوم القیمتہ مدالادیم لخ پس آسمان کا یہ انشقاق اور زمین کا امتداد دونوں حساب محشر کے مقدمات میں سے ہیں) اور (وہ زمین) اپنے اندر کی چیزوں کو (یعنی مردوں کو) باہر اگل دیگی اور (سب مردوں سے) خالی ہوجاوے گی اور وہ زمین) اپنے رب کا حکم سن لیگی اور وہ اسی لائق ہے (اس کی تفسیر بھی مثل سابق ہے بس اس وقت انسان اپنے اعمال کو دیکھے گا جیسا آگ ارشاد ہے کہ) اے انسان تو اپنے رب کے پاس پہنچنے تک (یعنی مرنے کے وقت تک) کام میں کوششیں کر رہا ہے (یعنی کوئی نیک کام میں لگا ہوا ہے کوئی برے کام میں) پھر) (قیامت میں) اس (کام کی جزائ) سے جا ملے گا تو (اس روز) جس شخص کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں ملے گا سو اس سے آسان حساب لیا جاوے گا اور وہ ( اس سے فارغ ہو کر) اپنے متعلقین کے پاس خوش خوش آئیگا ( آسان حساب کے مراتب مختلف ہیں، ایک یہ کہ اس پر بالکل عذاب مرتب نہ ہو۔ بعض کے لئے تو یہ ہوگا اور حدیث میں اسی کی تفسیر یہ آئی ہے کہ جس حساب میں مناقشہ (خوردہ گیری) نہ ہو صرف پیشیش ہوجاوے اور یہ ان کے لئے ہوگا جو بلا کسی عذاب کے نجات پائیں گے۔ دوسرا یہ کہ اس پر عذاء دائمی نہ ہو اور یہ عام مومنین کے لئے ہوگا۔ اور مطلق عذاب اس کے منافی نہیں) اور جس شخص کا نامہ اعمال (اسکے بائیں ہاتھ میں) اس کی پیٹھ کے پیچھے سے ملے گا (مراد اس سے کفار ہیں اور پشت کی طرف سے ملنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ اس کی مشکیں کسی ہوئی ہوں گی تو بایاں ہاتھ میں پشت کی طرف ہوگا دوسری صورت مجاہد کا قول ہے کہ اس کا بایاں ہاتھ پشت کی طرف نکال دیا جاوے گا کذا فی الدالمنشور) سو وہ موت کو پکاریگا (جیسا مصیبت میں عادت ہے موت کی تمنا کرنے کی) اور جہنم میں داخل ہوگا، یہ شخص (دنیا میں) اپنے متعلقین (اہل و عیال وحشم وخدم) میں خوش خوش رہا کرتا تھا (یہاں تک کہ فرط خوشی میں آخرت کی تکذیب کرنے لگا تھا جیسا کہ آگے ارشاد ہے کہ) اس نے خیال کر رکھا تھا کہ اس کو (خدا کی طرف) لوٹنا نہیں ہے (آگے رو ہے اس گمان کا کہ لوٹنا) کیوں نہ ہوتا (آگے لوٹنے کے بعد جزا کا اثبات ہے کہ) اسکا رب اس کو خوب دیکھتا تھا ( اور اس کے اعمال پر جزا دینے کے ساتھ مشیت متعلق کرچکا تھا اس لئے جزا کا وقوع اس کا رب اس کو خوب دیکھتا تھا (اور اس کے اعمال پر جزا دینے کے ساتھ مشیت متعلق کرچکا تھا اس لئے جزا کا وقوع ضروری تھا) سو (اس بنا پر) میں قسم کھا کر کہتا ہوں شفیق کی اور رات کی اور ان چیزوں کی جن کو رات سمیٹ (کر جمع کر) لیتی ہے (مراد وہ سب جاندار ہیں جو رات کو آرام کرنے کے لئے اپنے اپنے ٹھکانے میں آجاتے ہیں) اور چاند کی جب وہ پورا ہوجاوے (یعنی بدربنجاوے، ان سب چیزوں کی قسم کھا کر کہتا ہوں) کہ تم لوگوں کو ضرور ایک حالت کے بعد دوسری حالت پر پہنچنا ہے (یہ تفصیل ہے یا یھا الانسان تا ملاقیہ کی، پس وماں جنس کو خطاب تھا یہاں دوسری حالت پر پہنچنا ہے (یہ تفصیل ہے یایھا الانسان تا ملاقیہ کی پس وہاں جنس کو خطاب تھا یہاں جمیع افراد کو خطاب ہے وہاں بقائے عمل کا ذکر مجملاً فرمایا، یہاں اس چیز کی تفصیل ہے جس سے روز محشر ملے گا یا اس کے سامنے آویگی اور وہ حالتیں ایک موت ہے اس کے بعد احوال برزخ اس کے بعد احوال قیامت پھر خود ان میں بھی تعدد و کثرت ہے اور ان قسموں کا مناسب مقام ہونا اس طرح ہے کہ رات کے احوال کا مختلف ہونا کہ اول شفق نمودار ہوتی ہے پھر زیادہ رات آتی ہے تو سب سو جاتے ہیں اور پھر ایک رات کا دوسری رات سے نور قمر کی زیارت و نقصان میں مختلف ہونا، یہ سب مشابہ ہے اختلاف احوال بعد الموت کے، و نیز موت سے عالم آخرت شروع ہوتا ہے جیسے شفیق سے رات شروع ہوتی ہے پھر عالم برزخ میں رہنا مشابہ لوگوں کے سو رہنے کے ہے اور چاند کا پورا ہونا بعد محاق کے مشابہ ہے حیوہ قیامت کے بعد فناء عالم کے) سو (باوجود ان مقتضیات خوف و ایمان کے اجتماع کے) ان لوگوں کو کیا ہوا کہ ایمان نہیں لاتے اور (خود تو ایمان اور حق کی کیا طلب کرتے ان کی عناد کی یہ حالت ہے کہ) جب ان کے روبرو قرآن پڑھا جاتا ہے تو (اس وقت بھی خدا کی طرف) نہیں جھکتے بلکہ (بجائے جھکنے کے) یہ کافر (اور الٹی) تکذیب کرتے ہیں اور اللہ کو سب خبر ہے جو کچھ یہ لوگ (اعمال بد کا ذخیرہ) جمع کر رہے ہیں سو (ان اعمال کفر یہ کے سبب) آپ ان کو ایک دد ناک عذاب کی خبر دیدجیئے لیکن جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ان کے لئے (آخرت میں) ایسا اجر ہے جو کبھی موقوف ہونے والا نہیں (عمل صالح کی قید شرط کے طور پر نہیں سبب کے طریق پر ہے۔ ) - معارف و مسائل - اس سورت میں قیامت کے احوال اور حساب کتاب اور نیک و بد کی جزاء و سزا کا پھر غافل انسان کو خد اس کی ذات اور گرد و پیش کے حالات میں غور کرنے اور ان سے ایمان باللہ والقران تک پہنچنے کی ہدایت ہے۔ اس میں پہلے آسمان کے پھٹنے کا ذکر ہے پھر زمین کا جو کچھ اس کے پیٹ میں ہے خواہ وہ خزائن دفائن ہوں یا انسان کے مردہ اجسام وہ سب اگل کر نکالدے گی اور محشر کے لئے ایک نئی زمین تیار ہوگی جس میں نہ کوئی غار، پہاڑ ہوگا نہ تعمیر اور درخت ایک صاف سطح مستوی ہوگی اس کو کھینچ کر بڑھا دیا جائے گا تاکہ تمام اولین و آخرین اس پر جمع ہو سکیں یہ بیان دوسری سورتوں میں مختلف عنوان سے آیا ہے، یہاں ایک نئی زیادتی یہ ہے کہ آسمان اور زمین دونوں پر جو تصرف حق تعالیٰ کی طرف سے روز قیامت ہوگا اس کے متعلق فرمایا و اذنت لرنھا وحقت اذن کے معنی ہیں سن لیا اور مراد سننے سے سن کر اطاعت کرنا ہے اور حقت بصیغہ مجہول کے معنی یہ ہیں کہ حق لھا الانقیاد یعنی حق واجب تھا کہ وہ اللہ کے اس حکم کی اطاعت کرے۔- احکام الہیہ کی دو قسمیں :۔ یہاں آسمان و زمین کی اطاعت اور تعمیل حکم کے دو معنے ہو سکتے ہیں کیونکہ احکام الہیہ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تشریعی احکام جن میں ایک قانون بتلایا جاتا ہے اور اس کی خلاف ورزی کی سزا بتلا دی جاتی ہے مگر کرنیوالے کو اس کی کسی جانب پر مجبور محض نہیں کیا جاتا بلکہ اس کو ایک درجہ کا اختیار دیا جاتا ہے وہ اپنے اختیار سے اس قانون کی پابندی کرے یا خلاف ورزی اور ایسے احکام عموماً ان مخلوقات پر عائد ہوتے ہیں جو ذوی العقول کہلاتے ہیں جیسے انسان اور جن، یہیں سے ان میں مومن و کافر اور مطیع و نافرمان کی دو قسمیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ دوسری قسم احکام کی تکوینی اور تقدیری احکام ہیں ان کی تنقید جبری ہوتی ہے کسی کی مجال نہیں کہ سر موان کے خلاف کرسکے ان احکام کی تعمیل کل مخلوقات جبراً کرتی ہے ان میں انسان اور جن بھی داخل ہیں، تکوینی احکام میں ان کے لئے جو کچھ مقدر کردیا گیا ہے مومن ہو یا کافر، متقی ہو یا فاسق، سب کے سب اسی تقدیر قانون کے تابع چلنے پر مجبور ہیں۔- ذرہ ذرہ دہر کا پابستہ تقدیر ہے زندگی کے خواب کی جامی یہی تعبیر ہے - اس جگہ یہ ہوسکتا ہے کہ آسمان و زمین کو حق تعالیٰ خاص شعو رو ادراک عطا فرما دیں جو مکلفین میں ہوتا ہے اور جب ان کو کوئی حکم حق تعالیٰ کی طرف سے ملا انہوں نے با اختیار خود اس کی تعمیل اور اطاعت کی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس حکم سے مراد حکم تکوینی لیا جائے جس میں کسی کے ارادہ و اختیار کو دخل ہی نہیں ہوتا اذنت لرزبھا وحقت کے الفاظ پہلے معنے کے لئے زیادہ اقرب ہیں، دوسرے معنے بھی بطور مجاز کی بن سکتے ہیں۔
اِذَا السَّمَاۗءُ انْشَقَّتْ ١ ۙ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- شق - الشَّقُّ : الخرم الواقع في الشیء . يقال : شَقَقْتُهُ بنصفین . قال تعالی: ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس 26] ، يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] ، وَانْشَقَّتِ السَّماءُ [ الحاقة 16] ، إِذَا السَّماءُ انْشَقَّتْ [ الانشقاق 1] ، وَانْشَقَّ الْقَمَرُ [ القمر 1] ، وقیل : انْشِقَاقُهُ في زمن النّبيّ عليه الصلاة والسلام، وقیل : هو انْشِقَاقٌ يعرض فيه حين تقرب القیامة وقیل معناه : وضح الأمروالشِّقَّةُ : القطعة الْمُنْشَقَّةُ کالنّصف، ومنه قيل : طار فلان من الغضب شِقَاقًا، وطارت منهم شِقَّةٌ ، کقولک : قطع غضبا والشِّقُّ : الْمَشَقَّةُ والانکسار الذي يلحق النّفس والبدن، وذلک کاستعارة الانکسار لها . قال عزّ وجلّ : لَمْ تَكُونُوا بالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ- [ النحل 7] ، والشُّقَّةُ : النّاحية التي تلحقک المشقّة في الوصول إليها، وقال : بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة 42] ، - ( ش ق ق ) الشق - الشق ۔ شگاف کو کہتے ہیں ۔ شققتہ بنصفین میں نے اسے برابر دو ٹکڑوں میں کاٹ ڈالا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا[ عبس 26] پھر ہم نے زمین کو چیرا پھاڑا ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِراعاً [ ق 44] اس روز زمین ( ان سے ) پھٹ جائے گی ۔ وَانْشَقَّتِ السَّماءُ [ الحاقة 16] اور آسمان پھٹ جائے گا ۔ إِذَا السَّماءُ انْشَقَّتْ [ الانشقاق 1] جب آسمان پھٹ جائیگا ۔ اور آیت کریمہ : وَانْشَقَّ الْقَمَرُ [ القمر 1] اور چاند شق ہوگیا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ انشقاق قمر آنحضرت کے زمانہ میں ہوچکا ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ یہ قیامت کے قریب ظاہر ہوگا اور بعض نے انشق القمر کے معنی وضح الاسر کئے ہیں یعنی معاملہ واضح ہوگیا ۔ الشقۃ پھاڑا ہوا ٹکڑا ۔ اسی سے محاورہ ہے ۔ طار فلان من الغضب شقاقا فلاں غصہ سے پھٹ گیا ۔ جیسا کہ قطع غضبا کا محاورہ ہے ۔ طارت منھم شقۃ ۔ ان کا ایک حصہ اڑ گیا ۔ یعنی غضب ناک ہوئے ۔ الشق اس مشقت کو کہتے ہیں جو تگ و دو سے بدن یا نفس کو ناحق ہوتی ہے جیسا کہ الانکسار کا لفظ بطور استعارہ نفس کی درماندگی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ [ النحل 7] زحمت شاقہ کے بغیر الشقۃ وہ منزل مقصود جس تک بہ مشقت پہنچا جائے ۔ قرآن میں ہے َبَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ [ التوبة 42] لیکن مسافت ان کو دور ( دراز ) نظر آئی ۔
(١۔ ٢) جب آسمان غمام و ملائکہ کے نزول کے لیے پھٹ جائے گا اور اپنے رب کا حکم سن لے گا اور وہ آسمان اسی لائق ہے۔
آیت ١ اِذَا السَّمَآئُ انْشَقَّتْ ۔ ” جب آسمان پھٹ جائے گا۔ “- نوٹ کیجیے ان تمام سورتوں کا بنیادی موضوع ” تذکیر آخرت “ ہے۔
1: پچھلی سورتوں کی طرح اس سورت میں بھی قیامت کے حالات بیان فرمائے گئے ہیں۔ عربی میں پھٹ پڑنے کو ’’انشقاق‘‘ کہتے ہیں، اسی لئے اس سورت کا نام انشقاق ہے۔