فسوف یدعوا ثبوراً : یعنی عذاب کے ڈر سے ہلاکت کو پکارے گا، تاکہ وہ مر کر عذاب سے نجات پا جائے
فسوف یدعوا ثبوراً یعنی جس کا اعمالنامہ اس کی پشت کی طرف سے اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ وہاں اس کی تمنا کرے گا کہ کاش وہ پھر مر کر مٹی ہوجائے اور عذاب سے بچ جائے گا مگر وہاں یہ ناممکن ہوگا بلکہ اس کہ جہنم میں داخل کردیا جائیگا، اس کی ایک وجہ یہاں یہ ارشاد فرمائی کہ وہ دنیا میں اپنے اہل و عیال میں آخرت سے بےفکر ہو کر مگن اور خوش رہا کرتا تھا، بخلاف مؤمنین کے کہ ان کو دنیا کی زندگی میں کبھی بےفکری نہیں ہوتی، ہر عیش و راحت کے وقت بھی آخرت کی فکر ضرور لگی رہتی ہے جیسا کہ قرآن کریم نے ان کا حال بیان فرمایا ہے۔ انا کنا قبل فی اھلینا مشفقین یعنی ہم تو اپنے اہل و عیال کیساتھ آخرت سے بےفکر ہو کر عیش و عشرت اور خوشی و مسرت میں گزارتے تھے آج ان کے حصہ میں یہ عذاب جہنم آئے گا اور جو لوگ دنیا میں آخرت کے حسابو عذاب سے ڈرتے رہتے تھے ان کو وہاں مسرت و خوشی حاصل ہوگی اور اب وہ اپنے اہل و عیال میں دائمی مسرت کے ساتھ رہیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کی راحتوں میں مست و مسرور ہوجانا مومن کا کام نہیں، اس کو کسی وقت کسی حال آخرت کے حساب سے بےفکری نہیں ہوتی۔
فَسَوْفَ يَدْعُوْا ثُبُوْرًا ١١ ۙ- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - ثبر - الثُّبُور : الهلاک والفساد، المُثَابِر علی الإتيان، أي : المواظب، من قولهم : ثَابَرْتُ. قال تعالی: دَعَوْا هُنالِكَ ثُبُوراً لا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُوراً واحِداً وَادْعُوا ثُبُوراً كَثِيراً [ الفرقان 13- 14] ، وقوله تعالی: وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يا فِرْعَوْنُ مَثْبُوراً [ الإسراء 102] ، قال ابن عباس رضي اللہ عنه : يعني ناقص العقل ونقصان العقل أعظم هلك . وثبیر جبل بمكة .- ( ث ب ر ) الثبور ( مصدر ن ) کے معنی ہلاک ہونے یا ( زخم کے ) خراب ہونے کے ہیں اور المنابر کسی کام کو مسلسل کرنے والا ) سے ( اسم فاعل کا صیغہ ) ہے ۔ جس کے معنی کسی کام کو مسلسل کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ : ۔ دَعَوْا هُنالِكَ ثُبُوراً لا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُوراً واحِداًوَادْعُوا ثُبُوراً كَثِيراً [ الفرقان 13- 14] تو وہاں ہلاکت کو پکاریں گے آج ایک ہی ہلاکت کو نہ پکارو سی ہلاکتوں کو پکارو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يا فِرْعَوْنُ مَثْبُوراً [ الإسراء 102] اے فرعون میں خیال کرتا ہوں کہ تم ہلاک ہوجاؤ گے ۔ میں ابن عباس نے مثبورا کے معنی ناقص العقل کئے ہیں کیونکہ نقصان عقل سب سے بڑی ہلاکت ہے ۔ ثبیر ۔ مکہ کی ایک پہاڑی کا نام
آیت ١ ١ فَسَوْفَ یَدْعُوْا ثُــبُوْرًا ۔ ” تو اب وہ موت کی طلب کرے گا۔ “- اس وقت اس کی ایک ہی خواہش ہوگی کہ مجھے موت آجائے اور میں مر کر ختم ہو جائوں۔