Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 یعنی دنیا میں اپنی خواہشات میں مگن اور اپنے گھر والوں کے درمیان بڑا خوش تھا،

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] یہ شخص اپنے گھر میں گلچھڑے اڑاتا تھا۔ حرام اور حلال جو بھی طریقہ اسے بن پڑتا وہ دنیا کا مال اکٹھا کرتا تھا۔ خود بھی عیش کرتا تھا اور گھر والوں کو بھی عیش کراتا تھا۔ اس کی زندگی اللہ سے ڈرنے والوں سے بالکل مختلف تھی جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے گھر والوں کی محبت ہی کہیں ہمارے لیے فتنہ اور آزمائش کا سبب نہ بن جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّہٗ كَانَ فِيْٓ اَہْلِہٖ مَسْرُوْرًا۝ ١٣ ۭ- سُّرُورُ :- ما ينكتم من الفرح، قال تعالی: وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان 11] ، وقال : تَسُرُّ النَّاظِرِينَ [ البقرة 69] ، وقوله تعالیٰ في أهل الجنة : وَيَنْقَلِبُ إِلى أَهْلِهِ مَسْرُوراً [ الانشقاق 9] ، وقوله في أهل النار :إِنَّهُ كانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُوراً [ الانشقاق 13] ، تنبيه علی أنّ سُرُورَ الآخرة يضادّ سرور الدّنيا، والسَّرِيرُ : الذي يجلس عليه من السّرور، إذ کان ذلک لأولي النّعمة، وجمعه أَسِرَّةٌ ، وسُرُرٌ ، قال تعالی: مُتَّكِئِينَ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور 20] ، فِيها سُرُرٌ مَرْفُوعَةٌ [ الغاشية 13] ، وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْواباً وَسُرُراً عَلَيْها يَتَّكِؤُنَ [ الزخرف 34] ، وسَرِيرُ الميّت تشبيها به في الصّورة، وللتّفاؤل بالسّرور الذي يلحق الميّت برجوعه إلى جوار اللہ تعالی، وخلاصه من سجنه المشار إليه بقوله صلّى اللہ عليه وسلم : «الدّنيا سجن المؤمن» - السرور قلبی فرحت کو کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان 11]( تو خدا ) ان کو تازگی اور خوش دلی عنایت فرمائے گا ۔ تَسُرُّ النَّاظِرِينَ [ البقرة 69] کہ دیکھنے والے ( دل ) کو خوش کردیتا ہو ۔ اسی طرح اہل جنت کے متعلق فرمایا : وَيَنْقَلِبُ إِلى أَهْلِهِ مَسْرُوراً [ الانشقاق 9] اور وہ اپنے گھر والوں میں خوش خوش آئے ۔ اور اہل نار کے متعلق فرمایا :إِنَّهُ كانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُوراً [ الانشقاق 13] یہ اپنے اہل و عیال میں مست رہتا تھا ۔ تو اس میں تنبیہ ہے کہ آخرت کی خوشی دنیا کی خوشی کے برعکس ہوگی ۔ السریر ( تخت ) وہ جس پر کہ ( ٹھاٹھ سے ) بیٹھا جاتا ہے یہ سرور سے مشتق ہے کیونکہ خوشحال لوگ ہی اس پر بیٹھتے ہیں اس کی جمع اسرۃ اور سرر آتی ہے ۔ قرآن نے اہل جنت کے متعلق فرمایا : مُتَّكِئِينَ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور 20] تختوں پر جو برابر بچھے ہوئے ہیں تکیہ لگائے ہوئے ۔ فِيها سُرُرٌ مَرْفُوعَةٌ [ الغاشية 13] وہاں تخت ہوں گے اونچے بچھے ہوئے ۔ وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْواباً وَسُرُراً عَلَيْها يَتَّكِؤُنَ [ الزخرف 34] اور ان کے گھروں کے دروازے بھی ( چاندی کے بنا دئیے ) اور تخت بھی جن پر تکیہ لگاتے ۔ اور میت کے جنازہ کو اگر سریر المیت کہا جاتا ہے تو یہ سریر ( تخت ) کے ساتھ صوری مشابہت کی وجہ سے ہے ۔ یا نیک شگون کے طور پر کہ مرنے والا دنیا کے قید خانہ سے رہائی پا کر جوار الہی میں خوش و خرم ہے جس کی طرف کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : الدنیا سجن المومن : کہ مومن کو دنیا قید خانہ معلوم ہوتی ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ اِنَّہٗ کَانَ فِیْٓ اَہْلِہٖ مَسْرُوْرًا ۔ ” یقینا (دنیا میں) وہ اپنے اہل و عیال میں بہت خوش و خرم تھا۔ “- دنیا میں وہ حرام کی کمائی سے اپنے اہل و عیال کے ساتھ عیش کرتا رہا اور آخرت کے محاسبے کا کبھی تصور بھی ذہن میں نہ لایا۔ یہاں پر ایک اہم نکتہ یہ بھی سمجھ لیجیے کہ اگر کوئی شخص اپنی روزی تو سو فیصد حلال ذرائع سے کما رہا ہے لیکن وہ اللہ کے دین کا حق ادا نہیں کر رہا تو ایسے شخص کی حلال ذرائع سے کمائی ہوئی وہ روزی بھی حلال نہیں ۔ اس لیے کہ اس نے اپنی روزی کمانے کی اس تگ و دو میں جو وقت ‘ صلاحیتیں اور وسائل صرف کیے ہیں ان میں دین کے حقوق کا حصہ بھی شامل تھا۔ گویا اپنے وقت ‘ وسائل اور اپنی صلاحیتوں کا وہ حصہ جو اسے اللہ کے دین کے لیے خرچ کرنا چاہیے تھا اس حصے کو غصب کر کے وہ اپنے ذاتی استعمال میں لے آیا ہے ۔ تو دین کے حقوق کو غصب کرکے کمائی ہوئی ایسی روزی حلال کیسے ہوسکتی ہے ؟ دراصل حلال و حرام کے معاملے کو بہت دقت نظری سے جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس معاملے کو عام طور پر بہت سطحی انداز میں دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔ مثلاً ایک عام مسلمان سور کا گوشت کھانے کا تو تصور بھی نہیں کرسکتا لیکن وہ اس بکری کا گوشت بہت مزے اور رغبت سے کھا لیتا ہے جو اس نے کسی کی جیب پر ڈاکہ ڈال کر خریدی ہوتی ہے۔ اب ایسی بکری کے بارے میں کون کہے گا کہ وہ حلال ہے اور حرام نہیں ہے - اس موضوع کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر کوئی مسلمان باطل کے غلبے کے تحت اطمینان و سکون سے زندگی بسر کر رہا ہے اور اس نظام کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی جدوجہد نہیں کر رہا تو وہ بزعم خویش بیشک ناپ تول کر حلال ہی کیوں نہ کھا رہا ہو ‘ اس کا کھانا پینا حتیٰ کہ اس ماحول میں سانس لینا سب حرام ہے۔ ایسے شخص کو خود سوچنا چاہیے کہ وہ کس نظام کی چاکری کر رہا ہے ؟ کس کے اقتدار کو کندھا دے رہا ہے ؟ تنخواہ کہاں سے لے رہا ہے ؟ اور اپنا کاروبار کس کی مدد سے آگے بڑھا رہا ہے ؟ ظاہر ہے وہ یہ سب کچھ باطل نظام کے لیے کر رہا ہے اور طاغوت کی فراہم کردہ چھتری کے سائے میں کررہا ہے۔ چناچہ کسی مسلمان کا کسی باطل نظام کے تحت ہنسی خوشی زندگی گزارنا کسی طور پر جائز نہیں۔ اِلا ّیہ کہ ایسی صورت حال میں وہ کراہت اور بےچینی میں زندگی بسرکرے ‘ اپنی ضروریات کو کم سے کم سطح پر رکھے اور باطل نظام کو بدلنے کے لیے اپنا تن من دھن کھپا دینے پر ہمہ وقت کمربستہ رہے ۔ اس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ اس کی یہ سوچ اور جدوجہد باطل نظام کے تحت زندگی بسر کرنے کے گناہ کا کفارہ بن جائے گی۔- آیات زیر مطالعہ میں دو انسانی کرداروں کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔ ان میں ایک کردار تو اللہ کے اس بندے کا ہے جو دنیوی زندگی کے دوران آخرت کی جواب طلبی کے احساس سے ہر وقت لرزاں و ترساں رہتا تھا ۔ ایسے لوگوں کے اعصاب پر آخرت کے احتساب کا خوف اس حد تک مسلط ہوتا ہے کہ وہ اپنی اس کیفیت کو جنت میں پہنچ کر بھی یاد کریں گے : قَالُوْا اِنَّا کُنَّا قَبْلُ فِیْٓ اَہْلِنَا مُشْفِقِیْنَ ۔ (الطور) ” وہ کہیں گے کہ ہم پہلے (دنیا میں) اپنے اہل و عیال میں ڈرتے ہوئے رہتے تھے “۔ ایسے ہی ایک شخص کے بارے میں یہاں بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ کی عدالت سے اپنی کامیابی کی نوید سننے کے بعد اپنے گھر والوں کی طرف شاداں وفرحاں لوٹے گا۔ اس کے مقابلے میں ایک کردار وہ ہے جو آخرت اور آخرت کے محاسبے سے بیخبر اپنے اہل و عیال کے ساتھ عیش و عشرت میں مست رہا۔ ایسے شخص نے دنیا میں بلاشبہ ایک خوشحال اور خوشیوں بھری زندگی گزاری ‘ لیکن آخرت میں اس کے لیے جہنم کی آگ کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :9 یعنی اس کا حال خدا کے صالح بندوں سے مختلف تھا جن کے متعلق سورہ طور ( آیت 26 ) میں فرمایا گیا ہے کہ اپنے گھر والوں میں خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے یعنی ہر وقت انہیں یہ خوف لاحق رہتا تھا کہ کہیں بال بچوں کی محبت میں گرفتار ہو کر ہم ان کی دنیا بنانے کے لیے اپنی عاقبت برباد نہ کرلیں ۔ اس کے برعکس اس شخص کا حال یہ تھا کہ اپنے گھر میں وہ چین کی بنسری بجا رہا تھا اور خوب بال بچوں کو عیش کرا رہا تھا ، خواہ وہ کتنی ہی حرام خوریاں کر کے اور کتنے ہی لوگوں کے حق مار کر یہ سامان عیش فراہم کرے ، اور اس لطف و لذت کے لیے خدا کی باندھی ہوئی حدوں کو کتنا ہی پامال کرتا رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani