3۔ 1 یعنی اس کے طول و عرض میں مزید وسعت کردی جائے گی۔ یا یہ مطلب ہے کہ اس پر جو پہاڑ وغیرہ ہیں، سب کو ریزہ ریزہ کر کے زمین کو ہموار کر کے بچھایا جائے گا۔ اس میں میں کوئی اونچ نیچ نہیں رہے گی۔
[٢] زمین کو کھینچ کر لمبا کرنے کا مفہوم :۔ مُدَّتْ ۔ مَدَّ بمعنی کسی چیز کو لمبائی میں کھینچ کر پھیلانا اور اسے لمبا کردینا۔ جیسے اللہ تعالیٰ سایوں کو یا بادلوں کو لمبا کرتا اور پھیلا دیتا ہے واضح رہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ زمین کو کھینچ کر چپٹی بنادے گا۔ زمین کو اللہ نے پہلے ہی پھیلا دیا اور لمبا کردیا ہے۔ اس دن صرف یہ ہوگا کہ سارے سمندر خشک کرکے زمین میں شامل کردیے جائیں گے جس سے زمین کا رقبہ چار گنا ہوجائے گا پھر پہاڑوں کو زمین بوس کردیا جائے گا اس کی اونچی اور نیچی سب جگہیں برابر کردی جائیں گی۔ اس طرح اسی زمین کا رقبہ اتنا زیادہ ہوجائے گا کہ اسی زمین پر سیدنا آدم (علیہ السلام) سے لے کے قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں اور قیامت تک جنوں کی تمام نسل کو یکجا اکٹھا کردیا جائے گا۔ یہی زمین میدان محشر بن جائے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ میدان محشر کے لیے اللہ اس زمین کے علاوہ کوئی دوسری زمین پیدا کردے۔ جیسا کہ ایک دوسری آیت ( يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ 48 ۔ ) 14 ۔ ابراھیم :48) سے معلوم ہوتا ہے۔
واذا الارض مدت :” مدت “” مدیمد “ (ن) کھینچنا، پھیلانا، یعنی جس طرح چمڑے کو کھینچا جائے تو اس کی اونچ نیچ اور تمام شکنیں ختم ہوجاتی ہیں اور وہ طول و عرض میں پھیل جاتا ہے، اسی طرح زمین سے پہاڑ، سمندر اور ہر قسم کی بلندی و پستی ختم ہوجائے گی، جس سے وہ ہموار ہو کر پھیل جائے گی اور اس میں آدمیوں کے کھڑے ہونے کی گنجائش بہت زیادہ ہوجائے گی۔
واذا الارض مدت، مد کے معنے کھینچنے اور دراز کرنے کے ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز زمین کو اس طرح کھینچ کر پھیلایا جائے گا جیسے چمڑے (یا ربڑ) کے کھینچ کر بڑا کردیا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود میدان حشر جو اس زمین پر ہوگا اس میں ابتداء دنیا سے قیامت تک کہ تمام انسان جمع ہوں گے تو صورت یہ ہوگی کہ ایک آدمی کے حصہ میں صرف اتنی زمین ہوگی جس پر اس کے پاؤں ہیں (رواہ الحاکم بسند جید، مظہری)
وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ ٣ ۙ- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - مد - أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] . وأكثر ما جاء الإمْدَادُ في المحبوب والمدُّ في المکروه نحو : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور 22] أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون 55] ، وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح 12] ، يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران 125] ، أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ- [ النمل 36] ، وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم 79] ، وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ- [ البقرة 15] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف 202] ، وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان 27] فمن قولهم : مَدَّهُ نهرٌ آخرُ ، ولیس هو مما ذکرناه من الإمدادِ والمدِّ المحبوبِ والمکروهِ ، وإنما هو من قولهم : مَدَدْتُ الدّواةَ أَمُدُّهَا «1» ، وقوله : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف 109] والمُدُّ من المکاييل معروف .- ( م د د ) المد - کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ مددتہ فی غیہ ۔ گمراہی پر مہلت دینا اور فورا گرفت نہ کرنا ۔ مددت الابل اونٹ کو مدید پلایا ۔ اور مدید اس بیج اور آٹے کو کہتے ہیں جو پانی میں بھگو کر باہم ملا دیا گیا ہو امددت الجیش بمدد کا مددینا ۔ کمک بھیجنا۔ امددت الانسان بطعام کسی کی طعام ( غلہ ) سے مددکرنا قرآن پاک میں عموما امد ( افعال) اچھی چیز کے لئے اور مد ( ثلاثی مجرد ) بری چیز کے لئے ) استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور 22] اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے ۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون 55] کیا یہ لوگ خیا کرتے ہیں ک ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں ۔ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح 12] اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔ يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران 125] تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیجے گا ۔ أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل 36] کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو ۔ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم 79] اور اس کے لئے آراستہ عذاب بڑھاتے جاتے ہیں ۔ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت اور سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف 202] اور ان ( کفار) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں لیکن آیت کریمہ : وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان 27] اور سمندر ( کا تمام پانی ) روشنائی ہو اور مہار ت سمندر اور ( روشنائی ہوجائیں ) میں یمددہ کا صیغہ مدہ نھرا اخر کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ امداد یا مد سے نہیں ہے جو کسی محبوب یا مکروہ وہ چیز کے متعلق استعمال ہوتے ہیں بلکہ یہ مددت الداواۃ امد ھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دوات میں روشنائی ڈالنا کے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف 109] اگرچہ ہم دیسا اور سمندر اس کی مددکو لائیں ۔ میں مداد یعنی روشنائی کے معنی مراد ہیں ۔ المد۔ غلہ ناپنے کا ایک مشہور پیمانہ ۔ ۔
(٣۔ ٥) اور جب زمین کھینچ کر بڑھا دی جائے گی، یا یہ کہ اپنے اماکن سے علیحدہ کر کے برابر کردی جائے گی اور وہ مردوں اور خزانوں کو باہر اگل دے گی اور بالکل خالی ہوجائے گی اور اپنے رب کا حکم سن لے گی اور اس پر اس کا سننا ضروری ہے۔
سورة الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :2 زمین کے پھیلا دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ سمندر اور دریا پاٹ دیے جائیں گے ، پہاڑ ریزہ ریزہ کر کے بکھیر دیے جائیں گے ، اور زمین کی ساری اونچ نیچ برابر کر کے اسے ایک ہموار میدان بنا دیا جائے گا ۔ سورہ طہ میں اس کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی اسے ایک چٹیل میدان بنا دے گا جس میں تم کوئی بل اور سلوٹ نہ پاؤ گے ۔ ( آیات106 ۔ 107 ) ۔ حاکم نے مستدرک میں عمدہ سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ کے حوالہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ قیامت کے روز زمین ایک دستر خوان کی طرح پھیلا دی جائے گی ، ۔ پھر انسانوں کے لیے اس پر صرف قدم رکھنے کی جگہ ہو گی ۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ حقیقت نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اس دن تمام انسانوں کو جو روز اول آفرینش سے قیامت تک پیدا ہوئے ہوں گے ، بیک وقت زندہ کر کے عدالت الہی میں پیش کیا جائے گا ۔ اتنی بڑی آبادی کو جمع کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ سمندر ، دریا ، پہاڑ ، جنگل ، گھاٹیاں اور پست و بلند علاقے سب کے سب ہموار کر کے پورے کرہ زمین کو ایک میدان بنا دیا جائے تاکہ اس پر ساری نوع انسانی کے افراد کھڑے ہونے کی جگہ پا سکیں ۔
2: روایات سے اس کی تفصیل یہ معلوم ہوتی ہے کہ قیامت میں زمین کو ربر کی طرح کھینچ کر موجودہ سائز سے بڑا کردیا جائے گا، تاکہ اُس میں تمام اگلے پچھلے لوگ سما سکیں۔