16۔ 1 یعنی وہ جو چاہے، کر گزرتا ہے اس کے حکم اور مشیت کو ٹالنے والا کوئی نہیں ہے نہ اسے کوئی پوچھنے والا ہی ہے۔ حضرت ابوبکر سے ان کے مرض الموت میں کسی نے پوچھا کیا کسی طبیب نے آپ کو دیکھا ہے انہوں نے فرمایا کہ ہاں، پوچھا اس نے کیا کہا، انی فعال لما ارید، میں جو چاہوں کروں، میرے معاملے میں کوئی دخل دینے والا نہیں۔ (ابن کثیر) مطلب یہ تھا کہ معاملہ اب طبیبوں کے ہاتھ میں نہیں رہا میرا آخری وقت آگیا ہے اور اللہ ہی اب میرا طبیب ہے جس کی مشییت کو ٹالنے کی کسی کے اندر طاقت نہیں۔
[١١] یعنی پوری کائنات میں کسی کی بھی یہ طاقت نہیں کہ اللہ جس کام کا ارادہ کرلے اس میں وہ مانع یا مزاحم ہوسکے۔
فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ ١٦ ۭ- فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ - رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔
آیت ١٦ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ۔ ” وہ جو ارادہ کرلے ‘ کر گزرنے والا ہے۔ “- ظاہر ہے اس کے ارادے کے آگے کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔
سورة الْبُرُوْج حاشیہ نمبر :7 بخشنے والا ہے کہہ کر یہ امید دلائی گئی ہے کہ کوئی اگر اپنے گناہوں سے باز آ کر توبہ کر لے تو اس کے دامن رحمت میں جگہ پا سکتا ہے ۔ محبت کرنے والا کہہ کر یہ بتایا گیا ہے کہ اس کو اپنی خلق سے عداوت نہیں ہے کہ خواہ مخواہ اس کو مبتلائے عذاب کرے ، بلکہ جس مخلوق کو اس نے پیدا کیا ہے اس سے وہ محبت رکھتا ہے اور سزا صرف اس وقت دیتا ہے جب وہ سرکشی سے باز ہی نہ آئے ۔ مالک عرش کہہ کر انسان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ سلطنت کائنات کا فرمانروا وہی ہے ، اس سے سرکشی کرنے والا اس کی پکڑ سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتا ۔ بزرگ و برتر کہہ کر انسان کو اس کمینہ پن پر متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسی ہستی کے مقابلہ میں گستاخی کا رویہ اختیار کرتا ہے ۔ اور آخری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ جو کچھ چاہے کر ڈالنے والا ہے ، یعنی پوری کائنات میں کسی کی بھی طاقت نہیں ہے کہ اللہ جس کام کا ارادہ کرے اس میں وہ مانع و مزاحم ہو سکے ۔