[١٢] فرعون کو بھی اپنی سلطنت، حکومت اور لاؤ لشکر پر بڑا گھمنڈ تھا اور قوم ثمود بھی اپنے آپ کو بہت طاقتور سمجھے بیٹھے تھے جنہوں نے اپنے مکانات تک پہاڑوں کے اندر بنا رکھے تھے بلکہ شہروں کے شہر پہاڑوں کے اندر آباد کر رکھے تھے۔ اور کہتے تھے کہ قوت میں ہم سے بڑھ کر اور کون ہوسکتا ہے ؟ مگر جب ان لوگوں نے گھمنڈ میں آکر اللہ کے مقابلے میں سرکشی کی راہ اختیار کی تو اللہ نے انہیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔
فِرْعَوْنَ وَثَمُــوْدَ ١٨ ۭ- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- ثمد - ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي :- قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله .- ( ث م د ) ثمود - ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔
سورة الْبُرُوْج حاشیہ نمبر :8 روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو اپنے طاقتور جتھوں کے زعم میں خدا کی زمین پر سرکشیاں کر رہے ہیں ۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ کچھ تمہیں خبر بھی ہے کہ اس سے پہلے جن لوگوں نے اپنے جتھوں کی طاقت کے بل پر یہی سرکشیاں کی تھیں وہ کس انجام سے دوچار ہو چکے ہیں ۔