وادخلی جنتی، اس میں جنت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرکے میری جنت فرمایا جو بڑا اعزازو اکرام ہے اور اس میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ جنت میں صرف یہی نہیں کہ ہر طرف کی راحتیں جمع ہیں اور دائمی ہیں بلکہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا مقام ہے۔- آیات مذکورہ میں مومنین کی جزا وثواب کو اس طرح ذکر کیا گیا کہ ان کی ارواح کو حق تعالیٰ کی طرف سے بواسطہ ملائک اعزازو اکرام کے ساتھ خطاب کیا جائے گا جو ان آیات میں مذکور ہے۔ یہ خطاب کس وقت ہوگا اس میں بعض ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ قیامت میں حساب کتاب کے بعد یہ خطاب ہوگا اور سباق آیات سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ اوپر جو عذاب کفار کا بیان ہوا ہے وہ آخرت میں قیامت کے بعد ہی ہوگا اس سے ظاہر ہے کہ مومنین کا یہ خطاب بھی اسی وقت ہو۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ خطاب مومنین کی موت کے وقت دنیا ہی میں ہوتا ہے بہت سی صحیح احادیث اس پر شاہد ہیں۔ اسی لئے ابن کثیر (رح) نے فرمایا کہ ظاہر یہ ہے کہ دونوں وقتوں میں یہ خطاب ارواح مومنین کو ہوگا موت کے وقت بھی، پھر قیامت میں بھی۔- وہ احادیث جن سے اس خطاب کا بوقت موت ہونا معلوم ہوتا ہے ایک تو وہی حدیث عبادہ ابن صامت ہے جو اوپر گزرچکی ہے اور ایک طویل حدیث حضرت ابوہریرہ کی مسند احمد، نسائی، ابن ماجہ میں ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشمی کپڑا سامنے کرکے اس کی روح کو خطاب کرتے ہیں اخرجی راضیة مرضیة الی روح اللہ وریحانہ، یعنی اس بدن سے نکلو اس حادلت میں کہ تم اللہ سے راضی ہو اور اللہ تم سے راضی اور یہ نکلنا اللہ تعالیٰ کی رحمت اور جنت کی دائمی راحتوں کی طرف ہوگا۔ الحدیث، اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں نے ایک روز یہ آیت یایتھا النفس المطمئنة آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پڑھی تو صدیق اکبر جو مجلس میں موجود تھے کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کتنا اچھا خطاب اور اکرام ہے۔ آپ نے فرمایا کہ سن لو فرشتہ موت کے بعد آپ کو یہ خطاب کریگا (ابن کثیر) - چند واقعات عجیبہ - حضرت سعید بن جبیر (رح) نے فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کا طائف میں انتقال ہوا، جنازہ تیار ہونے کے بعد ایک عجیب و غریب پرندہ جس کی مثال پہلے کبھی نہ دیکھی گئی تھی آیا اور جنازہ کی نعش میں داخل ہوگیا پھر کسی نے اس کو نکلتے ہوئے نہیں دیکھا جس وقت نعش قبر میں رکھی جانے لگی تو قبر کے کنارے ایک غیبی آواز نے یہ آیت پڑھی یایتھا النفس المطمئنة سب نے تلاش کیا کون پڑھ رہا ہے کسی کو معلوم نہ ہوگا (ابن کثیر) اور امام حافظ طبرانی نے کتاب العجائب میں اپنی سند سے فتان بن رزین ابی ہاشم سے ان کا اپنا واقعہ نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ ہمیں بلا دروم میں قید کرلیا گیا اور وہاں کے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا اس کافر بادشاہ نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم اس کا دین اختیار کریں، اور جو اس سے انکار کرے گا اس کی گردن مادی جائے گی ہم چند آدمی تھے ان میں سے تین آدمی جان کے خوف سے مرتد ہوگئے بادشاہ کا دین اختیار کرلیا۔ چوتھا آدمی پیش ہوا اس نے کفر کرنے اور اس کے دین کو اختیار کرنے سے انکار کیا، اس کی گردن کاٹ کر سر کو ایک قریبی نہر میں ڈال دیا گیا، اس وقت تو وہ سر پانی کی تہ میں چلا گیا، اسکے بعد پانی کی سطح پر ابھرا اور ان لوگوں کی طرف دیکھ کر انکے نام لے کر آواز دی کہ فلانے فلانے اور پھر کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے یایتھا النفس المطمنة ارجعی الی ربک راضیة مرضیة فادخلی فی عبدی وادخلی جنتی، اس کے بعد پھر پانی میں غوطہ لگا دیا۔ - یہ عجیب واقعہ سب حاضرین نے دیکھا اور سنا، اور وہاں کے نصاریٰ یہ دیکھ کر تقریباً سب مسلمان ہوگئے اور بادشاہ کا تخت ہل گیا، یہ تین آدمی جو مرتد ہوگئے تھے یہ سب پھر مسلمان ہوگئے اور پھر خلیفہ ابو، جعفر منصور نے ہم سب کو ان کی قید سے رہا کرایا (ابن کثیر) - الحمد اللہ کہ تفسیر سورة والجفر آج ١٢ شعبان ١٩٣١ میں تمام ہوئی، جبکہ اس ناکارہ گنہگار کی عمر کا چھیترواں سال ختم اور ستترواں شروع ہو رہا ہے۔ یوں نصف صدی سے زیادہ حق تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت کی غفلتوں گناہوں میں برباد کرنے پر حسرت وافوس جتنا بھی ہو کم ہی ہے مگر قدم قدم پر حق تعالیٰ شانہ کے انعامات کے بارش اور اپنی کتاب کی اس ناچیز خدمت کو قریب الختم پہنچا دینے کا احسان عظیم عفو وکرم ہی کی امید دلایا رہا ہے۔ یامن لاتضرہ الذنوب ولا تنقصہ المغفرة ھب لی مالا ینقصک واغفرلی ملا یضرک واجعلنی من الذین یقال لھم یایتھا النفس المطمنة ارجعی الی ربک راضیة مرضیة فادخلی فی عبادی وادخلی
وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ ٣٠ ۧ- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔
آیت ٣٠ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ ۔ ” اور داخل ہو جائو میری جنت میں “- چناچہ اس نَفسِ مُطمَئنّہسے کہا جائے گا کہ آئو میرے ان انعام یافتہ بندوں کی صف میں شامل ہو جائو۔ ایسے خوش قسمت لوگوں کے مراتب کی بلندی کے تصور اور اپنی تہی دامنی کے احساس کے پیش نظر ہمارا ان کی معیت کے لیے دعا مانگنا اگرچہ ” چھوٹا منہ بڑی بات “ کے زمرے میں آتا ہے مگر پھر بھی دل سے بےاختیار دعا نکلتی ہے : اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ۔۔۔۔ آمین