5۔ 1 ذٰلِکَ سے مذکورہ قسمیں بہ اشیا کی طرف اشارہ ہے یعنی کیا ان کی قسم اہل عقل و دانش کے واسطے کافی نہیں۔ حجر کے معنی ہیں روکنا، منع کرنا، انسانی عقل بھی انسان کو غلط کاموں سے روکتی ہے اس لیے عقل کو بھی حجر کہا جاتا ہے۔ آگے بہ طریق استشہاد اللہ تعالیٰ بعض ان قوموں کا ذکر فرما رہے ہیں جو تکذیب وعناد کی بناء پر ہلاک کی گئی تھیں، مقصد اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ اگر تم ہمارے رسول کی تکذیب سے باز نہ آئے تو تمہارا بھی اسی طرح مواخذہ ہوسکتا ہے جیسے گزشتہ قوموں کا اللہ نے کیا۔
[٥] حِجر بمعنی پتھر اور ہر ٹھوس اور سخت چیز جو آڑ کا کام دے سکے۔ اور عقل کو بھی حجر کہتے ہیں وہ اس لحاظ سے کہ وہ بھی ہر اس چیز کو جو نقصان دہ ہو روک دیتی ہے۔ اور ذی حجر یعنی صاحب عقل یا عقلمند۔ اور اس آیت کا دوسرا ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے : کیا یہ (مذکور چار چیزیں) عقلمندوں کے نزدیک قسم کھانے کے لائق نہیں ؟ مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی نکلتا ہے یعنی مذکورہ اشیاء اس نظام کائنات کے نہایت اہم اجزا اور اپنے اپنے مقام پر بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ پھر کیا وہ ہستی جو ایسا نظام کائنات چلا رہی ہے عالم آخرت کو وجود میں نہ لاسکے گی۔
(١) ھل فی ذلک قسم لذی حجر :” ھل “ کے معنی کے لئے دیکھیے سورة دہر کی پہلی آیت ۔” حجر یحجر “ (ن) منع کرنا، روکنا۔ عقل کو ” حجر “ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ آدمی کو ہر غلط کام سے روکتی اور منع کرتی ہے۔- (٢) قرآن مجید میں مذکور قسمیں عام طور پر کسی نہ کسی بات کی شہادت اور دلیل کے لئے آتی ہیں، سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ قسمیں کھا کر عقل والوں کو کیا باور کروایا جا رہا ہے ؟ جواب اگرچہ لفظوں میں موجود نہیں مگر آئندہ آیات سے صاف واضح ہے۔ یعنی ان سب چیزوں پر غور کرو تو تمہیں یقین ہوجائے گا کہ اتنے زبردست تغیرات لانے والے پروردگار اس بات پر قادر ہے کہ تمہیں دوبارہ زندہ کر کے تمہیں تمہارے اعمال کی جزا و سزا دے اور اگر تم سرکشی پر اڑے رہے تو عاد وثمود اور قوم فرعون کی طرح دنیا میں بھی تم پر عذاب کا کوڑا برسا دے۔
ہَلْ فِيْ ذٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِيْ حِجْرٍ ٥ ۭ- هَلْ- : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم 98] . وقوله :- هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ- [ البقرة 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته .- ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے : ۔- هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- قْسَمَ ( حلف)- حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106]- اقسم - ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ - أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ - حَجْر والتحجیر - : أن يجعل حول المکان حجارة، يقال : حَجَرْتُهُ حَجْرا، فهو محجور، وحَجَّرْتُهُ تحجیرا فهو مُحَجَّر، وسمّي ما أحيط به الحجارة حِجْراً ، وبه سمّي حجر الکعبة ودیار ثمود، قال تعالی: كَذَّبَ أَصْحابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ [ الحجر 80] ، وتصوّر من الحجر معنی المنع لما يحصل فيه، فقیل للعقل حِجْر، لکون الإنسان في منع منه ممّا تدعو إليه نفسه، وقال تعالی: هَلْ فِي ذلِكَ قَسَمٌ لِذِي حِجْرٍ [ الفجر 5] . قال المبرّد : يقال للأنثی من الفرس حِجْر، لکونها مشتملة علی ما في بطنها من الولد - الحجر والتحجیر کے معنی کسی جگہ پر پتھروں سے احاطہ کرنا کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ حجرتہ حجرا فھو محجور وحجرتہ تحجیرا فھو محجر اور جس جگہ کے ارد گرد پتھروں سے احاطہ کیا گیا ہو ۔ اسے حجر کہا جاتا ہے اس لئے حطیم کعبہ اور دیار ثمود کو حجر کہا گیا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كَذَّبَ أَصْحابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ [ الحجر 80] اور ( وادی ) حجر کے رہنے والوں نے بھی پیغمبروں کی تکذیب کی ۔ اور حجر ( پتھروں سے احاطہ کرنا ) سے حفاظت اور رکنے کے معنی لے کر عقل انسانی کو بھی ھجر کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بھی انسان کو نفسانی بےاعتدالیوں سے روکتی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ هَلْ فِي ذلِكَ قَسَمٌ لِذِي حِجْرٍ [ الفجر 5]( اور ) بیشک یہ چیزیں عقلمندوں کے نزدیک قسم کھانے کے لائق ہیں ۔ مبرد ( لغوی ) نے ہے کہ گھوڑی کو بھی حجر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ پیٹ کے اندر حمل روکے رکھتی ہے
اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں کی قسمیں کھا کر فرماتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کا رب راستہ کی اور راستہ پر چلنے والوں کی بڑی گھات میں ہے کیا ان باتوں میں عقل مند کے لیے کافی قسم بھی ہے
آیت ٥ ہَلْ فِیْ ذٰلِکَ قَسَمٌ لِّذِیْ حِجْرٍ ۔ ” کیا اس میں کوئی قسم (دلیل) ہے ان لوگوں کے لیے جو عقل مند ہیں ؟ “- یعنی ان تمام چیزوں کو اگلی آیات کے مضمون پر گواہ ٹھہرایا گیا ہے ۔
سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :1 ان آیات کی تفسرین میں مفسرین کے درمیان بہت اختلافات ہوا ہے حتی کہ جفت اور طاق کے بارے میں تو 36 اقوال ملتے ہیں ۔ بعض روایات میں ان کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی منسوب کی گئی ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی تفسیر حضور سے ثابت نہیں ہے ، ورنہ ممکن نہ تھا کہ صحابہ اور تابعین اور بعد کے مفسرین میں سے کوئی بھی آپ کی تفسیر کے بعد خود ان آیات کے معنی متعین کرنے کی جرات کرتا ۔ انداز بیان پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ پہلے سے کوئی بحث چل رہی تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بات پیش فرما رہے تھے اور منکرین اس کا انکار کر رہے تھے ۔ اس پر حضور کے قول کا اثبات کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ قسم ہے فلاں اور فلاں چیزوں کی ۔ مطلب یہ تھا کہ ان چیزوں کی قسم ، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے ہیں وہ بر حق ہے ۔ پھر بات کو اس سوال پر ختم کر دیا گیا کہ کیا کسی صاحب عقل کے لیے اس میں کوئی قسم ہے؟ یعنی کیا اس حق بات پر شہادت دینے کے لیے اس کے بعد کسی اور قسم کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ کیا یہ قسم اس کے لیے کافی نہیں ہے کہ ایک ہوشمند انسان اس بات کو مان لے جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں؟ اب سوال یہ ہے کہ وہ بحث تھی کیا جس پر ان چار چیزوں کی قسم کھائی گئی ۔ اس کے لیے ہمیں اس پورے مضمون پر غور کرنا ہو گا جو بعد کی آیتوں میں تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے عاد کے ساتھ کیا کیا سے شروع ہو کر سورہ کے آخر تک چلتا ہے ۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ بحث جزا و سزا کے بارے میں تھی جس کو ماننے سے اہل مکہ انکار کر رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس کا قائل کرنے کے لیے مسلسل تبلیغ و تلقین فرما رہے تھے ۔ اس پر فجر ، اور دس راتوں اور جفت اور طاق ، اور رخصت ہوتی ہوئی رات کی قسم کھا کر فرمایا گیا کہ اس بات کو باور کرنے کے لیے کیا یہ چیزیں کافی نہیں ہیں کہ کسی صاحب عقل آدمی کے سامنے اور کوئی چیز پیش کرنے کی ضرورت ہو؟ ان قسموں کا یہ موقع و محل متعین ہو جانے کے بعد لا محالہ ہمیں ان میں سے ہر ایک کے وہ معنی لینے ہوں گے جو بعد کے مضمون پر دلالت کرتے ہوں ۔ سب سے پہلے فرمایا فجر کی قسم فجر پو پھٹنے کو کہتے ہیں ، یعنی وہ وقت جب رات کی تاریکی میں سے دن کی ابتدائی روشنی مشرق کی طرف ایک سفید دھاری کی شکل میں نمودار ہوتی ہے ۔ پھر فرمایا دس راتوں کی قسم ۔ سلسلہ بیان کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مہینے کی تیس راتوں میں سے ہر دس راتیں ہیں ۔ پہلی دس راتیں وہ جن میں چاند ایک باریک ناخن کی شکل سے شروع ہو کر ہر رات کو بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ آدھے سے زیادہ روشن ہو جاتا ہے ۔ دوسری دس راتیں وہ جن میں رات کا بڑا حصہ چاند سے روشن رہتا ہے ۔ آخری دس راتیں وہ جن میں چاند چھوٹے سے چھوٹا اور رات کا بیشتر حصہ تاریک سے تاریک تر ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ مہینے کے خاتمے پر پوری رات تاریک ہو جاتی ہے ۔ اس کے بعد فرمایا جفت اور طاق کی قسم ۔ جفت اس عدد کو کہتے ہیں جو دو برابر کے حصوں میں تقسیم ہو تا ہے ، جیسے 2 ۔ 4 ۔ 6 ۔ 8 اور طاق اس عدد کو کہتے ہیں جو تقسیم نہیں ہو تا ، جیسے 1 ۔ 3 ۔ 5 ۔ 7 ۔ عمومی حیثیت سے دیکھا جائے تو اس سے مراد کائنات کی تمام چیزیں ہو سکتی ہیں ۔ کیونکہ ہر چیز یا تو جوڑا جوڑا ہے یا تنہا ۔ لیکن چونکہ یہاں بات دن اور رات کی ہو رہی ہے ، اس لیے سلسلہ مضمون کی مناسبت سے جفت اور طاقت کا مطلب تغیر ایام ہے کہ مہینے کی تاریخیں ایک سے دو اور دو سے تین ہوتی جاتی ہیں اور ہر تغیر ایک نئی کیفیت لے کر آتا ہے ۔ آخر میں فرمایا رات کی قسم جبکہ وہ رخصت ہو رہی ہو ۔ یعنی وہ تاریکی جو سورج غروب ہونے کے بعد سے دنیا پر چھائی ہوئی تھی ، خاتمے پر آ لگی ہو اور پو پھٹنے والی ہو ۔ اب ان چاروں چیزوں پر ایک مجموعی نگاہ ڈالیے جن کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جزا و سزا کی جو خبر دے رہے ہیں وہ برحق ہے ۔ یہ سب چیزیں اس حقیقت پر دلالت کر رہی ہیں کی ایک رب قدیر اس کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے ، اور وہ جو کام بھی کر رہا ہے بے تکا ، بے مقصد ، بے حکمت ، بے مصلحت نہیں کر رہا ہے بلکہ اس کے ہر کام میں صریحاً ایک حکیمانہ منصوبہ کار فرما ہے ۔ اس کی دنیا میں تم یہ کبھی نہ دیکھو گے کہ ابھی رات ہے اور یکایک سورج نصف النہار پر آ کھڑا ہوا ۔ یا ایک روز چاند ہلال کی شکل میں طلوع ہوا اور دوسری روز چودھویں رات کا پورا چاند نمودار ہو جائے ۔ یا رات آئی ہو تو کسی طرح اس کے ختم ہونے کی نوبت ہی نہ آئے اور وہ مستقل طور پر ٹھیر کر رہ جائے ۔ یا تغیر ایام کا سرے سے کوئی باقاعدہ سلسلہ ہی نہ ہو کہ آدمی تاریخوں کا کوئی حساب رکھ سکے اور یہ جان سکے کہ یہ کونسا مہینہ ہے ، اس کی کونسی تاریخ ہے ، کس تاریخ سے اس کا کونسا کام شروع اور کب ختم ہونا ہے ، گرمی کے موسم کی تاریخیں کونسی ہیں اور برسات یا سردی کے موسم کی تاریخیں کونسی ۔ کائنات کی دوسری بے شمار چیزوں کو چھوڑ کر اگر آدمی شب و روز کی اس باقاعدگی ہی کو آنکھیں کھول کر دیکھے اور کچھ دماغ کو سوچنے کی تکلیف بھی دے تو اسے اس امر کی شہادت ملے گی کہ یہ زبردست نظم و ضبط کسی قادر مطلق کا قائم کیا ہوا ہے اور اس کے قیام سے اس مخلوق کی بے شمار مصلحتیں وابستہ ہیں جسے اس نے اس زمین پر پیدا کیا ہے ۔ اب اگر ایسے حکیم و دانا اور قادر و توانا خالق کی دنیا میں رہنے والا کوئی شخص آخرت کی جزا و سزا کا انکار کرتا ہے تو وہ دو حماقتوں میں سے کسی ایک حماقت میں لامحالہ مبتلا ہے ۔ یا تو وہ اس کی قدرت کا منکر ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس کائنات کو ایسے بے نظیر نظم کے ساتھ پیدا کر دینے پر تو قادر ہے مگر انسان کو دوبارہ پیدا کر کے اسے جزا و سزا دینے پر قادر نہیں ہے ۔ یا وہ اس کی حکمت و دانائی کا منکر ہے اور اس کے بارے میں یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اس نے دنیا میں انسان کو عقل اور اختیارات دے کر پیدا تو کر دیا مگر وہ نہ تو اس سے کبھی یہ حساب لے گا کہ اس نے اپنی عقل اور اپنے اختیارات سے کام کیا لیا ، اور نہ اچھے کام کی جزا دے گا نہ برے کام کی سزا ۔ ان دونوں باتوں میں جس بات کا بھی کوئی شخص قائل ہے وہ پرلے درجے کا احمق ہے ۔