فَكُّ رَقَبَۃٍ ١٣ ۙ- فكك - الفَكَكُ : التّفریج، وفَكُّ الرّهن : تخلیصه، وفَكُّ الرّقبة : عتقها . وقوله : فَكُّ رَقَبَةٍ- [ البلد 13] ، قيل : هو عتق المملوک وقیل : بل هو عتق الإنسان نفسه من عذاب اللہ بالکلم الطيّب والعمل الصّالح، وفكّ غيره بما يفيده من ذلك، والثاني يحصل للإنسان بعد حصول الأوّل، فإنّ من لم يهتد فلیس في قوّته أن يهدي كما بيّنت في ( مکارم الشّريعة) والفَكَكُ : انفراج المنکب عن مفصله ضعفا، والْفَكَّانِ : ملتقی الشّدقین . وقوله : لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ- [ البینة 1] ، أي : لم يکونوا متفرّقين بل کانوا کلّهم علی الضّلال، کقوله : كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً ... الآية [ البقرة 213] ، و ( ما انْفَكَّ ) يفعل کذا، نحو : ما زال يفعل کذا .- ( ف ک ک ) الفک : اس کے اصل معنی جدا کردینے کے ہیں جیسے فک الرھن گردی چیز کو چھڑانا فک الرقبۃ گردن کا آزاد کرنا ۔ اور آیت کریمہ : فَكُّ رَقَبَةٍ [ البلد 13] کسی کی گردن کا چھڑانا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ غلام کو آزاد کرانا مراد ہے اور بعض نے کہا ہے ک کلمات طیبہ اور اعمال صالحہ کے ذریعہ انسان کا اپنے آپ اور دوسرے کو عذاب الہی سے آزاد کرانا مراد ہے ۔ لیکن دوسروں کو جھبی آزاد کراسکتا ہے ہے جب پہلے اپنے آپ کو رہا کروالے ورنہ جو شخص خود ہدایت یافتہ نہیں ہے وہ دوسری کو کب ہدایت کرسکتا ہے جیسا کہ ہم اپنی کتاب ، ، مکارم الشریعہ میں اس کی وضاحت کرچکے ہیں : الفکک کے معنی کمزوری کی وجہ سے شانہ کے اپنی جگہ سے ہٹ جانے کے ہیں ۔ اور دونوں جبڑوں کے ملنے کی جگہ کو فکان کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ : لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ [ البینة 1] جو لوگ کافر ہیں ( یعنی اہل کتاب اور مشرک وہ کفر سے باز آنے والے نہ تھے ۔ میں منفکین کے معنی یہ ہیں کہ ( البی نہ کے آنے تک ان میں اختلاف نہیں تھا بلکہ سب گمراہی پر متفق تھے ۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا : كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً ... الآية [ البقرة 213]( پہلے تو سب ) لوگوں کا ایک ہی مذہب تھا ۔ وہ برابر ایسے کرتا رہا ۔- رقب - الرَّقَبَةُ : اسم للعضو المعروف، ثمّ يعبّر بها عن الجملة، وجعل في التّعارف اسما للمماليك، كما عبّر بالرّأس وبالظّهر عنالمرکوب ، فقیل : فلان يربط کذا رأسا، وکذا ظهرا، قال تعالی: وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] ، وقال : وَفِي الرِّقابِ [ البقرة 177] ، أي : المکاتبین منهم، فهم الذین تصرف إليهم الزکاة . ورَقَبْتُهُ :- أصبت رقبته، ورَقَبْتُهُ : حفظته . - ( ر ق ب ) الرقبۃ - اصل میں گردن کو کہتے ہیں پھر رقبۃ کا لفظ بول کر مجازا انسان مراد لیا جاتا ہے اور عرف عام میں الرقبۃ غلام کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے جیسا کہ لفظ راس اور ظھر بول کر مجازا سواری مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے :۔ یعنی فلاں کے پاس اتنی سواریاں میں ۔ قرآن ہیں ہے : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] کہ جو مسلمان کو غلطی سے ( بھی ) مار ڈالے تو ایک مسلمان بردہ آزاد کرائے۔ اور رقبۃ کی جمع رقاب آتی ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ وَفِي الرِّقابِ [ البقرة 177] اور غلام کو آزاد کرنے میں ۔ مراد مکاتب غلام ہیں ۔ کیونکہ مال زکوۃ کے وہی مستحق ہوتے ہیں اور رقبتہ ( ن ) کے معنی گردن پر مارنے یا کسی کی حفاظت کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلا ذِمَّةً [ التوبة 10] کسی مسلمان کے بارے میں نہ تو قرابت کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں اور نہ ہی عہد و پیمان کا ۔
مکاتب کو صدقات سے مال دینا - قول باری ہے (فک رقبۃ ۔ کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا) مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک شخص نے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل سکھا دیجئے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ آپ نے فرمایا (اعتق النسمۃ وفک الرقبۃ۔ جان کو آزاد کرو اور گردن چھڑائو) ۔- اس شخص نے عرض کیا۔ اللہ کے رسول کیا یہ دونوں باتیں ایک نہیں ہیں ؟ “ آپ نے فرمایا (لا عتق النسمۃ ان تنفرد بعتقھا وفک الرقیۃ ان تعین فی ثمنھا۔ نہیں یہ دونوں باتیں ایک نہیں ہیں۔ جان آزاد کرنا یہ ہے کہ تم تنہا کسی کو آزاد کردو اور گردن چھڑانا یہ ہے کہ تم اس کی قیمت کی ادائیگی میں مدد کرو۔ )- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت مکاتب کو صدقات میں سے دینے کے جواز کی مقتضی ہے کیونکہ یہ بات اس کی قیمت کی ادائیگی میں مدد کی صورت ہے۔ اس کی مثال وہ قول باری ہے جو صدقات کے سلسلے میں مذکور ہے یعنی (وفی الرقاب اور گردنوں کو چھڑانے میں) ۔
آیت ١٣ فَکُّ رَقَـبَۃٍ ۔ ” کسی گردن کا چھڑا دینا۔ “- یعنی مال خرچ کر کے کسی غلام کو آزاد کرا دینا ‘ یا کسی مقروض کا قرض ادا کردینا۔