Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کامیابی کے لیے کیا ضروری ہے؟ : حضرت مجاہد فرماتے ہیں ضحا سے مراد روشنی ہے قتادہ فرماتے ہیں پورا دن مراد ہے امام جریر فرماتے ہیں کہ ٹھیک بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورج کی اور دن کی قسم کھائی ہے اور چاند جبکہ اس کے پیچھے آئے یعنی سورج چھپ جائے اور چاند چمکنے لگے ، ابن زید فرماتے ہیں کہ مہینہ کے پہلے پندرہ دن میں تو چاند سورج کے پیچھے رہتا ہے اور پچھلے پندرہ دنوں میں آگے ہوتا ہے ، زید بن اسلم فرماتے ہیں مراد اس سے لیلۃ القدر ہے ۔ پھر دن کی قسم کھائی جبکہ وہ منور ہو جائے یعنی سورج دن کو گھیر لے ، بعض عربی دانوں نے یہ بھی کہا ہے کہ دن جبکہ اندھیرے کو روشن کر دے لیکن اگر یوں کہا جاتا کہ پھیلاوٹ کو وہ جب چمکا دے تو اور اچھا ہوتا ہے تاکہ یغشاہا میں بھی یہ معنی ٹھی بیٹھتے ، اسی لیے حضرت مجاہد فرماتے ہیں دن کی قسم جبکہ وہ اسے روشن کر دے ، امام ابن جریر اس قوم کو پسند فرماتے ہیں کہ ان سب میں ضمیر ھاکا مرجع شمس ہے کیونکہ اسی کا ذکر چل رہا ہے ، رات جبکہ اسے ڈھانپ لے یعنی سورج کو ڈھانپ لے اور چاروں طرف اندھیرا پھیل جائے ، یزید بن ذی حمایہ کہتے ہیں کہ جب رات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرماتا ہے میرے بندوں کو میری ایک بہت بڑی خلق نے چھپا لیا پس مخلوق رات سے ہیبت کرتی ہے حالانکہ اس کے پیدا کرنے والے سے زیادہ ہیبت کرنی چاہیے ، ( ابن ابی حاتم ) پھر آسمان کی قسم کھاتا ہے یہاں جو ماہے یہ مصدیہ بھی ہو سکتا ہے ، یعنی آسمان اور اس کی بناوٹ کی قسم ، حضرت قتادہ کا قول یہی ہے اور یہ مامعنی میں من کے بھی ہو سکتا ہے تو مطلب یہ ہو گا کہ آسمان کی قسم اور اس کے بنانے والے کی قسم ، یعنی خود اللہ کی ، مجاہد یہی فرماتے ہیں یہ دونوں معنی ایک دوسرے کو لازم ملزوم ہیں بنا کے معنی بلندی کے ہیں جیسے اور جگہ ہے والسماء بنینٰھا بایدٍالخ ، یعنی آسمان کو ہم نے قوت کے ساتھ بنایا اور ہم کشادگی والے ہیں ہم نے زمین کو بچھایا اور کیا ہی اچجا ہم بچھانے والے ہیں ، اس طرح یہاں بھی فرمایا کہ زمین کی اور اس کی ہمواری کی اسے بچھانے ، پھیلانے کی اس کی تقسیم کی ، اس کی مخلوق کی قسم زیادہ مشہور قول اس کی تفسیر میں پھیلانے کا ہے ، اہل لغت کے نزدیک بھی یہی معروف ہے ، جوہری فرماتے ہیں طحو تہ مثل وحولۃ کے ہے اور اس کے معنی پھیلانے کے ہیں اکثر مفسرین کا یہی قول ہے پھر فرمایا نفس کی اور اسے ٹھیک ٹھاک بنانے کی قسم یعنی اسے پیدا کیا اور آنحالیکہ یہ ٹھیک ٹھاک اور فطرت پر قائم تھا جیسے اور جگہ ہے فاقم وجھک الخ ، اپنے چہرے کو قائم رکھ دین حنیف کے لیے فطرت ہے ، اللہ کی جس پر لوگوں کو بنایا اللہ کی خلق کی تبدیل نہیں ، حدیث میں ہے ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں جیسے چوپائے جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے کوئی ان میں کن کٹا نہ پاؤ گے ( بخاری و مسلم ) صحیح مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندے کو یکسوئی والے پیدا کئے ان کے پاس شیطان پہنچا اور دین سے ورغلالیا ، پھر فرماتا ہے کہ اللہ نے اس کے لیے بدکارری و پرہیز گاری کو بیان کر دیا اور جو چیز اس کی قسمت میں تھی اس کی طرف اس کی رہبری ہوئی ، ابن عباس فرماتے ہیں یعنی خیرو شر ظاہر کردیا ، ابن جریر میں ہے حضرت ابو الاسود فرماتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا ذرا بتاؤ تو لوگ جو کچھ اعمال کرتے ہیں اور تکلیفیں اٹھا رہے ہیں یہ کیا ان کے لیے اللہ کی جانب سے مقرر ہو چکی ہیں اور ان کی تقدیر میں لکھی جا چکی ہیں یا یہ خود آئندہ کے لیے اپنے طور پر کر رہے ہیں اس بنا پر کہ انبیاء کے پاس آچکے اور اللہ کی حجت ان پر پوری ہوئی میں جواب میں کہا نہیں نہیں بلکہ یہ چیز پہلے سے فیصل شدہ ہے اور مقدر ہو چکی ہے حضرت عمران نے کہا پھر یہ طلم تو نہ ہوگا میں تو اسے سن کر کانپ اٹھا اور گھبرا کر کہاکہ ہر چیز کا خالق مالک وہی اللہ ہے تمام ملک اسی کے ہاتھ میں ہے اس کے افعال کی باز پرس کوئی نہیں کر سکتا وہ سب سے سوال کرسکتا ہے میرا یہ جواب سن کر حضرت عمران بہت خوش ہوئے اور کہا اللہ تجھے دسرتگی عنایت فرمائے میں نے تو یہ سوالات اسی لیے کئے تھے کہ امتحان ہو جائے ، سنو ایک شخص مزینہ جھینہ قبیلے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہی سوال کیا جو میں نے پہلے تم سے کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وہی جواب دیا جو تم نے دیا تو اس نے کہا پھر ہمارے اعمال سے کیا ؟ آپ نے جوابا ارشاد فرمایا کہ جس کسی کو اللہ تبارک وتعالیٰٰ نے جس منزل کے لیے پیدا کیا ہے اس سے ویسے ہی کام ہو کر رہیں گے اگر جنتی ہے تو اعمال جنت اور دوزخی لکھا گیا ہے تو ویسے ہی اعمال اس پر آسان ہوں گے سنو قرآن میں اس کی تصدیق موجود ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ونفس وما سواھا فالھمھا فجورھا وتقوٰھایہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے ، مسند احمد میں بھی ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پاک کیا اور بامراد ہو ا ، یعنی اطاعت رب میں لگا رہا نکنکمے اعمال رذیل اخلاق چھوڑ دئیے جیسے اور جگہ ہے قد افلح من تزکی وذکرا سم ربٖہ فصلی جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام دیا کیا پھر نماز پڑھی اس نے کامیابی پالی اور جس نے اپنے ضمیر کا ستیاناس کیا اور ہدایت سے ہٹا کر اسے برباد کیا ، نافرمانیوں میں پڑگیا اطاعت اللہ کو چھوڑ بیٹھا یہ ناکام اور نامراد ہوا ۔ اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ جس کے نفس کو اللہ تعالیٰ نے پاک کیا اور بامراد ہوا اور جس کے نفس کو اللہ نے نیچے گرادیاوہ برباد ، خائب اور خاسر رہا ، عوفی اور علی بن ابو طلحہ حضرت ابن عباس سے یہی روایت کرتیہیں ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت قد افلح من زکھا پڑھ کر فرمایا کہ جس نفس کو اللہ نے پاک کیا اس نے چھٹکارا پالیا لیکن اس حدیث میں ایک علت تو یہ ہے کہ جویبربن سعید متروک الحدیث ہے دوسری علت یہ ہے کہ ضحاک جو حضرت عبداللہ سے روایت کرتے ہیں ان کی ملاقات ثابت نہیں ، طبرانی کی حدیث میں ہے کہ فالھمھا فجورھا وتقوٰھاپڑھ کر آپ نے یہ دعا پڑھی اللھم ائت نفسی تقوٰھا انت ولیھاومولاھا وخیر من زکاھا ابن ابی حاتم کی حدیث میں یہ دعا یوں وارد ہوئی ہے اللھم ائت نفسی تقوٰھا وزکھا انت خیر من زکاھا انت ولیھا ومولاھاکمسند احمد کی حدیث میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ رات کو ایک مرتبہ میری آنکھ کھلی میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بستر پر نہیں اندھیرے کی وجہ سے میں گھر میں اپنے ہاتھوں سے ٹٹولنے لگی تو یرے ہاتھ آپ پر پڑے آپ اس وقت سجدے میں تھے اور یہ دعا پڑھ رہے تھے رب اعط نفسی تقوٰھا وزکھا انت خیر من زکاھا انت ولیھا ومولاھاکیہ حدیث صرف مسھد احمد میں ہی ہے ، مسلم شریف اور مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعامانگتے تھے اللھم انی اعو ذبک من العجز والکسل والھرم والجبن والبخل وعذاب القبر اللھم ائت نفسی تقوھا وزکھا انت خیر من زکاھا انت ولیھا ومولاھا اللھم انی اوذبک من قلب لا یخشع ومن نفس لا تشبع وعلم لا ینفع ودعوۃ لا یستجاب لھا کیا اللہ میں عاجزی ، بےچارگی ، سستی تھکاوٹ بڑھاپے نامردی سے اور بخیلی اور عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں ، اے اللہ میرے دل کو اس کا تقویٰ عطا فرما اور اسے پاک کر دے تو ہی اسے بہتر پاک کرنے والا ہے توہی اس کا والی اور مولیٰ ہے ، اے اللہ مجھے ایسے دل سے بچا جس میں تیرا ڈر نہ ہو اور ایسے نفس سے بچا جو آسودہ نہ ہو اور ایسے علم سے بچا جو نفع نہ دے اور ایسی دعا سے بچاجو قبول نہ کی جائے ، راوی حدیث میں حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلعم نے ہمیں یہ دعا سکھائی اور ہم تمھیں سکھاتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 یا اس کی روشنی کی، یا مطلب ضحیٰ سے دن ہے، یعنی سورج کی اور دن کی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] ضُحٰی کے معنی چاشت کا وقت بھی ہے جب سورج خاصا بلند ہوجاتا ہے اور اس وقت کی دھوپ بھی جبکہ روشنی کے علاوہ سورج کی گرمی بھی اہل زمین کو متاثر کرنا شروع کردیتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

والشمس وضحھا : پہلی آیت سے لے کر آٹھویں آیت سے لے کر آٹھویں آیت تک تمام قسموں کا جواب قسم یہ ہے کہ ” جس شخص نے اپنے نفس کو پاک کر لیاوہ کامیاب ہوا اور جس نے اسے مٹی میں دبا دیا وہ ناکام ہوا۔ “ ان قسموں اور جواب قسم کی مناسبت یہ ہے (واللہ اعلم) کو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے انسان کے فائدے کے لئے پیدا فرمایا، جیسا کہ فرمایا :(ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً (البقرۃ : ٢٩)” وہ ذات کہ زمین میں جو کچھ ہے اس نے سب تمہارے لئے پیدا فرمایا۔ “ حتیٰ کہ آسمان کی چھت ، زمین کا فرش، سورج اور اس کی دھوپ ، اس کے بعد چاند اور اس کی چاندنی اور دن کو آفتاب کا اجالا، پھر رات کا اس کو ڈھانپ لینا اسی کے فائدے کے لئے ہے، فرمایا :(وسخر لکم الشمس والقمر دآئبین ، وسخر لکم الیل والنھار) (ابراہیم : ٣٣)” اور اس نے تمہارے لئے سورج اور چاند کو مسخر کردیا جو مسلسل چلنے والے ہیں اور تمہارے لئے رات اور دن کو مسخر کردیا۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا اور نفس انسانی کو بہترین شکل و صورت میں بنا کر اسے نیکی اور بدی کی پہچانبھی کر ادی۔ ہر آدمی ان سب چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور شعور سے محسوس کرتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص ان عظیم الشان مخلوقات کو اور ان کے خلاق کے احسانات کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اپنے آپ کو کفر و شرکت اور ظلم و زیادتی سے پاک کرلیتا ہے یقیناً وہ اپنا مقصد تخلیق پورا کردینے کی وجہ سے کامیاب ہے اور جو شخص ان سب چیزوں سے آنکھیں بند کر کے اپنے نفس کو شہوت، غضب اور شرک و کفر کے کیچڑ میں دبا دیتا ہے وہ ناکام ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - قسم ہے سورج کی اور اس کی روشنی کی اور چاند کی جب سورج (کے غروب) سے پیچھے آوے ( یعنی طلوع ہو مراد اس سے وسط ماہ کی بعض شبوں کا چاند ہے کہ سورج کے چھپنے کے بعد طلوع ہوتا ہے اور یہ قید شاید اس لئے ہو کہ وہ وقت کمال نور کا ہوتا ہے جیسا کہ ضحاہا کا اشارہ ہے کہ کمال نور آفتاب کی طرف اور یا اس وقت دو آیة قدرت علی سبیل التعاقب والاتصال ظاہر ہوتی ہیں غروب شمس وطلوع قمر) اور (قسم ہے) دن کی جب وہ اس (سورج) کی خوب روشن کردے اور (قسم ہے) رات کی جب وہ اس (سورج) کو (اور اس کے آثار وانوار کو بالکیہ) چھپالے (یعنی خوب رات ہوجاوے کہ دن کی روشنی کا کچھ اثر نہ رہے اور چاروں چیزیں جن کی قسم کھائی گئی ہے ان میں جو قیدیں لگائی گئی ہیں وہ ان کے کمال کے اعتبار سے ہیں، یعنی ہر ایک کی قسم ان کی حالت کمال کے اعتبار سے ہے) اور (قسم ہے) آسمان کی اور اس (ذات) کی جس نے اس کو بنایا (مراد اللہ تعالیٰ ہے اس طرح ماطحاہا اور ماسواہا میں بھی اور مخلوق کی قسم کو خالق کی قسم پر مقدم فرمانا اس لئے ہوسکتا ہے کہ اس میں ذہن کو دلیل سے مدلول کی طرف منتقل کرنا ہے کیونکو مصنوع دلیل ہے صانع پر، تو اس میں استدلال علی التوحید کی طرف بھی اشارہ ہوگیا) اور (قسم ہے) زمین کی اور اس (ذات) کی جس نے اس کو بچھایا اور (قسم ہے انسان کی جان کی اور اس (ذات) کی جس نے اس کو (ہر طرح صورت وشکل اعضا سے) درست بنایا پھر اس کی بدکرداری اور پرہیزگاری (دونوں باتوں کا اس کو القا کیا) یہ اسناد باعتبار تخلیق کے ہے یعنی قلب میں جو نیکی کا رجحان ہوتا ہے یا جو بدی کی طرف میلانہوتا ہے دونوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، گو القاء اول میں فرشتہ واسطہ ہوتا ہے اور ثانی میں شیطان پھر وہ رجحان ومیلان کبھی مرتبہ غرم تک پہنچ جاتا ہے جو کہ انسان کے قصد واختیار سے صادر ہوتا ہے اسی قصد واختیار پر عذاب وثواب مرتب ہوتا ہے جس کے بعد صدور فعل تخلیق حق ہوتا ہے اور کبھی عزم تک نہیں پہنچتا وہ معاف ہے۔ آگے مضمون کی تکمیل کے لئے اہل فجور و اہل تقویٰ کا مال بتلاتے ہیں کہ) یقینا وہ مراد کو پہنچا جس نے اس (جان) کو پاک کرلیا (یعنی نفس کو فجور سے روکا اور تقویٰ اختیار کرلیا) اور نامراد ہوا جس نے اس کو (فجور میں) دبا دیا (اور فجور سے مغلوب کردیا، اس کے بعد جو اب قسم مقدر ہے یعنی اے کفار مکہ جب تم اہل فجور ہو تو ضرور مبتلائے غضب وہلاک ہوگئے آخرت میں تو یقینا اور دنیا میں بعض اوقات جیسا کہ قوم ثمود اور فجوری وجہ سے غضب الٰہی اور عذاب کا مورد بنی جن کا قصہ یہ ہے کہ) قوم ثمود نے اپنی شرارت کے سبب (صلاح (علیہ السلام) کی) تکذیب کی (اور یہ اس زمانہ کا قصہ ہے) جبکہ اس قوم میں جو سب سے زیادہ بد بخت تھا وہ (اونٹنی کے قتل کرنے کے لئے) اٹھ کھڑا ہوا (یعنی آمادہ ہوگیا اور اسکے ساتھ اور لوگ بھی شریک تھے) تو ان لوگوں سے اللہ کے پیغمبر (صالح علیہ السلام) نے (جب ان کو اس عزم قتل کی اطلاع ہوئی کذافی الخازن) فرمایا کہ اللہ کی (اس) اونٹنی سے اور اسکے پانی پینے سے خبردار رہنا (یعنی اس کو قتل مت کرنا اور نہ اس کا پانی بند کرنا، چونکہ ارادہ قتل کا اصل سبب بھی پانی کی باری تھی اسلئے اس کی تصریح فرمائی۔ اور اللہ کی اونٹنی اسلئے کہا کہ خدا تعالیٰ نے اس کو معجزہ کے طور پر عجیب طرح سے پیدا کرکے دلیل نبوت بنادیا اور اس کے احترام کو واجب فرمایا) سو انہوں نے پیغمبر کو (یعنی دلیل نبوت کو جو ناقة اللہ کے ذریعہ ظاہر ہوئی) جھٹلایا (کیونکہ وہ ان کو نبی نہ سمجھتے تھے) پھر اس اونٹنی کو مار ڈالا تو ان کے پروردگار نے انکے گناہ کے سبب ان پر ہلاکت نازل فرمائی پھر اس (ہلاکت) کو (تمام قوم کے لئے) عام فرمایا اور اللہ تعالیٰ کو اس ہلاکت کے اخیر میں کسی خرابی (نکلنے) کا (کسی سے) اندیشہ نہیں ہوا (جیسے ملوک دنیا کو بعض اوقات کسی قوم کی سزا دینے کے بعد احتمال ہوتا ہے کہ اس پر کوئی شورش وہنگامہ ملکی مرتب نہو) مفصل قصہ ثمود کا اونٹنی کا سورة اعراف میں گزرچکا ہے۔- معارف ومسائل - اس سورت کے شروع میں سات چیزوں کی قسم آئی ہے اور ساتوں چیزوں کے ساتھ ان کی حالت کمال کے اعتبار سے کچھ اوصاف اور قیود ذکر کئے گئے ہیں۔ پہلی قسم والشمس وضحھا، یہاں اگرچہ ضحا کو واوعطف کے ساتھ ذکر کیا ہے مگر بقرینہ بعد کی اشیاء کے ضحیٰ کا ذکر بطور وصف شمس کے ہے یعنی قسم ہے آفتاب کی جبکہ وہ وقت ضحیٰ میں ہو۔ ضحیٰ اس وقت کو کہا جاتا ہے جب آفتاب طلوع ہو کر کچھ بلند ہوجائے اور اس کی روشنی زمین پر پھیل جائے، اس وقت میں وہ انسان کو قریب نظر آتا ہے اور تمازت زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کو پوری طرح دیکھ بھی سکتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالشَّمْسِ وَضُحٰىہَا۝ ١ - شمس - الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] ، وقال :- الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها .- ( ش م س ) الشمس - کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔- ضحی - الضُّحَى: انبساطُ الشمس وامتداد النهار، وسمّي الوقت به . قال اللہ عزّ وجل : وَالشَّمْسِ وَضُحاها[ الشمس 1] ، إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها [ النازعات 46] ، وَالضُّحى وَاللَّيْلِ [ الضحی 1- 2] ، وَأَخْرَجَ ضُحاها [ النازعات 29] ، وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى- [ طه 59] ، وضَحَى يَضْحَى: تَعَرَّضَ للشمس . قال : وَأَنَّكَ لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه 119] ، أي : لك أن تتصوّن من حرّ الشمس، وتَضَحَّى: أَكَلَ ضُحًى، کقولک : تغدّى، والضَّحَاءُ والغداءُ لطعامهما، وضَاحِيَةُ كلِّ شيءٍ : ناحیتُهُ البارزةُ ، وقیل للسماء : الضَّوَاحِي ولیلة إِضْحِيَانَةٌ ، وضَحْيَاءُ : مُضيئةٌ إضاءةَ الضُّحَى.- والأُضْحِيَّةُ- جمعُها أَضَاحِي وقیل : ضَحِيَّةٌ وضَحَايَا، وأَضْحَاةٌ وأَضْحًى، وتسمیتها بذلک في الشّرع لقوله عليه السلام : «من ذبح قبل صلاتنا هذه فليُعِدْ»- ( ض ح و ) الضحی ٰ- ۔ کے اصل معنی دہوپ پھیل جانے اور دن چڑھ آنے کے ہیں پھر اس وقت کو بھی ضحی کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالشَّمْسِ وَضُحاها[ الشمس 1] سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها [ النازعات 46] ایک شام یا صبح وَالضُّحى وَاللَّيْلِ [ الضحی 1- 2] آفتاب کی روشنی کی قسم اور رات کی تاریکی کی جب چھاجائے ۔ وَأَخْرَجَ ضُحاها [ النازعات 29] اور اسکی روشنی نکالی ۔ وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى[ طه 59] اور یہ لوگ ( اس دن چاشت کے وقت اکٹھے ہوجائیں ۔ ضحی یضحیٰ شمسی یعنی دھوپ کے سامنے آنا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّكَ لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه 119] اور یہ کہ نہ پیاسے رہو اور نہ دھوپ کھاؤ۔ یعنی نہ دھوپ سے تکلیف اٹھاؤ گے ۔ تضحی ضحی کے وقت کھانا کھانا جیسے تغدیٰ ( دوپہر کا کھانا کھانا ) اور اس طعام کو جو ضحی اور دوپہر کے وقت کھایا جائے اسے ضحاء اور غداء کہا جاتا ہے ۔ اور ضاحیۃ کے معنی کسی چیز کی کھلی جانب کے ہیں اس لئے آسمان کو الضواحی کہا جاتا ہے لیلۃ اضحیانۃ وضحیاء روشن رات ( جس میں شروع سے آخر تک چاندنی رہے )- اضحیۃ - کی جمع اضاحی اور ضحیۃ کی ضحایا اور اضحاۃ کی جمع اضحیٰ آتی ہے اور ان سب کے معنی قربانی کے ہیں ( اور شرقا قربانی بھی چونکہ نماز عید کے بعد چاشت کے وقت دی جاتی ہے اس لئے اسے اضحیۃ کہاجاتا ہے حدیث میں ہے (9) من ذبح قبل صلوتنا ھذہ فلیعد کہ جس نے نما زعید سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کردیا وہ دوبارہ قربانی دے ۔- ضحی کے معنی میں متعدد اقوال ہیں۔- (1) طلوع کے وقت آفتاب کی روشنی۔ ( مجاہد، کلبی)- (2) ضحی سے مراد پورا دن ہے۔ ( قتادہ)- (3) ضحی سے سورج کی گرمی مراد ہے۔ ( مقاتل)- (4) قاموس میں ہے ضحیۃ بروزن عشیۃ دن چڑھ جانا۔ ضحی بغیر مدہ کے اور ضحا مدہ کے ساتھ قریب دوپہر۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(1 ۔ 6) قسم ہے سورج کی روشنی اور پہلی رات کے چاند کی جب سورج کے غروب ہونے کے بعد آئے، اور قسم ہے دن کی جب وہ رات کی تاریکی کو روشن کردے، اور رات کی جب وہ دن کی روشنی کو ختم کردے اور قسم ہے آسمان کی اور اس ذات کی جس نے اس کو پیدا کیا، اور قسم ہے زمین کی اور اس ذات کی جس نے اس کو پانی پر بچھایا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشَّمْس حاشیہ نمبر :1 اصل میں لفظ ضحی استعمال کیا گیا ہے جو سورج کی روشنی اور اس کی حرارت ، دونوں پر دلالت کرتا ہے ۔ اگرچہ عربی زبان میں اس کے معروف معنی چاشت کے وقت کے ہیں جبکہ سورج طلوع ہونے کے بعد خاصا بلند ہو جاتا ہے ۔ لیکن جب سورج چڑھتا ہے تو صرف روشنی ہی نہیں دیتا بلکہ گرمی بھی دیتا ہے ، اس لیے ضحی کا لفظ جب سورج کی طرف منسوب ہو تو اس کا پورا مفہوم اس کی روشنی ، یا اس کی بدولت نکلنے والے دن کے بجائے اس کی دھوپ ہی سے زیادہ صحیح طور پر ادا ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: سورج کو عربی میں ’’شمس‘‘ کہتے ہیں، اور اِسی کے نام پر اس سورت کا نام سورۃ الشمس ہے۔ سورت میں اصل مضمون یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہر اِنسان کے دِل میں نیکی اور بدی دونوں قسم کے تقاضے پیدا فرمائے ہیں، اب اِنسان کا کام یہ ہے کہ وہ نیکی کے تقاضوں پر عمل کرے، اور بُرائی سے اپنے آپ کو روکے۔ یہ بات کہنے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے سورج، چاند اور دن اور رات کی قسمیں کھائی ہیں۔ اس میں شاید اشارہ ہے کہ جس طرح اﷲ تعالیٰ نے سورج کی اور دن کی روشنی بھی پیدا کی ہے، اور رات کا اندھیرا بھی، اسی طرح اِنسان کو نیکی کے کاموں کی بھی صلاحیت دی ہے، اور بدی کے کاموں کی بھی۔