Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی نماز سے، یا تبلیغ سے یا جہاد سے، تو دعا میں محنت کر، یا اتنی عبادت کر کہ تو تھک جائے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) فاذا فرعت فانصب…: آپ کے دنیا کے کام ہوں یا تبلیغ دین یا جہاد فی سبیل اللہ، اگرچہ یہ سب عبادات اور نیکیاں ہیں مگر ان میں پھر بھی مخلوق سے کچھ نہ کچھ رابطہ رہتا ہے، جب بھی ان کاموں سے کچھ فراغت ملے، تو ہر چیز سے منقطع ہو کر اپنے رب سے تعلق جوڑ کر ذکر الٰہی، تلاوت قرآن، قیام اور رکوع و سجود کی محنت کریں اور اپنی متام رغبت اپنے رب ہی کی طرف رکھیں۔ یہ وہی بات ہے جو سورة مزمل کے شروع میں کہی گئی ہے، فرمایا :(ان لک فی النھار سبحاً طویلاً ، واذکر اسم ربک وتبتل الیہ تبتیلاً (المزمل : ٨: ٨) ” یقیناً تجھے دن میں بہت لمبی مصروفیت ہے اور اپنے رب کا نام ذکر کر اور ہر طرف سے کٹ کر اسی کی طرف متوجہ ہوجا۔ “- (٢) فانصب :” نصب ینصب نصباً “ (س) کے مفہوم میں محنت و مشقت کے ساتھ تھکن بھی اشملہے، یعنی صرف راحت کے وقت ہی نہیں، طبیعت کے نہ چاہتے ہوئے بھی عبادت اور ذکر الٰہی کی مشقت جاری رکھ۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے وقت اتنا قیام کرتے کہ آپ کے پاؤں پر ورم آجاتا، جیسا کہ صحیحین میں عائشہ (رض) سے مروی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تعلیم و تبلیغ کرنے والوں کو خلوص میں ذکر اللہ اور توجہ الی اللہ بھی ضروری ہے :- فاذا فرغت فانصب، والی ربک فارغب یعنی جب آپ ایک محنت یعنی دعوت حق اور تبلیغ احکام سے فارغ ہوں تو (دوسری) محنت کے لئے تیار ہو جایئے وہ یہ کہ نماز اور ذکر اللہ اور دعا و استغفار میں لگ جائیں۔ اکثر حضرات مفسرین نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔ بعض حضرات نے دوسری تفسیریں بھی لکھی ہیں مگر اقرب وہی ہے جو اوپر لکھی گئی۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت و تبلیغ اور خلق خدا کو راستہ دکھانا ان کی اصلاح کی فکر یہ آپ کی سب سے بڑی عبادت تھی مگر یہ عبادت بواسطہ مخلوق ہے کہ ان کی اصلاح پر توجہ دیں اور اس کی تدبیر کریں، آیت کا مقصود یہ ہے کہ صرف اس عبادت بالواسطہ پر آپ قناعت نہ کریں بلکہ جب اس سے فرصت ملے تو بلاواسطہ خلوت میں حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں اسی سے ہر کام میں کامیابی کی دعا کریں کہ اصل مقصود جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے وہ ذکر اللہ اور عبادت بلاواسطہ ہی ہے اور شاید اسی لئے پہلی قسم یعنی عبادت بالواسطہ سے فراغت کا ذکر فرمایا کہ وہ کام ایک ضرورت کے لئے ہے اس سے فراغت ہو سکتی ہے اور دوسرا کام یعنی توجہ الی اللہ ایسی چیز ہے کہ اس سے فراغت مومن کو کبھی نہیں ہو سکتی بلکہ اپنی ساری عمر اور توانائی کو اس میں صرف کرنا ہے۔- فائدہ :۔ اس سے معلوم ہوا کہ علماء جو تعلیم و تبلیغ اور اصلاح خلق کا کام کرنے والے ہیں ان کو اس سے غفلت نہ ونا چاہئے کہ انکا کچھ وقت خلوت میں توجہ الی اللہ اور ذکر اللہ کے لئے بھی مخصوص ہنا چاہئے جیسا کہ علماء سلف کی سیرتیں اس پر شاید ہیں اس کے بغیر تعلیم و تبلیغ بھی موثر نہیں ہوتی ان میں نور و برکت نہیں ہوتی۔- فائدہ :۔ لفظ فانصب، نصب سے مشتق ہے جس کے اصلی معنے تعب اور تکان کے ہیں اس میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ عبادت اور ذکر اللہ اس حد تک جاری رکھا جائے کہ کچھ مشقت اور تکان محسوس ہونے لگے صرف نفس کی راحت و خوشی ہی پر اس کا مدارنہ رہے اور کسی وظیفہ اور معمول کی پابندی خود ایک مشقت اور تعجب ہے، خواہ کام مختصر ہی ہو۔ - تمت سورة الانشراح والحمد للہ

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ۝ ٧ ۙ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- فرغ - الفَرَاغُ : خلاف الشّغل، وقد فَرَغَ فَرَاغاً وفُرُوغاً ، وهو فَارِغٌ. قال تعالی: سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلانِ [ الرحمن 31] ، وقوله تعالی: وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] ، أي : كأنّما فَرَغَ من لبّها لما تداخلها من الخوف وذلک کما قال الشاعر : كأنّ جؤجؤه هواء - «1» وقیل : فَارِغاً من ذكره، أي أنسیناها ذكره حتی سکنت واحتملت أن تلقيه في الیمّ ، وقیل : فَارِغاً ، أي : خالیا إلّا من ذكره، لأنه قال : إِنْ كادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص 10] ، ومنه قوله تعالی: فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ [ الشرح 7] ، وأَفْرَغْتُ الدّلو :- صببت ما فيه، ومنه استعیر : أَفْرِغْ عَلَيْنا صَبْراً [ الأعراف 126] ، وذهب دمه فِرْغاً «2» ، أي : مصبوبا . ومعناه : باطلا لم يطلب به، وفرس فَرِيغٌ: واسع العدو كأنّما يُفْرِغُ العدو إِفْرَاغاً ، وضربة فَرِيغَةٌ: واسعة ينصبّ منها الدّم .- ( ف ر غ ) الفراغ - یہ شغل کی ضد ہے ۔ اور فرغ ( ن ) فروغا خالی ہونا فارغ خالی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص 10] اور موسٰی کی ماں کا دل بےصبر ہوگیا ۔ یعنی خوف کی وجہ سے گویا عقل سے خالی ہوچکا تھا جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کان جو جو ہ ھواء گویا اس کا سینہ ہوا ہو رہا تھا ۔ اور بعض نے فارغا کے معنی موسیٰ (علیہ السلام) کے خیال سے خالی ہونا کئے ہیں یعنی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کا خیال ان کے دل سے بھلا دیا حتی کہ وہ مطمئن ہوگئیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کو دریامیں ڈال دینا انہوں نے گوارا کرلیا بعض نے فارغا کا معنی اس کی یاد کے سوا باقی چیزوں سے خالی ہونا بھی کئے ہیں ۔ جیسا کہ اس کے بعد کی آیت : ۔ إِنْ كادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص 10] اگر ہم ان کے دل کو مضبوط نہ کرتے تو قریب تھا کہ وہ اس قصے کو ظاہر کردیں سے معلوم ہوتا ہے اور اسی سے فرمایا : ۔ فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ [ الشرح 7] تو جب فارغ ہوا کرو عبادت میں محنت کیا کروں سَنَفْرُغُ لَكُمْ أَيُّهَ الثَّقَلانِ [ الرحمن 31] اے دونوں جماعتوں ہم عنقریب تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ اور افرغت الدلو کے معنی ڈول سے پانی بہا کر اسے خالی کردینا کے ہیں چناچہ آیت کریمہ : ۔ أَفْرِغْ عَلَيْنا صَبْراً [ الأعراف 126] ہم پر صبر کے دہانے کھول دے بھی اسی سے مستعار ہے ذھب دمہ فرغا اس کا خون رائیگاں گیا ۔ فرس فریغ وسیع قدم اور تیز رفتار گھوڑا گویا وہ دوڑ کر پانی کی طرح بہہ ر ہا ہے ۔ ضربۃ فریغۃ وسیع زخم جس سے خون زور سے بہہ رہا ہو ۔- نصب - نَصْبُ الشیءِ : وَضْعُهُ وضعاً ناتئاً كنَصْبِ الرُّمْحِ ، والبِنَاء والحَجَرِ ، والنَّصِيبُ : الحجارة تُنْصَبُ علی الشیءِ ، وجمْعُه : نَصَائِبُ ونُصُبٌ ، وکان للعَرَبِ حِجَارةٌ تعْبُدُها وتَذْبَحُ عليها . قال تعالی: كَأَنَّهُمْ إِلى نُصُبٍ يُوفِضُونَ [ المعارج 43] ، قال : وَما ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ- [ المائدة 3] وقد يقال في جمعه : أَنْصَابٌ ، قال : وَالْأَنْصابُ وَالْأَزْلامُ [ المائدة 90] والنُّصْبُ والنَّصَبُ : التَّعَبُ ، وقرئ : بِنُصْبٍ وَعَذابٍ [ ص 41] و ( نَصَبٍ ) وذلک مثل : بُخْلٍ وبَخَلٍ. قال تعالی: لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر 35] وأَنْصَبَنِي كذا . أي : أَتْعَبَنِي وأَزْعَجَنِي، قال الشاعرُ : تَأَوَّبَنِي هَمٌّ مَعَ اللَّيْلِ مُنْصِبٌوهَمٌّ نَاصِبٌ قيل : هو مثل : عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ والنَّصَبُ : التَّعَبُ. قال تعالی: لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . وقد نَصِبَ فهو نَصِبٌ ونَاصِبٌ ، قال تعالی: عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية 3] . والنَّصِيبُ : الحَظُّ المَنْصُوبُ. أي : المُعَيَّنُ. قال تعالی: أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء 53] ، أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ [ آل عمران 23] ، فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ [ الشرح 7] ويقال : نَاصَبَهُ الحربَ والعَداوةَ ، ونَصَبَ له، وإن لم يُذْكَر الحربُ جَازَ ، وتَيْسٌ أَنْصَبُ ، وشَاةٌ أو عَنْزَةٌ نَصْبَاءُ : مُنْتَصِبُ القَرْنِ ، وناقةٌ نَصْبَاءُ : مُنْتَصِبَةُ الصَّدْرِ ، ونِصَابُ السِّكِّين ونَصَبُهُ ، ومنه : نِصَابُ الشیءِ : أَصْلُه، ورَجَعَ فلانٌ إلى مَنْصِبِهِ. أي : أَصْلِه، وتَنَصَّبَ الغُبارُ :- ارتَفَع، ونَصَبَ السِّتْرَ : رَفَعَهُ ، والنَّصْبُ في الإِعراب معروفٌ ، وفي الغِنَاءِ ضَرْبٌ منه - ( ن ص ب ) نصب الشئیء کے منعی کسی چیز کو کھڑا کرنے یا گاڑ دینے کے ہیں مثلا نیزے کے گاڑنے اور عمارت یا پتھر کو کھڑا کرنے پر نصب کا لفظ بولا جاتا ہے اور نصیب اس پتھر کو کہتے ہیں جو کسی مقام پر ( بطور نشان کے ) گاڑ دیا جاتا ہے اس کی جمع نصائب ونصب آتی ہے ۔ جاہلیت میں عرب جن پتھروں کی پوجا کیا کرتے اور ان پر جانور بھینٹ چڑہا یا کرتے تھے ۔ انہیں نصب کہا ۔ جاتا تھا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَأَنَّهُمْ إِلى نُصُبٍ يُوفِضُونَ [ المعارج 43] جیسے وہ عبارت کے پتھروں کی طرف دوڑتے ہیں ۔ نیز فرمایا : ۔ وَما ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ [ المائدة 3] اور وہ جانور بھی جو تھا ن پر ذبح کیا جائے ۔ اس کی جمع انصاب بھی آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالْأَنْصابُ وَالْأَزْلامُ [ المائدة 90] اور بت اور پا سے ( یہ سب ) ناپاک کام اعمال شیاطین سے ہیں ۔ اور نصب ونصب کے معنی تکلیف ومشقت کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر 35] ایذا اور تکلیف میں ایک قراءت نصب بھی ہے اور یہ بخل وبخل کی طرح ہے قرآن میں ہے : ۔ یہاں نہ ہم کو رنج پہنچے گا ۔ وانصبنی کذا کے معنی کسی کو مشقت میں ڈالنے اور بےچین کرنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 427 ) تاو بنی ھم مع اللیل منصب میرے پاس رات کو تکلیف وہ غم بار بار لوٹ کر آتا ہے ۔ اور عیشۃ راضیۃ کی طرح ھم ناصب کا محاورہ بھی بولا جاتا ہے ۔ النصب کے معنی مشقت کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] اس سفر سے ہم کو بہت تھکان ہوگئی ہے ۔ اور نصب ( س ) فھو نصب وناصب کے معنی تھک جانے یا کسی کام میں سخت محنت کرنے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية 3] سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے ۔ فَإِذا فَرَغْتَ فَانْصَبْ [ الشرح 7] تو جب فارغ ہوا کرو ۔ تو عبادت میں محنت کیا کرو النصب کے معنی معین حصہ کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ [ النساء 53] کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ [ آل عمران 23] بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا ۔ اور ناصبۃ الحر ب والعدۃ ونصب لہ کے معنی کسی کے خلاف اعلان جنگ یا دشمنی ظاہر کرنے کے ہیں ۔ اس میں لفظ حر ب یا عداوۃ کا حزف کر نا بھی جائز ہے تئیس انصب وشاۃ او عنزۃ نصباء کھڑے سینگوں والا مینڈ ھایا بکری ۔ ناقۃ نصباء ابھرے ہوئے سینہ والی اونٹنی نصاب السکین ونصبۃ کے معنی چھری کے دستہ ہیں ۔ اور اسی سے نصاب الشئی کا محاورہ ہے جس کے معنی اصل الشئی ہیں ۔ تنصب الغبار غبار کا اڑنا نصب الستر پر دہ اٹھانا نصب ( اعراب زبر کو کہتے ہیں اور نصب ایک قسم کا راگ بھی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

فرصت کے بعد عبادت - قول باری ہے (فاذافرغت فانصب۔ لہٰذا جب تم فارغ ہو تو عبادت کی مشقت میں لگ جائو) حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے ” جب تم فرائض سے فارغ ہوجائو تو ان اعمال میں لگ جائو جن کی اللہ تعالیٰ نے تمہیں ترغیب دی ہے۔ “ حسن کا قول ہے ” جب تم اپنے دشمنوں کے خلاف جہاد سے فارغ ہوجائو تو اپنے رب کی عبادت میں لگ جائو۔ “ قتادہ کا قول ہے ” تم جب اپنی نماز سے فارغ ہوجائو تو اپنے رب سے دعائیں مانگنے میں لگ جائو۔ مجاہد کا قول ہے ” جب تم اپنے دنیاوی کاموں سے فارغ ہوجائو تو اپنے رب کی عبادت میں لگ جائو) آیت کے الفاظ میں ان تمام معافی کا احتمال ہے اور درست صورت یہ ہے کہ لفظ کو ان تمام معانی پر محمول کیا جائے اس طرح تمام معانی مراد لیے جائیں ۔ اگرچہ اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے تاہم تمام مکلفین مراد ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ ‘ ٨ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ - وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ ۔ ” پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فرائض نبوت سے) فارغ ہوجائیں تو اسی کام میں لگ جایئے ۔ اور اپنے رب کی طرف راغب ہوجایئے۔ “- تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب آپ اپنے فرضِ منصبی سے فارغ ہوجائیں اور اللہ کا دین غالب ہوجائے تو پھر آپ یکسو ہو کر اللہ کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ نوٹ کیجیے سورة النصر میں بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بالکل یہی پیغام ہے :- اِذَا جَآئَ نَصْرُاللّٰہِ وَالْفَتْحُ - وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا - فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُطٓ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا ۔ - یعنی جب غلبہ دین کے حوالے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مشن مکمل ہوجائے تو پھر ہمہ تن ‘ ہمہ وقت آپ اللہ کی طرف متوجہ ہوجایئے گا اور تقرب الی اللہ کے لیے محنت شروع کردیجیے گا۔ چناچہ جونہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مشن پایہ تکمیل کو پہنچا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فوراً محبوب کی طرف مراجعت کا فیصلہ کرلیا (اَللّٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الاَعْلٰی) کہ اے اللہ اب میں اپنے فرائض منصبی سے فارغ ہوگیا ہوں ‘ اب مجھ میں مزید انتظار کا یارا نہیں واضح رہے کہ انبیاء و رسل - کو اللہ تعالیٰ دنیا میں مزید رہنے یا کوچ کرنے سے متعلق اختیار عطا فرماتا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ آخری ایام میں ایک دن جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرض میں افاقہ ہواتو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تشریف لے گئے۔ منبرپر فروکش ہوئے اور خطبہ دیا۔ اس کے بعد منبر سے نیچے تشریف لائے۔ ظہر کی نماز پڑھائی اور پھر منبر پر تشریف لے گئے اور چند اہم نصیحتیں فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا : ” ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ وہ یا تو دنیا کی چمک دمک اور زیب وزینت میں سے جو کچھ چاہے اللہ اسے دے دے یا اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کرلے تو اس بندے نے اللہ کے پاس والی چیز کو اختیار کرلیا “۔ یہ بات سن کر ابوبکر (رض) رونے لگے اور فرمایا : ” ہم اپنے ماں باپ سمیت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان “ اس پر لوگوں کو تعجب ہوا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ارشاد فرما رہے ہیں اور اس پر ابوبکر (رض) کیا کہہ رہے ہیں لیکن چند دن بعد واضح ہوا کہ جس بندے کو اختیار دیا گیا تھا وہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے اور ابوبکر صدیق (رض) صحابہ کرام (رض) میں سب سے زیادہ صاحب علم تھے۔ - یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان کا ذکر کرتے ہوئے میرے دل کی بات زبان پر آگئی ہے۔۔۔۔ وہ یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل سے مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں پہنچا دیا تو میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکوہ کرنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ حضور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت جلدی کی … حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مانا کہ ہجر و فراق کا ایک ایک لمحہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مشکل تھا… مگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوئے تھے وہ بھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیضانِ نظر کے محتاج تھے… حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر تھوڑا سا وقت ان کو بھی مل جاتا تو… مہاجرین (رض) و انصار (رض) کی طرز پر ان کی تربیت بھی ہو جاتی…

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: ظاہر ہے کہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی مصروفیات تمام تر دِین ہی کے لئے تھی، تبلیغ ہو یا تعلیم، جہاد ہو یا حکمرانی، سارے کام ہی دین کے لئے ہونے کی وجہ سے بذاتِ خود عبادت کا درجہ رکھتے تھے، لیکن فرمایا جارہا ہے کہ جب ان کاموں سے فراغت ہو تو خالص عبادت مثلاً نفلی نمازوں اور زبانی ذکر وغیرہ میں اتنے لگئے کہ جسم تھکنے لگے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ دِین کی خدمت میں لگے ہوئے ہوں اُن کو بھی کچھ وقت خالص نفلی عبادتوں کے لئے مخصوص کرنا چاہئے، اِسی سے اﷲ تعالیٰ کے ساتھ تعلق مضبوط ہوتا ہے، اور اسی سے دُوسرے دِینی کاموں میں برکت پیدا ہوتی ہے۔