8۔ 1 وہ اس پر سخت پشیمان اور مضطرب ہوگا۔ ذرۃ بعض کے نزدیک چیونٹی سے بھی چھوٹی چیز ہے۔ بعض اہل لغت کہتے ہیں، انسان زمین پر ہاتھ مارتا ہے، اس سے اس کے ہاتھ پر جو مٹی لگ جاتی ہے وہ ذرہ ہے۔ بعض کے نزدیک سوراخ سے آنے والی سورج کی شعاعوں میں گردوغبار کے جو ذرات سے نظر آتے ہیں، وہ ذرہ ہے۔ لیکن امام شوکانی نے پہلے معنی کو اولیٰ کہا ہے۔ امام مقاتل کہتے ہیں کہ یہ سورت ان دو آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن میں سے ایک شخص، سائل کو تھوڑا سا صدقہ دینے میں تامل کرتا اور دوسرا شخص چھوٹا گناہ کرنے میں کوئی خوف محسوس نہ کرتا تھا۔ (فتح القدیر)
[٧] ان دونوں صورتوں میں جو بھی صورت ہو یہ ممکن نہ ہوگا کہ کسی شخص نے کوئی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی ہو لیکن وہ اعمال میں درج ہونے یا ریکارڈ ہونے سے رہ جائے۔ اسی طرح جس شخص نے کوئی چھوٹے سے چھوٹا برائی کا کام کیا ہوگا وہ اسے اپنے اعمال نامہ یا ریکارڈ میں دیکھ لے گا۔
ومن یعمل مثقال ذرة سرایرہ مراد اس سے وہ شر ہے جس سے اپنی زندگی میں توبہ نہ کرلی ہو کیونکہ توبہ سے گناہوں کا معاف ہونا قرآن و سنت میں یقینی طور پر ثابت ہے۔ البتہ جس گناہ سے توبہ نہ کی ہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا آخرت میں اس کا نتیجہ ضرور سامنے آئے گا۔ اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صدیقہ عائشہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دیکھو ایسے گناہوں سے بچنے کا پورا اہتمام کرو جن کو چھوٹا یا حقیر سمجھا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر بھی مواخذہ ہونا ہے (رواہ النسائی وابن ماجہ عنہا) - حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ یہ آیت قرآن کی سب سے زیادہ مسحتکم اور جامع آیت ہے اور حضرت انس کی ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کو الفاذة الجامعہ فرمایا ہے یعنی منفرد یکتا اور جامع - اور حضرت انس اور ابن عباس کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة اذا زلزت کو نصف القرآن اور قل ہو اللہ احد کو ثلث القرآن اور قل یا ایھا الکفرون کو ربع القرآن فرمایا ہے (رواہ الترمذی و البغوی، مظہری)
وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا يَّرَہٗ ٨ ۧ- مِثْقَال - : ما يوزن به، وهو من الثّقل، وذلک اسم لکل سنج قال تعالی: وَإِنْ كانَ مِثْقالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنا بِها وَكَفى بِنا حاسِبِينَ [ الأنبیاء 47] ، وقال تعالی: فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 6- 7] ، فإشارة إلى كثرة الخیرات، وقوله تعالی: وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة 8] ، فإشارة إلى قلّة الخیرات .- والثقیل والخفیف يستعمل علی وجهين :- أحدهما علی سبیل المضایفة، وهو أن لا يقال لشیء ثقیل أو خفیف إلا باعتباره بغیره، ولهذا يصحّ للشیء الواحد أن يقال خفیف إذا اعتبرته بما هو أثقل منه، و ثقیل إذا اعتبرته بما هو أخفّ منه، وعلی هذه الآية المتقدمة آنفا .- والثاني أن يستعمل الثقیل في الأجسام المرجّحة إلى أسفل، کالحجر والمدر، والخفیف يقال في الأجسام المائلة إلى الصعود کالنار والدخان، ومن هذا الثقل قوله تعالی: اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة 38] .- المثقال ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے کسی چیز کا وزن کیا جائے چناچہ ہر باٹ کو مثقال کہہ سکتے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ [ الزلزلة 7- 8] ، وقوله تعالی: فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ راضِيَةٍ [ القارعة 6- 7] تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لیگا تو جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور آیت کریمہ :۔ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ [ القارعة 8] اور جس کے وزن ہلکے نکلیں گے ۔ میں وزن کے ہلکا نکلنے سے اعمال حسنہ کے کم ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ ثقیل اور خفیف کے الفاظ دو طرح استعمال ہوتے ہیں ایک بطور مقابلہ کے یعنی ایک چیز کو دوسری چیز کے اعتبار سے ثقیل یا خفیف کہہ دیا جاتا ہے چناچہ مذکورہ بالاآیت میں نہی معنی مراد ہیں اور دوسرے یہ کہ جو چیزیں ( طبعا) نیچے کی طرف مائل ہوتی ہیں انہیں ثقیل کہا جاتا ہے جیسے حجر مدر وغیرہ اور جو چیزیں ( طبعا) اوپر کو چڑھتی ہیں جیسے آگ اور دہواں انہیں حفیف کہا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ ؛ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ [ التوبة 38] تو تم زمین پر گر سے جاتے ہو ۔ میں زمین پر گرنا دوسرے معنی کے اعتبار سے ہے ۔- شر - الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] ، وقد تقدّم تحقیق الشّرّ مع ذکر الخیر وذکر أنواعه ورجل شَرٌّ وشِرِّيرٌ: متعاط للشّرّ ، وقوم أَشْرَارٌ ، وقد أَشْرَرْتُهُ : نسبته إلى الشّرّ ، وقیل : أَشْرَرْتُ كذا : أظهرته واحتجّ بقول الشاعر :إذا قيل : أيّ الناس شرّ قبیلة ... أشرّت كليبٌ بالأكفّ الأصابعفإن لم يكن في هذا إلّا هذا البیت فإنه يحتمل أنها نسبت الأصابع إلى الشّرّ بالإشارة إليه، فيكون من : أشررته : إذا نسبته إلى الشّرّ ، والشُّرُّ بالضّمّ خصّ بالمکروه، وشَرَارُ النّار : ما تطایر منها، وسمّيت بذلک لاعتقاد الشّرّ فيه، قال تعالی: تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات 32] .- ( ش ر ر ) الشر وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] کہ مکان کس کا برا ہے وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے ہیں شر کا اصل معنی اور اس کے جملہ اقسام خیر کی بحث میں بیان ہوچکے ہیں ۔ رجل شریر و شریر شریر آدمی و قوم اشرار برے لوگ اشررتہ کسی کی طرف شر کی نسبت کرنا بعض نے کہا ہے کہ اشررت کذا کے معنی کسی چیز کو ظاہر کرنے کے بھی آتے ہیں ۔ اور شاعر کے اس قول سے استدلال کیا ہے ( الطویل ) ( 256 ) اذا قیل ای الناس شر قبیلۃ اشرت کلیب بالاکف الاصابعا جب یہ پوچھا جائے کہ کو نسا قبیلہ سب سے برا ہے تو ہاتھ انگلیوں سے بنی کلیب کی طرف اشارہ کردیتے مگر اس شعر کے علاوہ اس معنی پر اگر اور کوئی دلیل نہ ہو تو یہاں اشرت کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں ۔ کہ ساتھ انگلیوں سے ان کی طرف شر کی نسبت کردیتے ہیں الشر ( بضمہ الشین ) شر مکروہ چیز شرار النار آگ کی چنگاری ۔ آگ کی چنگاری کو شرار اسلئے کہتے ہیں کہ اس سے بھی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے قرآن ؎ میں ہے تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات 32] اس سے آگ کی ( اتنی اتنی بڑی ) چنگاریاں اڑتی ہیں جیسے محل - رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔
آیت ٨ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ۔ ” اور جس کسی نے ذرّہ کے ہم وزن کوئی بدی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔ “- عربی لغت کے مطابق چیونٹی کے انڈے سے نکلنے والے بچے کو ” ذرّہ “ کہا جاتا ہے۔ یعنی بہت چھوٹی اور حقیر چیز۔ اسی مفہوم میں لفظ ” ذرّہ “ اردو میں بھی مستعمل ہے۔- یہ آیت انسان کو اس اہم حقیقت پر متنبہ کرتی ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی بہرحال اپنا ایک وزن اور اپنی ایک قدر رکھتی ہے ‘ اور چھوٹی سے چھوٹی بدی بھی حساب میں آنے والی چیز ہے۔ بسا اوقات انسان نیکی کے چھوٹے سے کام کو حقیر سمجھ کر نظر انداز کردیتا ہے ‘ اور بعض اوقات صغیرہ گناہوں کی پروا نہیں کرتا۔ یہ درست طرزعمل نہیں ہے۔ کسی نیکی کو چھوٹا سمجھ کر اسے چھوڑنا نہیں چاہیے اور کسی گناہ کو چھوٹا سمجھ کر اس پر جری نہیں ہونا چاہیے۔
سورة الزلزال حاشیہ نمبر : 7 اس ارشاد کا ایک سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے اور یہ بالکل صحیح ہے کہ آدمی کی کوئی ذرہ برابر نیکی یا بدی بھی ایسی نہیں ہوگی جو اس کے نامہ اعمال میں درج ہونے سے رہ گئی ہو ، اسے وہ بہرحال دیکھ لے گا ۔ لیکن اگر دیکھنے سے مراد اس کی جزا و سزا دیکھنا لیا جائے تو اس کا یہ مطلب لینا بالکل غلط ہے کہ آخرت میں ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی جزا اور ہر چھوٹی سے چھوٹی بدی کی سزا ہر شخص کو دی جائے گی ، اور کوئی شخص بھی وہاں اپنی کسی نیکی کی جزا اور کسی بدی کی سزا پانے سے نہ بچے گا ۔ کیونکہ تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ایک ایک برے عمل کی سزا اور ایک ایک اچھے عمل کی جزا الگ الگ دی جائے گی ۔ دوسرے اسکے معنی یہ بھی ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا صالح مومن بھی کسی چھوٹے سے چھوٹے قصور کی سزا پانے سے نہ بچے گا اور کوئی بدترین کافر و ظالم اور بدکار انسان بھی کسی چھوٹے سے چھوٹے اچھے فعل کا اجر پائے بغیر نہ رہے گا ۔ یہ دونوں معنی قرآن اور حدیث کی تصریحات کے بھی خلاف ہیں ، اور عقل بھی اسے نہیں مانتی کہ یہ تقاضائے انصاف ہے ۔ عقل کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات آخر کیسے سمجھ میں آنے کے قابل ہے کہ آپ کا کوئی خادم نہایت وفادار اور خدمت گزار ہو ، لیکن آپ اس کے کسی چھوٹے سے قصور کو بھی معاف نہ کریں ، اور اس کی ایک ایک خدمت کا اجر و انعام دینے کے ساتھ اس کے ایک ایک قصور کو گن گن کر ہر ایک کی سزا بھی اسے دے ڈالیں ۔ اسی طرح یہ بھی عقلا ناقابل فہم ہے کہ آپ کا پروردہ کوئی شخص جس پر آپ کے بے شمار احسانات ہوں ، وہ آپ سے غداری اور بے وفائی کرے اور آپ کے احسانات کا جواب ہمیشہ نمک حرامی ہی سے دیتا رہے ، مگر آپ اس کے مجموعی رویے کو نظر انداز کر کے اس کی ایک ایک غداری کی الگ سزا اور اس کی ایک ایک خدمت کی ، خواہ وہ کسی وقت پانی لاکر دے دینے یا پنکھا جھل دینے ہی کی خدمت ہو ، الگ جزا دیں ۔ اب رہے قرآن و حدیث تو وہ وضاحت کے ساتھ مومن ، منافق ، کافر ، مومن صالح ، مومن خطاکار ، مومن ظالم و فاسق ، محض کافر ، اور کافر مفسد و ظالم وغیرہ مختلف قسم کے لوگوں کی جزا و سزا کا ایک مفصل قانون بیان کرتے ہیں اور یہ جزا و سزا دنیا سے آخرت تک انسان کی پوری زندگی پر حاوی ہے ۔ اس سلسلے میں قرآن مجید اصولی طور پر چند باتیں بالکل وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے: اول یہ کہ کافر و مشرک اور منافق کے اعمال ( یعنی وہ اعمال جن کو نیکی سمجھا جاتا ہے ) ضائع کردیے گئے ، آخرت میں وہ ان کا کوئی اجر نہیں پاسکیں گے ، ان کا اگر کوئی اجر ہے بھی تو وہ دنیا ہی میں ان کو مل جائے گا ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الاعراف 147 ۔ التوبہ 17 ۔ 67 تا 69 ۔ ہود 15 ۔ 16 ۔ ابراہیم 18 ۔ الکہف 104 ۔ 105 ۔ النور 39 ۔ الفرقان 23 ۔ الاحزاب 19 ۔ الزمر 65 ۔ الاحقاف 20 ۔ دوم یہ کہ بدی کی سزا اتنی ہی دی جائے گی جتنی بدی ہے ، مگر نیکیوں کی جزا اصل فعل سے زیادہ دی جائے گی ، بلکہ کہیں تصریح ہے کہ ہر نیکی کا اجر اس سے 10 گنا ہے ، اور کہیں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اللہ جتنا چاہے نیکی کا اجر بڑھا کر دے ۔ ملاحظہ ہو البقرہ 261 ۔ الانعام 160 ۔ یونس 26 ۔ 27 ۔ النور 38 ۔ القصص 84 ۔ سباء 37 ۔ المومن 40 ۔ سوم یہ کہ مومن اگر بڑے گناہوں سے پرہیز کریں گے تو ان کے چھوٹے گناہ معاف کردیے جائیں گے ۔ النساء 31 ۔ الشوری 37 ۔ النجم 32 ۔ چہارم یہ کہ مومن صالح سے ہلکا حساب لیا جائے گا ، اس کی برائیوں سے درگزر کیا جائے گا اور اس کے بہترین اعمال کے لحاظ سے اس کو اجر دیا جائے گا ۔ العنکبوت 7 ۔ الزمر 35 ۔ الاحقاف 16 ۔ الانشقاق 8 ۔ احادیث بھی اس معاملہ کو بالکل صاف کردیتی ہیں ۔ اس سے پہلے ہم سورہ انشقاق کی تفسیر میں وہ احادیث نقل کرچکے ہیں جو قیامت کے روز ہلکے حساب اور سخت حساب فہمی کی تشریح کرتے ہوئے حضور نے فرمائی ہیں ( تفہیم القرآن ، جلد ششم ، الانشقاق ، حاشیہ 6 ) حضرت انس کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے ۔ اتنے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔ حضرت ابوبکر نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا میں اس ذرہ برابر برائی کا نتیجہ دیکھوں گا جو مجھ سے سرزد ہوئی ؟ حضور نے فرمایا اے ابوبکر دنیا میں جو معاملہ بھی تمہیں ایسا پیش آتا ہے جو تمہیں ناگوار ہو وہ ان ذرہ برابر برائیوں کا بدلہ ہے جو تم سے صادر ہوں ، اور جو ذرہ برابر نیکیاں بھی تمہاری ہیں انہیں اللہ آخرت میں تمہارے لیے محفوظ رکھ رہا ہے ( ابن جریر ، ابن ابی حاتم ، طبرانی فی الاوسط ، بیہقی فی الشعب ، ابن المنذر ، حاکم ، ابن مردویہ ، عبد بن حمید ) حضرت ابو ایوب انصاری سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ تم میں سے جو شخص نیکی کرے گا اس کی جزا آخرت میں ہے اور جو کسی قسم کی برائی کرے گا وہ اسی دنیا میں اس کی سزا مصائب اور امراض کی شکل میں بھگت لے گا ( ابن مردویہ ) قتادہ نے حضرت انس کے حوالہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ اللہ تعالی مومن پر ظلم نہیں کرتا ، دنیا میں اس کی نیکیوں کے بدلے وہ رزق دیتا ہے اور آخرت میں ان کی جزا دے گا ۔ رہا کافر ، تو دنیا میں اس کی بھلائیوں کا بدلہ چکا دیا جاتا ہے ، پھر جب قیامت ہوگی تو اس کے حساب میں کوئی نیکی نہ ہوگی ( ابن جریر ) مسروق حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ عبداللہ بن جدعان جاہلیت کے زمانہ میں صلح رحمی کرتا تھا ، مسکین کو کھانا کھلاتا تھا ، مہمان نواز تھا ، اسیروں کو رہائی دلواتا تھا ۔ کیا آخرت میں یہ اس کے لیے نافع ہوگا ؟ حضور نے فرمایا نہیں ، اس نے مرتے وقت تک کبھی یہ نہیں کہا کہ رب اغفرلی خطیئتی یوم الدین میرے پروردگار ، روز جزا میں میری خطا معاف کیجیو ۔ ( ابن جریر ) اسی کے جوابات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اور لوگوں کے بارے میں بھی دیے ہیں جو جاہلیت کے زمانہ میں نیک کام کرتے تھے ، مگر مرے کفر و شرک ہی کی حالت میں تھے ۔ لیکن حضور کے بعض ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کی نیکی اسے جہنم کے عذاب سے تو نہیں بچا سکتی ، البتہ جہنم میں اس کو وہ سخت سزا نہ دی جائے گی جو ظالم اور فاسق اور بدکار کافروں کو دی جائے گی ۔ مثلا حدیث میں آیا ہے کہ حاتم طائی کی سخاوت کی وجہ سے اس کو ہلکا عذاب دیا جائے گا ( روح المعانی ) تاہم یہ آیت انسان کو ایک بہت اہم حقیقت پر متنبہ کرتی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی اپنا ایک وزق اور اپنی ایک قدر رکھتی ہے ، اور یہی حال بدی کا بھی ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی بدی بھی حساب میں آنے والی چیز ہے ، یونہی نظر انداز کر دینے والی چیز نہیں ہے ۔ اس لیے کسی چھوٹی نیکی کو چھوٹا سمجھ کر اسے چھوڑنا نہیں چاہیے ، کیونکہا یسی بہت سی نیکیاں مل کر اللہ تعالی کے حساب میں ایک بہت بڑی نیکی قرار پاسکتی ہیں ، اور کسی چھوٹی سے چھوٹی بدی کا ارتکاب بھی نہ کرنا چاہیے کیونکہ اس طرح کے بہت سے چھوٹے گناہ مل کر گناہوں کا ایک انبار بن سکتے ہیں ۔ یہی بات ہے جس کو متعدد احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ۔ بخاری و مسلم میں حضرت عدی بن حاتم سے یہ روایت منقول ہے کہ حضور نے فرمایا دوزخ کی آگ سے بچو خواہ وہ کھجور کا ایک ٹکڑا دینے یا ایک اچھی بات کہنے ہی کے ذریعہ سے ہو ۔ انہی حضرت عدی سے صحیح روایت میں حضور کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ کسی نیک کام کو بھی حقیر نہ سمجھو خواہ وہ کسی پانی مانگنے والے کے برتن میں ایک ڈول ڈال دینا ہو ، یا یہی نیکی ہو کہ تم اپنے کسی بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملو ۔ بخاری میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ حضور نے عورتوں کو خطاب کر کے فرمایا اے مسلمان عورتو ، کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے ہاں کوئی چیز بھیجنے کو حقیر نہ سمجھے خواہ وہ بکری کا ایک کھر ہی کیوں نہ ہو ۔ مسند احمد ، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حضور فرمایا کرتے تھے اے عائشہ ان گناہوں سے بچی رہنا جن کو چھوٹا سمجھا جاتا ہے کیونکہ اللہ کے ہاں ان کی پرستش بھی ہونی ہے ۔ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا بیان ہے کہ حضور نے فرمایا خبردار ، چھوٹے گناہوں سے بچ کر رہنا ، کیونکہ وہ سب آدمی پر جمع ہوجائیں گے یہاں تک کہ اسے ہلاک کردیں گے ۔ ( گناہ کبیرہ اور صغیرہ کے فرق کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، النساء حاشیہ 53 ۔ جلد پنجم ، النجم حاشیہ 32 )
4: بُرائی سے مراد وہ بُرائی ہے جس سے کسی شخص نے دُنیاوی زندگی میں اس سے توبہ نہ کی ہو، کیونکہ سچی توبہ سے گناہ معاف ہو کر ایسے ہوجاتے ہیں جیسے وہ کئے ہی نہیں تھے اور سچی توبہ میں یہ بات بھی داخل ہے کہ جس گناہ کی تلافی ممکن ہو، اُس کی تلافی بھی کی جائے۔ مثلاً کسی کا حق ہے تو اسے دے دیا جائے، یا اس سے معاف کرالیا جائے، یا فرائِض چھوٹے ہیں تو ان کی قضا کرلی جائے۔