Blog
Books
Search Hadith

قصہ حجۃ الوداع

بَاب قصَّة حجَّة الْوَدَاع

6 Hadiths Found

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَثَ بِالْمَدِينَةِ تِسْعَ سِنِينَ لَمْ يَحُجَّ ثُمَّ أَذَّنَ فِي النَّاسِ بالحجِّ فِي الْعَاشِرَةِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجٌّ فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ فَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا ذَا الْحُلَيْفَةِ فَوَلَدَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ أصنعُ؟ قَالَ: «اغتسِلي واستثقري بِثَوْبٍ وَأَحْرِمِي» فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ نَاقَتُهُ عَلَى الْبَيْدَاءِ أَهَلَّ بِالتَّوْحِيدِ «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ» . قَالَ جَابِرٌ: لَسْنَا نَنْوِي إِلَّا الْحَجَّ لَسْنَا نَعْرِفُ الْعُمْرَةَ حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ اسْتَلَمَ الرُّكْنَ فَطَافَ سَبْعًا فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا ثُمَّ تَقَدَّمَ إِلَى مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ فَقَرَأَ: (وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبراهيمَ مُصَلَّى) فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَجَعَلَ الْمَقَامَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ وَفِي رِوَايَةٍ: أَنَّهُ قَرَأَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ: (قُلْ هوَ اللَّهُ أَحَدٌ و (قُلْ يَا أيُّها الكافِرونَ) ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الرُّكْنِ فَاسْتَلَمَهُ ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْبَابِ إِلَى الصَّفَا فَلَمَّا دَنَا مِنَ الصَّفَا قَرَأَ: (إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شعائِرِ اللَّهِ) أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ فَبَدَأَ بِالصَّفَا فَرَقِيَ عَلَيْهِ حَتَّى رَأَى الْبَيْتَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَوَحَّدَ اللَّهَ وَكَبَّرَهُ وَقَالَ: «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ» . ثُمَّ دَعَا بَيْنَ ذَلِكَ قَالَ مِثْلَ هَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ نَزَلَ وَمَشَى إِلَى الْمَرْوَةِ حَتَّى انْصَبَّتْ قَدَمَاهُ فِي بَطْنِ الْوَادِي ثُمَّ سَعَى حَتَّى إِذَا صَعِدْنَا مَشَى حَتَّى أَتَى الْمَرْوَةَ فَفَعَلَ عَلَى الْمَرْوَةِ كَمَا فَعَلَ عَلَى الصَّفَا حَتَّى إِذَا كَانَ آخِرُ طَوَافٍ عَلَى الْمَرْوَةِ نَادَى وَهُوَ عَلَى الْمَرْوَةِ وَالنَّاسُ تَحْتَهُ فَقَالَ: «لَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أسق الهَدْيَ وجعلتُها عُمْرةً فمنْ كانَ مِنْكُم لَيْسَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحِلَّ وَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً» . فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِأَبَدٍ؟ فَشَبَّكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَهُ وَاحِدَةً فِي الْأُخْرَى وَقَالَ: «دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ مَرَّتَيْنِ لَا بَلْ لِأَبَدِ أَبَدٍ» . وَقَدِمَ عَلِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ بِبُدْنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ: «مَاذَا قُلْتَ حِينَ فَرَضْتَ الْحَجَّ؟» قَالَ: قُلْتُ: اللهُمَّ إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أهلَّ بهِ رسولُكَ قَالَ: «فَإِنَّ مَعِي الْهَدْيَ فَلَا تَحِلَّ» . قَالَ: فَكَانَ جَمَاعَةُ الْهَدْيِ الَّذِي قَدِمَ بِهِ عَلِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ وَالَّذِي أَتَى بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَةً قَالَ: فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم وَمن كَانَ مَعَه من هدي فَمَا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ تَوَجَّهُوا إِلَى مِنًى فَأَهَلُّوا بِالْحَجِّ وَرَكِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِهَا الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالْفَجْرَ ثُمَّ مَكَثَ قَلِيلًا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ وَأَمَرَ بِقُبَّةٍ مِنْ شَعَرٍ تُضْرَبُ لَهُ بِنَمِرَةَ فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَشُكُّ قُرَيْشٌ إِلَّا أَنَّهُ وَاقِفٌ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ كَمَا كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصْنَعُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَأجَاز رَسُول الله صلى حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةَ فَنَزَلَ بِهَا حَتَّى إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ أَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ فَرُحِلَتْ لَهُ فَأَتَى بَطْنَ الْوَادِي فَخَطَبَ النَّاسَ وَقَالَ: «إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ أَضَعُ مِنْ دِمَائِنَا دَمُ ابْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ وَكَانَ مُسْتَرْضَعًا فِي بَنِي سَعْدٍ فَقَتَلَهُ هُذَيْلٌ وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ مِنْ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللَّهِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابَ اللَّهِ وَأَنْتُمْ [ص:786] تُسْأَلُونَ عَنِّي فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ؟» قَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ. فَقَالَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ: «اللَّهُمَّ اشْهَدْ اللَّهُمَّ اشْهَدْ» ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا ثُمَّ رَكِبَ حَتَّى أَتَى الْمَوْقِفَ فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ إِلَى الصَّخَرَاتِ وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَيْنَ يَدَيْهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَذَهَبَتِ الصُّفْرَةُ قَلِيلًا حَتَّى غَابَ الْقُرْصُ وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ وَدَفَعَ حَتَّى أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ فَصَلَّى بِهَا الْمَغْرِبَ وَالْعَشَاءَ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَيْنِ وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ فَصَلَّى الْفَجْرَ حِينَ تَبَيَّنَ لَهُ الصُّبْحُ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَدَعَاهُ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ وَوَحَّدَهُ فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا فَدَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ حَتَّى أَتَى بَطْنَ مُحَسِّرٍ فَحَرَّكَ قَلِيلًا ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوُسْطَى الَّتِي تَخْرُجُ عَلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الشَّجَرَةِ فَرَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ مِنْهَا مِثْلَ حَصَى الْخَذْفِ رَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بَدَنَةً بِيَدِهِ ثُمَّ أَعْطَى عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ وَأَشْرَكَهُ فِي هَدْيِهِ ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ فَطُبِخَتْ فَأَكَلَا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَاضَ إِلَى الْبَيْتِ فَصَلَّى بِمَكَّةَ الظُّهْرَ فَأَتَى عَلَى بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَسْقُونَ عَلَى زَمْزَمَ فَقَالَ: «انْزِعُوا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمُ النَّاسُ عَلَى سِقَايَتِكُمْ لَنَزَعْتُ مَعَكُمْ» . فَنَاوَلُوهُ دَلْوًا فَشَرِبَ مِنْهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ

جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں نو سال قیام فرمایا اور اس دوران حج نہ کیا ، پھر دسویں سال آپ نے لوگوں میں حج کا اعلان کرایا کہ رسول اللہ ﷺ حج کا ارادہ رکھتے ہیں ، بہت سے لوگ مدینہ پہنچ گئے ، ہم آپ کے ساتھ روانہ ہوئے حتی کہ ہم ذوالحلیفہ پہنچے تو اسماء بنت عمیس ؓ نے محمد بن ابی بکر ؓ کو جنم دیا ، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو پیغام بھیجا کہ اب میں کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ غسل کر ، کپڑے کا لنگوٹ باندھ کر احرام باندھ لے ۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے (ذوالحلیفہ) مسجد میں نماز پڑھی پھر (اونٹنی) قصواء پر سوار ہوئے حتی کہ جب آپ ﷺ کی اونٹنی آپ کو لے کر بیداء پر سیدھی کھڑی ہو گئی تو آپ ﷺ نے توحیدی تلبیہ پکارا :’’ میں حاضر ہوں ، ہر قسم کی حمد ، تمام نعمتیں اور بادشاہت تیری ہے ، تیرا کوئی شریک نہیں ۔‘‘ جابر ؓ بیان کرتے ہیں ہم نے تو صرف حج کی نیت کی تھی ، ہمیں عمرہ کا پتہ نہیں تھا ، حتی کہ ہم آپ کے ساتھ بیت اللہ میں پہنچے ، تو آپ نے حجر اسود کو چوما ، سات چکر لگائے ، تین میں رمل کیا (ذرا اکڑ کر دوڑے) اور چار میں چلے ، پھر آپ مقام ابراہیم پر آئے تو یہ آیت پڑھی :’’ مقام ابراہیم کو جائے نماز بناؤ ۔‘‘ آپ نے وہاں دو رکعتیں پڑھیں اور مقام ابراہیم ؑ کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان رکھا ۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے پہلی رکعت میں سورۂ کافرون اور دوسری میں سورۂ اخلاص پڑھی ۔ پھر آپ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے چوم کر دروازے سے نکل کر صفا کی طرف تشریف لے گئے ، جب آپ صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ‘‘ میں وہیں سے شروع کروں گا جہاں سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ، پس آپ ﷺ نے صفا سے شروع کیا اور اس پر چڑھ گئے حتی کہ آپ نے بیت اللہ دیکھا ، آپ ﷺ قبلہ رخ ہوئے تو اللہ کی توحید اور کبریائی بیان کی اور فرمایا :’’ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کے لیے ہر قسم کی حمد سزاوار ہے ۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ یکتا ہے ، اس نے اپنا وعدہ پورا فرمایا ، اپنے بندے کی نصرت فرمائی ، اور اس اکیلے نے لشکروں کو شکست دی ۔‘‘ پھر آپ نے اس دوران دعا فرمائی ، آپ نے یہ کلمات تین مرتبہ فرمائے ۔ پھر آپ نیچے اترے اور مروہ کی طرف گئے حتی کہ جب آپ وادی کے نشیب میں تیزی سے اترنے لگے تو آپ دوڑنے لگے حتی کہ جب آپ چڑھنے لگے تو آپ معمول کے مطابق چلتے گئے حتی کہ آپ مروہ پر پہنچ گئے اور آپ نے وہاں بھی ویسے ہی کیا جیسے صفا پر کیا تھا ، حتی کہ جب آپ آخری چکر میں پہنچے تو آپ مروہ پر تھے اور صحابہ آپ کے نیچے تھے ، آپ ﷺ نے وہاں سے آواز دیتے ہوئے فرمایا :’’ جس چیز کا مجھے اب پتہ چلا ہے اگر اس کا مجھے پہلے پتہ چل جاتا تو میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا اور میں اس (حج) کو عمرہ میں تبدیل کر لیتا ، جس شخص کے پاس قربانی کا جانور نہیں وہ احرام کھول دے ، اور اسے عمرہ میں بدل ڈالے ۔‘‘ سراقہ بن مالک بن جعشم ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا یہ اس سال کے لیے یا ہمیشہ کے لیے ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیں اور دو مرتبہ فرمایا :’’ عمرہ حج میں داخل ہو گیا ، اور یہ صرف ہمارے اسی سال کے لیے ہی نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے ۔‘‘ علی ؓ یمن سے نبی ﷺ کی قربانی کے لیے اونٹ لے کر تشریف لائے تو آپ ﷺ نے ان سےپوچھا :’’ جب تم نے حج کی نیت کی تھی تو کیا کہا تھا ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : میں نے کہا تھا : اے اللہ ! میں اسی چیز کا تلبیہ پکارتا ہوں جس کا تیرے رسول ﷺ نے تلبیہ پکارا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیونکہ میرے ساتھ قربانی کا جانور ہے لہذا تم احرام نہ کھولو ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، قربانیوں کے جانوروں کی وہ جماعت جو علی ؓ یمن سے لائے تھے اور وہ جنہیں نبی ﷺ ساتھ لے کر آئے تھے (یہ سب) ایک سو تھے ۔ راوی بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ اور ان صحابہ جن کے پاس قربانی کے جانور تھے ، کے سوا سب لوگوں نے احرام کھول دیے اوربال کتر لیے ، جب ترویہ (آٹھ ذوالحجہ) کا دن ہوا تو انہوں نے منیٰ کا ارادہ کیا اور حج کے لیے احرام باندھا ، نبی ﷺ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے ، آپ نے وہاں (منیٰ میں) ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء اور فجر کی نمازیں پڑھیں ، پھر تھوڑی دیر قیام فرمایا حتی کہ سورج طلوع ہو گیا ، آپ نے نمرہ میں بالوں کا بنا ہوا خیمہ لگانے کا حکم فرمایا ، پس رسول اللہ ﷺ روانہ ہوئے ، قریش کو اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ آپ قریش کے دستورِ جاہلیت کے مطابق مشعرِ حرام (مزولفہ) میں وقوف فرمائیں گے ، لیکن رسول اللہ ﷺ وہاں سے گزر کر میدانِ عرفات میں تشریف لے گئے آپ نے دیکھا کہ نمرہ میں آپ کے لیے خیمہ لگا دیا گیا ہے ، آپ وہاں اترے حتی کہ سورج ڈھل گیا تو آپ نے (اپنی اونٹنی) قصواء کے بارے میں حکم فرمایا تو اس پر پالان رکھ دیا گیا ، آپ ﷺ وادی کے نشیب (وادی عُرنہ) میں تشریف لائے اور لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :’’ بے شک تمہارا خون ، تمہارا مال تم (ایک دوسرے) پر اسی طرح حرام ہے جس طرح تمہارے آج کے دن کی ، اس مہینے کی اور تمہارے اس شہر کی حرمت ہے ۔ سن لو ! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی ہے ، جاہلیت کے خون (یعنی قتل) بھی ختم کر دیے گئے اور ہمارے خون میں سے پہلا خون جسے میں ختم کر رہا ہوں وہ ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے ، اور وہ بنو سعد قبیلے میں دودھ پی رہا تھا کہ قبیلہ ہذیل نے اسے قتل کر دیا ، اور جاہلیت کا سود ختم کر دیا گیا ، اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کر رہا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب (رضی اللہ عنہ) کا ہے ، وہ مکمل طور پر ختم ہے ، عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو ، تم نے انہیں اللہ کی امان و عہد کے ساتھ حاصل کیا ہے ، اور اللہ کے کلمے کے ذریعے انہیں حلال کیا ہے ، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر (مسکن) پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں ، جسے تم ناپسند کرتے ہو ، لیکن اگر وہ ایسے کریں تو پھر تم انہیں ہلکی سی ضرب مار سکتے ہو ، اور میں تم میں ایک ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تو پھر تم گمراہ نہیں ہونگے ، اور وہ ہے اللہ کی کتاب ۔ اور تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا تو تم کیا کہو گے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے پہنچا دیا ، حق ادا کر دیا اور خیر خواہی فرمائی ۔ آپ ﷺ نے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور اسے لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا :’’ اے اللہ ! گواہ رہنا ، اے اللہ ! گواہ رہنا ۔‘‘ پھر بلال ؓ نے اذان دی اور پھر اقامت کہی تو آپ ﷺ نے ظہر پڑھائی ، پھر اقامت کہی تو آپ نے عصر پڑھائی ، اور آپ نے ان دونوں (نمازوں) کے درمیان کوئی نماز نہ پڑھی ، پھر آپ سواری پر سوار ہوئے حتی کہ وقوف کی جگہ پر تشریف لے گئے ، آپ نے اپنی اونٹنی قصواء کا پیٹ چٹانوں کی جانب کیا ، اور جبل المشاۃ (پیدل چلنے والوں کی راہ میں واقع ریتلے تودے) کو اپنے سامنے کیا ، اور قبلہ رخ مسلسل وقوف فرمایا حتی کہ سورج غروب ہونے لگا ، تھوڑی سی زردی رہ گئی حتی کہ سورج کی ٹکیہ غائب ہو گئی ، آپ ﷺ نے اسامہ ؓ کو پیچھے بٹھایا اور وہاں سے چلے حتی کہ مزدلفہ تشریف لے آئے ، آپ نے وہاں ایک اذان اور دو اقامت سے مغرب اور عشا کی نمازیں پڑھیں اوران دونوں کے درمیان کوئی نفل نماز نہیں پڑھی ، پھر آپ لیٹ گئے حتی کہ فجر پڑھی ، پھر قصواء پر سوار ہوئے اور مشعرِ حرام تشریف لائے ، قبلہ رخ ہو کر اس (اللہ) سے دعا کی اس کی تکبیر و تہلیل اور توحید بیان کی ، آپ مسلسل کھڑے رہے حتی کہ خوب اجالا ہو گیا ، آپ طلوع آفتاب سے پہلے وہاں سے چل دیے ، آپ نے فضل بن عباس ؓ کو اپنے پیچھے سوار کیا اور آپ وادی محسر پہنچے تو سواری کو تھوڑا سا تیز کیا ، پھر درمیانی راستے پر ہو لیے جو کہ جمرہ عقبی پر نکلتا تھا ، حتی کہ آپ اس جمرہ کے پاس پہنچے جس کے پاس درخت تھا ، آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں ، آپ ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے تھے ، ان میں سے ہر کنکری ایسی تھی جسے چٹکی میں لے کر چلایا جا سکتا تھا ، آپ نے یہ کنکریاں وادی کے نشیب سے ماریں ، پھر آپ قربان گاہ تشریف لے گئے ، آپ نے تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے ذبح کیے ، پھر آپ نے یہ فریضہ علی ؓ کو سونپ دیا تو باقی اونٹ انہوں نے ذبح کیے ، اور آپ نے انہیں بھی اپنی قربانی میں شریک کیا ، پھر آپ نے حکم فرمایا اور ہر اونٹ سے ایک ایک ٹکڑا کاٹ کر ہنڈیا میں ڈال کر پکایا گیا ، آپ دونوں (رسول اللہ ﷺ اور حضرت علی ؓ) نے اس گوشت میں سے کچھ کھایا اور اس کا شوربا پیا ۔ پھر رسول اللہ ﷺ سواری پر سوار ہوئے اور طواف افاضہ کیا ، نماز ظہر مکہ میں پڑھی ، پھر آپ بنو عبدالمطلب کے پاس تشریف لے گئے جو زم زم پلا رہے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ عبدالمطلب کی اولاد ، پانی نکالو ، اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تمہارے پانی پلانے کے اس کام میں لوگ تم پر غالب آ جائیں گے تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی کھینچتا ۔‘‘ انہوں نے آپ کو ایک ڈول پانی دیا تو آپ ﷺ نے اس میں سے نوش فرمایا ۔ رواہ مسلم ۔

Haidth Number: 2555

وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَلَمْ يُهْدِ فَلْيَحْلِلْ وَمَنْ أَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ وَأَهْدَى فَلْيُهِلَّ بِالْحَجِّ مَعَ العُمرةِ ثمَّ لَا يحل حَتَّى يحل مِنْهَا» . وَفِي رِوَايَةٍ: «فَلَا يَحِلُّ حَتَّى يَحِلَّ بِنَحْرِ هَدْيِهِ وَمَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ فَلْيُتِمَّ حَجَّهُ» . قَالَتْ: فَحِضْتُ وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ وَلَا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَلَمْ أَزَلْ حَائِضًا حَتَّى كَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ وَلَمْ أُهْلِلْ إِلَّا بِعُمْرَةٍ فَأَمَرَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَنْقُضَ رَأْسِي وَأَمْتَشِطَ وَأُهِلَّ بِالْحَجِّ وَأَتْرُكَ الْعُمْرَةَ فَفَعَلْتُ حَتَّى قَضَيْتُ حَجِّي بَعَثَ مَعِي عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ وَأَمَرَنِي أَنْ أَعْتَمِرَ مَكَانَ عُمْرَتِي مِنَ التَّنْعِيمِ قَالَتْ: فَطَافَ الَّذِينَ كَانُوا أَهَلُّوا بِالْعُمْرَةِ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ حَلُّوا ثمَّ طافوا بَعْدَ أَنْ رَجَعُوا مِنْ مِنًى وَأَمَّا الَّذِينَ جَمَعُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَإِنَّمَا طَافُوا طَوَافًا وَاحِدًا

عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، حجۃ الوداع کے موقع پر ہم نبی ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے ، ہم میں ایسے تھے جنہوں نے عمرہ کے لیے احرام باندھا ، اور ہم میں بعض نے حج کے لیے احرام باندھا ، جب ہم مکہ پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے عمرہ کے لیے احرام باندھا اور وہ قربانی کا جانور ساتھ نہیں لایا تو وہ احرام کھول دے اور جس شخص نے عمرہ کے لیے احرام باندھا اور وہ قربانی کا جانور ساتھ لایا ہے تو وہ عمرے کے ساتھ حج کے احرام کی نیت کر لیں ، پھر وہ احرام نہ کھولے حتی کہ وہ ان دونوں سے فارغ ہو جائے ۔‘‘ اور ایک دوسری روایت میں ہے :’’ وہ احرام نہ کھولے حتی کہ اپنی قربانی سے فارغ ہو جائے ، اور جس شخص نے حج کا احرام باندھا تھا تو وہ اپنا حج مکمل کرے ۔‘‘ وہ فرماتی ہیں ، مجھے حیض آ گیا لہذا میں نے بیت اللہ کا طواف کیا نہ صفا مروہ کی سعی کی ، اور میں عرفہ کے دن (نو ذوالحجہ) تک حالت حیض میں رہی ، میں نے تو عمرہ کے لیے احرام باندھا تھا ، لیکن نبی ﷺ نے مجھے فرمایا کہ میں اپنے سر کے بال کھول کر کنگھی کروں اور حج کے لیے احرام باندھوں ، اور میں عمرہ ترک کر دوں ۔‘‘ میں نے ایسے ہی کیا حتی کہ میں نے اپنا حج پورا کیا ، پھر آپ نے (میرے بھائی) عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ کو میرے ساتھ بھیجا اور مجھے حکم فرمایا کہ میں اپنے عمرے کی جگہ تنعیم سے عمرہ کروں ۔ آپ ؓ بیان کرتی ہیں ، جن لوگوں نے عمرہ کے لیے احرام باندھا تھا انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کی سعی کی ، پھر انہوں نے احرام کھول دیا ، پھر انہوں نے منیٰ سے واپس آنے کے بعد ایک طواف کیا ، رہے وہ لوگ جنہوں نے حج اور عمرہ اکٹھا کیا تو انہوں نے ایک ہی طواف کیا ۔ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 2556

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: تَمَتَّعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَسَاقَ مَعَهُ الْهَدْيَ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ وَبَدَأَ فَأَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ ثُمَّ أَهَلَّ بِالْحَجِّ فَتَمَتَّعَ النَّاسُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَكَانَ مِنَ النَّاسِ مَنْ أَهْدَى وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ يُهْدِ فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ قَالَ لِلنَّاسِ: «مَنْ كَانَ مِنْكُمْ أَهْدَى فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَجَّهُ وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مِنْكُمْ أَهْدَى فَلْيَطُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَلْيُقَصِّرْ وَلْيَحْلِلْ ثُمَّ لِيُهِلَّ بِالْحَجِّ وليُهد فمنْ لم يجدْ هَديا فيلصم ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةً إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ» فَطَافَ حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ وَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ أَوَّلَ شَيْءٍ ثُمَّ خَبَّ ثَلَاثَةَ أَطْوَافٍ وَمَشَى أَرْبَعًا فَرَكَعَ حِينَ قَضَى طَوَافَهُ بِالْبَيْتِ عِنْدَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ فَانْصَرَفَ فَأَتَى الصَّفَا فَطَافَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ سَبْعَةَ أَطْوَافٍ ثُمَّ لَمْ يَحِلَّ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى قَضَى حَجَّهُ وَنَحَرَ هَدْيَهُ يَوْمَ النَّحْرِ وَأَفَاضَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ ثُمَّ حَلَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ وَفَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَاقَ الْهَدْي من النَّاس

عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر حج کے ساتھ عمرہ ملایا تھا ، آپ ذوالحلیفہ سے قربانی کا جانور اپنے ساتھ لے گئے تھے ، آپ نے پہلے عمرہ کا احرام باندھا ، پھر حج کا احرام باندھا ، تو صحابہ کرام ؓ نے بھی نبی ﷺ کے ساتھ حج کو عمرے کے ساتھ ملا کر فائدہ حاصل کیا ، کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو قربانی کے جانور اپنے ساتھ لے کر گئے اور ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو قربانی کے جانور ساتھ نہیں لائے تھے ، جب نبی مکہ پہنچے تو آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا :’’ تم میں سے جو شخص قربانی کا جانور ساتھ لایا ہے تو اس کے لیے کوئی چیز حلال نہیں جو اس پر حرام تھی حتی کہ وہ اپنا حج پورا کر لے ، اور جو شخص قربانی کا جانور ساتھ نہیں لایا تو وہ بیت اللہ کا طواف کرے ، صفا مروہ کی سعی کرے ، بال کٹوا کر احرام کھول دے ، پھر (حج کے موقع پر) حج کے لیے احرام باندھے ، اور قربانی کرے ، تو جو شخص قربانی کا جانور نہ پائے تو وہ تین روزے ایام حج میں اور سات روزے اپنے گھر پہنچ کر رکھے ۔‘‘ جب آپ ﷺ مکہ پہنچے تو آپ نے طواف کیا اور سب سے پہلے حجر اسود کو چوما ، پھر آپ نے تین چکر دوڑ کر لگائے اور چار چکر معمول کی چال چل کر لگائے ، جب آپ طواف مکمل کر چکے تو آپ نے مقام ابراہیم کے پاس دو رکعتیں پڑھیں ، پھر آپ نے صفا و مروہ کے درمیان سعی کے سات چکر لگائے ، پھر آپ پر ان چیزوں میں سے کوئی بھی چیز حلال نہیں ہوئی تھی جو آپ پر حرام تھی حتی کہ آپ نے اپنا حج مکمل کیا اور قربانی کے دن قربانی کی اور بیت اللہ شریف پہنچ کر طوافِ افاضہ کیا ، پھر آپ کے لیے وہ تما م چیزیں حلال ہو گئیں جو آپ پر حرام ہوئیں تھیں ، اور جو لوگ قربانی کے جانور ساتھ لائے تھے انہوں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے رسول اللہ ﷺ نے کیا ۔ متفق علیہ ۔

Haidth Number: 2557
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ عمرہ ہے جس سے ہم نے فائدہ اٹھایا ، اور جس شخص کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو تو اس کے لیے تمام چیزیں حلال ہوں گی ، کیونکہ عمرہ روز قیامت تک کے لیے حج میں داخل ہو چکا ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

Haidth Number: 2558

عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فِي نَاسٍ مَعِي قَالَ: أَهْلَلْنَا أَصْحَابَ مُحَمَّد بِالْحَجِّ خَالِصًا وَحْدَهُ قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ جَابِرٌ: فَقَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُبْحَ رَابِعَةٍ مَضَتْ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ فَأَمَرَنَا أَنْ نَحِلَّ قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ: «حِلُّوا وَأَصِيبُوا النِّسَاءَ» . قَالَ عَطَاءٌ: وَلَمْ يَعْزِمْ عَلَيْهِمْ وَلَكِنْ أَحَلَّهُنَّ لَهُمْ فَقُلْنَا لَمَّا لَمْ يَكُنْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلَّا خَمْسٌ أَمَرَنَا أَنْ نُفْضِيَ إِلَى نِسَائِنَا فَنَأْتِيَ عرَفَةَ تَقْطُرُ مَذَاكِيرُنَا الْمَنِيَّ. قَالَ: «قَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي أَتْقَاكُمْ لِلَّهِ وَأَصْدَقُكُمْ وَأَبَرُّكُمْ وَلَوْلَا هَدْيِي لَحَلَلْتُ كَمَا تَحِلُّونَ وَلَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقِ الْهَدْيَ فَحِلُّوا» فَحَلَلْنَا وَسَمِعْنَا وَأَطَعْنَا قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ جَابِرٌ: فَقَدِمَ عَلِيٌّ مِنْ سِعَايَتِهِ فَقَالَ: بِمَ أَهْلَلْتَ؟ قَالَ بِمَا أَهَلَّ بِهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَأَهْدِ وَامْكُثْ حَرَامًا» قَالَ: وَأَهْدَى لَهُ عَلِيٌّ هَدْيًا فَقَالَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ألعامنا هَذَا أم لأبد؟ قَالَ: «لأبد» . رَوَاهُ مُسلم

عطاء ؒ بیان کرتے ہیں، میں نے جابر بن عبداللہ ؓ کو اپنے ساتھ بہت سے لوگوں میں سنا ، انہوں نے فرمایا : ہم محمد ﷺ کے صحابہ نے صرف اکیلے حج ہی کا احرام باندھا تھا ، عطاء بیان کرتے ہیں ، جابر ؓ نے فرمایا : نبی ﷺ چار ذوالحجہ کو مکہ تشریف لائے تو آپ نے ہمیں احرام کھولنے کا حکم فرمایا : عطاء بیان کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ احرام کھول دو اور اپنی بیویوں کے پاس جاؤ ۔‘‘ عطاء ؒ بیان کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے اس بات (عورتوں کے پاس جانے) کو ان پر واجب قرار نہیں دیا تھا ، بلکہ ان (عورتوں) کو ان کے لیے مباح قرار دیا تھا ۔ ہم نے عرض کیا ، ہمارے میدانِ عرفات میں جانے میں صرف پانچ دن باقی رہ گئے ، تو آپ نے ہمیں اپنی بیویوں کے پاس جانے (یعنی جماع کرنے) کا حکم فرمایا ، اور جب ہم میدانِ عرفات پہنچیں تو (گویا کہ) ہماری شرم گاہیں منی گرا رہی ہوں ۔ عطاء ؒ بیان کرتے ہیں ، جابر ؓ اپنے ہاتھ سے اشارہ کر رہے تھے گویا میں اِن کے ہاتھ کے اشارے کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اسے حرکت دے رہے ہیں ، راوی بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ ہم میں کھڑے ہوئے تو فرمایا :’’ تم جانتے ہو کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں ، تم سب سے زیادہ سچا اور تم سب سے زیادہ نیکوکار ہوں ، اگر میرے ساتھ میری قربانی کا جانور نہ ہوتا تو میں بھی تمہاری طرح احرام کھول دیتا ، اگر وہ بات جو مجھے اب معلوم ہوئی ہے وہ پہلے معلوم ہو جاتی تو میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا ، تم احرام کھول دو ۔‘‘ تو ہم نے احرام کھول دیا اور ہم نے سمع و اطاعت اختیار کی ، عطاء بیان کرتے ہیں ، جابر ؓ نے فرمایا : علی ؓ صدقات کی وصولی کے بعد وہاں (مکہ) پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم نے کس نیت سے احرام باندھا تھا ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : جس نیت سے نبی ﷺ نے احرام باندھا تھا ، تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا :’’ قربانی کرنا اور حالت احرام میں رہو ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، علی ؓ اپنے لیے قربانی کا جانور ساتھ لائے تھے ۔ سراقہ بن مالک بن جعشم ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا یہ اسی سال کے لیے ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہمیشہ کے لیے ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

Haidth Number: 2559
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ چار یا پانچ ذوالحجہ کو مکہ پہنچے تھے ، آپ میرے پاس تشریف لائے تو آپ غصہ کی حالت میں تھے ۔ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! آپ کو کس نے ناراض کیا ہے ؟ اللہ اسے جہنم میں داخل فرمائے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے لوگوں کو ایک کام کا حکم دیا ہے جبکہ وہ تردد کا شکار ہیں ۔ جس چیز کا مجھے اب پتہ چلا ہے اگر اس کا مجھے پہلے پتہ چل جاتا تو میں قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہ لاتا حتی کہ میں اسے یہاں سے خرید لیتا ، پھر میں بھی احرام کھول دیتا جیسے انہوں نے احرام کھولا ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

Haidth Number: 2560