ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے بنو لحیان کی ایک عورت کے حمل کے مردہ حالت میں ساقط ہو جانے پر ایک غلام یا لونڈی کا فیصلہ کیا تھا ، پھر وہ عورت جس کے متعلق آپ ﷺ نے غلام کا فیصلہ کیا تھا وہ فوت ہو گئی تو رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ دیا کہ اس کی میراث اس کے بیٹوں اور اس کے شوہر کے لیے ہے جبکہ اس کی دیت اس کے عصبہ پر ہے ۔ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ہذیل قبیلے کی دو عورتیں لڑ پڑیں تو ان میں سے ایک نے دوسری پر پتھر مارا اور اسے اور اس کے جنین (پیٹ کے بچے) کو قتل کر دیا ، رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ دیا کہ اس کے جنین کی دیت ایک غلام یا ایک لونڈی ہے اور عورت کی دیت اس کے خاندان (عورت کے باپ کی طرف سے رشتہ دار عصبہ) پر ہے ۔ اور آپ ﷺ نے اس کی اولاد اور جو ان کے ساتھ ہیں ان کو اس کا وارث بنایا ۔ متفق علیہ ۔
مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ دو عورتیں سوتن تھیں ، ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر یا خیمے کا بانس مارا تو اس کا جنین (پیٹ کا بچہ) گر گیا ، تو رسول اللہ ﷺ نے جنین کے بارے میں غلام یا لونڈی کا فیصلہ دیا اور اسے اس عورت کے عصبہ پر مقرر فرمایا ۔ یہ ترمذی کی روایت ہے ۔ اور مسلم کی روایت میں ہے : عورت نے اپنی سوتن کو جو کہ حاملہ تھی ، خیمے کا بانس مارا تو اس نے اسے قتل کر دیا ، اور کہا : ان میں سے ایک لحیانیہ تھی ، راوی بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے مقتولہ کی دیت قاتلہ کے عصبہ (رشتہ داروں) پر مقرر فرمائی اور جو اس (مقتولہ) کے پیٹ میں تھا اس کی دیت ایک غلام مقرر کی ۔ صحیح ، رواہ الترمذی و مسلم ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ سن لو ! خطا کی دیت ، شبہ عمد کی دیت کے مثل ہے ، جو کوڑے اور لاٹھی سے ہو ، اس کی (دیت) سو اونٹ ہے ، جن میں سے چالیس حاملہ ہوں گی ۔‘‘ حسن ، رواہ النسائی و ابن ماجہ و الدارمی ۔
اور ابوداؤد نے ان (عبداللہ بن عمرو ؓ) سے اور ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے ، اور شرح السنہ میں مصابیح کے الفاظ صرف ابن عمر ؓ سے مروی ہیں ۔ سندہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد و البغوی فی شرح السنہ ۔
ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل یمن کے نام خط لکھا اور آپ ﷺ کے خط میں تھا :’’ جس نے کسی مسلمان کو عمداً ناحق قتل کیا تو اس کا قصاص اس کے ہاتھ کے عمل کی وجہ سے ہے ، مگر یہ کے مقتول کے اولیاء (ورثاء) راضی ہو جائیں ۔‘‘ اور اس (خط) میں یہ بھی تھا :’’ آدمی کو عورت کے بدلے میں قتل کیا جائے گا ۔‘‘ اور اس میں تھا :’’ کسی جان کی دیت سو اونٹ ہے ۔ اور سونے والوں پر ایک ہزار دینار ، اور ناک کی دیت جب اسے مکمل طور پر کاٹ دیا جائے ، سو اونٹ ہے ۔ دانتوں کے بارے میں دیت ہے ، ہونٹوں کے بارے میں دیت ہے ، فوطوں کے بارے میں دیت ہے ، شرم گاہ کے بارے میں دیت ہے ۔ کمر کے بارے میں دیت ہے ۔ آنکھوں کے بارے میں دیت ہے ۔ ایک پاؤں کی نصف دیت ہے ، دماغ کی جھلی تک پہنچنے والے زخم پر ایک تہائی دیت ہے ۔ پیٹ کے اندر پہنچنے والے زخم میں ایک تہائی دیت ہے ۔ ہڈی کو جگہ سے ہٹا دینے والے زخم میں پندرہ اونٹ دیت ہے ۔ ہاتھ اور پاؤں کی ہر انگلی میں دس اونٹ دیت ہے ۔ اور دانت کی دیت پانچ اونٹ ہے ۔‘‘ نسائی ، دارمی ۔ اور امام مالک ؒ کی روایت میں ہے :’’ آنکھ میں پچاس ، ہاتھ میں پچاس ، پاؤں میں پچاس اور ہڈی ظاہر کرنے والے زخم پر پانچ اونٹ دیت ہے ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ النسائی و الدارمی و مالک ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے ہڈی ظاہر کرنے والے زخم میں اور ہر دانت میں پانچ پانچ اونٹ دیت مقرر کی ہے ۔‘‘ ابوداؤد ، نسائی ، دارمی ، جبکہ ترمذی اور ابن ماجہ نے پہلا جملہ نقل کیا ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و النسائی و الدارمی و الترمذی و ابن ماجہ ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ (دیت کے بارے میں) تمام انگلیاں برابر ہیں ، تمام دانت برابر ہیں ، سامنے والے دانت اور داڑھیں برابر ہیں ، یہ اور یہ (چھنگلی اور انگوٹھا) برابر ہیں ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے سال خطبہ ارشاد فرمایا تو فرمایا :’’ لوگو ! اسلام میں کوئی نیا معاہدہ نہیں ، اور دورِ جاہلیت میں جو معاہدہ تھا اسلام اس میں اضافہ نہیں کرتا البتہ اسے مضبوط کرتا ہے ، مومن دشمن کے مقابلے میں باہم دستِ واحد کی طرح ہیں ایک ادنیٰ مسلمان بھی کسی کافر کو پناہ دے سکتا ہے اور ان میں سے جو دوردراز ہے وہ بھی ان تک پہنچاتا ہے ، اور ان کے لشکر جہاد میں شریک نہ ہونے والوں کو بھی مال غنیمت میں شریک کرتے ہیں ۔ کسی مومن کو کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا ، کافر کی دیت ، مسلمان کی دیت سے نصف ہے ، زکوۃ وصول کرنے والا نہ اپنے پاس زکوۃ منگائے اور نہ زکوۃ دینے والے اپنا مال دور لے جائیں اور ان کے صدقات ان کے گھروں ہی سے وصول کیے جائیں ۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے :’’ ذمی کی دیت ، آزاد آدمی کی دیت کے نصف ہے ۔‘‘ حسن ، رواہ احمد و ابوداؤد ۔
خِشف بن مالک ، ابن مسعود ؓ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے خطا کی دیت بیس ’’ بنت مخاض ‘‘ ، بیس ’’ ابن مخاض ’’ نر ‘‘ ، بیس ’’ بنت لبون ‘‘ ، بیس ’’ جذعہ ‘‘ اور بیس ’’ حقہ ‘‘ مقرر فرمائی ۔ ترمذی ، ابوداؤد ، نسائی ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی ۔
اور صحیح یہ ہے کہ یہ ابن مسعود ؓ پر موقوف ہے ۔ جبکہ خشف مجہول ہے ۔ اس سے صرف یہی ایک روایت مروی ہے ۔ اور شرح السنہ میں روایت ہے کہ نبی ﷺ نے خیبر کے ایک مقتول کی صدقہ کے اونٹوں میں سے سو اونٹ دیت ادا کی ، اور صدقہ کے اونٹوں میں ’’ ابن مخاض ‘‘ نہیں تھا ۔ ان میں صرف ’’ ابن لبون ‘‘ تھے ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کے عہد میں دیت کی قیمت آٹھ سو دینار تھی یا اٹھ ہزار درہم تھی ، اور ان دنوں اہل کتاب کی دیت مسلمانوں کی دیت سے نصف تھی انہوں نے مزید فرمایا : دیت کا معاملہ اسی طرح تھا حتی کہ عمر ؓ خلیفہ بنے تو عمر ؓ نے خطبہ ارشاد فرمایا کہ اونٹ مہنگے ہو گئے ہیں ، راوی بیان کرتے ہیں ، کہ عمر ؓ نے سونے والوں پر ہزار دینار ، چاندی والوں پر بارہ ہزار درہم ، گائے والوں پر دو سو گائیں ، بکریوں والوں پر دو ہزار بکریاں ، جوڑے (سوٹ) والوں پر دو سو جوڑے مقرر فرمائے ، راوی بیان کرتے ہیں ، آپؓ نے ذمیوں کی دیت چھوڑ دی ، اور جب انہوں نے دیت بڑھائی تو اسے نہ بڑھایا ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ دیہاتیوں پر دیت خطا چار سو دینار یا اس کے مساوی چاندی مقرر فرمایا کرتے تھے ۔ اور اس میں اونٹوں کی قیمت کا لحاظ رکھتے تھے ۔ جب (اونٹوں کی) قیمت بڑھ جاتی تو آپ ﷺ اس (دیت) کی قیمت بڑھا دیتے تھے ، اور جب ان کی قیمت کم ہو جاتی تو آپ اس دیت کی قیمت کم کر دیتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے عہد میں دیت کی قیمت چار سو دینار سے آٹھ سو دینار تک پہنچ گئی تھی ۔ اور چاندی سے اس کے مساوی آٹھ ہزار درہم تک پہنچ گئی تھی ، راوی بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے گائے والوں پر دو سو گائیں اور بکریوں والوں پر دو ہزار بکریاں دیت مقرر فرمائی ۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک دیت مقتول کے ورثاء کے درمیان میراث ہے ۔‘‘ اور رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ عورت کی دیت اس کے عصبہ پر ہے ، اور قاتل کسی چیز کا وارث نہیں بنے گا ۔ حسن ، رواہ ابوداؤد و النسائی ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ شبہ عمد کی دیت ، دیت عمد کی طرح مغلظہ ہے اور اس (شبہ عمد) کے مرتکب کو قتل نہیں کیا جائے گا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے اپنی جگہ پر ثابت رہ جانے والی آنکھ کی ایک تہائی دیت مقرر فرمائی ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و النسائی ۔
محمد بن عمرو نے ابوسلمہ اور انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے جنین (پیٹ کے بچے) کے بارے میں غلام یا لونڈی یا گھوڑا یا خچر بطور دیت مقرر فرمایا ۔ ابوداؤد نے اسے روایت کیا اور فرمایا : حماد بن سلمہ اور خالد واسطی نے یہ حدیث محمد بن عمرو سے روایت کی اور انہوں نے گھوڑے یا خچر کا ذکر نہیں کیا ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص علاج معالجہ کرے جبکہ وہ طب میں ماہر نہ ہو تو وہ (مریض کی موت واقع ہونے پر دیت کا) ضامن ہو گا ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد و النسائی ۔
عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ غریب لوگوں کے غلام نے امیر لوگوں کے غلام کا کان کاٹ دیا تو اس (کان کاٹنے والے غلام) کے گھر والے ، نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا ، ہم فقیر لوگ ہیں ، تو آپ ﷺ نے ان پر (دیت میں سے) کچھ بھی مقرر نہ فرمایا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد و النسائی ۔
علی ؓ سے روایت ہے کہ ’’ شبہ عمد کی دیت تین قسم (کے اونٹوں) پر مشتمل ہے : تینتیس حِقَّہ (تین سال مکمل کرنے کے بعد چوتھے سال میں داخل اونٹ) تینتیس جذعہ (پانچویں سال میں داخل) چونتیس (چھٹے سال میں داخل ہونے والی اونٹنیاں) اور وہ سب حاملہ ہوں ۔‘‘ اور ایک دوسری روایت میں ہے فرمایا :’’ قتل خطا کی دیت چار قسم کی اونٹنیاں ہیں : پچیس حِقہ ، پچیس جذعہ ، پچیس بنات لبون اور پچیس بنات مخاض ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
مجاہد بیان کرتے ہیں ، عمر ؓ نے شبہ عمد میں تیس حقہ ، تیس جذعہ اور چالیس حاملہ اونٹنیوں کا فیصلہ کیا جو کہ چھ سال سے نو سال کی عمر کے درمیان ہوں اور وہ تمام حاملہ ہوں ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
سعید بن مسیّب ؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جنین کے بارے میں جسے اس کی ماں کے پیٹ میں قتل کیا جائے ، ایک غلام یا ایک لونڈی کی دیت کا فیصلہ کیا تو آپ ﷺ سے جس کے خلاف فیصلہ کیا تھا اس نے کہا : میں اس کی دیت کیسے ادا کروں جس نے نہ پیا ، نہ کھایا اور اس سے کلام کیا نہ کوئی چیخ ماری ۔ اور اس طرح وہ اس قتل کو رائیگاں قرار دیتا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ تو کاہنوں کا ساتھی ہے ۔‘‘ مالک ۔ نسائی نے اسے مرسل روایت کیا ہے ۔ صحیح ، رواہ مالک و النسائی ۔