جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی نے نبی ﷺ سے غزوہ احد کے روز عرض کیا : مجھے بتائیں کہ اگر میں قتل کر دیا جاؤں تو کہاں ہوں گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جنت میں ۔‘‘ اس نے وہ کھجوریں ، جو کہ اس کے ہاتھ میں تھیں ، پھینک دیں ، پھر قتال کیا حتی کہ شہید کر دیا گیا ۔ متفق علیہ ۔
کعب بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کسی غزوہ کا ارادہ فرماتے تو آپ اس کے علاوہ کسی اور کا توریہ فرمایا کرتے تھے لیکن جب یہ غزوہ یعنی غزوہ تبوک ہوا جسے رسول اللہ ﷺ نے سخت گرمی میں لڑا ، اس میں آپ کو دور دراز کا سفر ، بے آب و گیاہ راستوں اور بہت زیادہ دشمنوں کا سامنا تھا لہذا آپ ﷺ نے مسلمانوں کے لیے ان کے معاملے کو واضح کر دیا تاکہ وہ اپنے غزوہ کے لیے خوب تیاری کر لیں ، آپ ﷺ نے جس سمت جانا تھا وہ انہیں بتا دی ۔ رواہ البخاری ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، جب رسول اللہ ﷺ جہاد کے لیے جاتے تو ام سلیم ؓ اور انصار کی کچھ عورتیں آپ ﷺ کے ساتھ جہاد کے لیے جاتیں وہ پانی پلاتیں اور زخمیوں کا علاج کرتی تھیں ۔ رواہ مسلم ۔
ام عطیہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی ، میں اِن کے سامان کے پاس رہا کرتی تھی ، اِن کے لیے کھانا تیار کرتی ، زخمیوں کا علاج کرتی اور مریضوں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی ۔ رواہ مسلم ۔
صعب بن جثامہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ سے محلوں میں رہنے والے مشرکین کے بارے میں دریافت کیا گیا جن پر شب خون مارا جائے جس میں ان کی عورتیں اور ان کے بچے ہلاک ہو جائیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ بھی انہیں کے حکم میں ہیں ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ وہ اپنے آباء کے تابع ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت کاٹے اور جلائے ، حسان ؓ نے اس کے متعلق شعر کہا :’’ بنولؤی کے سرداروں کے لیے بویرہ پر (کھجوروں کے درختوں کو) جلانا آسان ہوا جو کہ پھیلا ہوا تھا ۔‘‘ اور اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی :’’ تم نے کھجور کے جو درخت کاٹ ڈالے یا انہیں ان کے تنوں پر قائم رہنے دیا وہ (سب) اللہ کے حکم سے تھا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عبداللہ بن عون ؓ سے روایت ہے کہ (ابن عمر ؓ کے آزاد کردہ غلام) نافع ؒ نے انہیں خط لکھا جس میں انہوں نے انہیں (یعنی مجھے) یہ بتایا کہ ابن عمر ؓ نے انہیں (یعنی نافع کو) خبر دی کہ نبی ﷺ نے بنو مصطلق پر اس وقت حملہ کیا جب وہ مریسیع کے مقام پر اپنے مویشیوں میں غافل تھے ، آپ ﷺ نے جنگجوؤں کو قتل کیا اور بچوں کو قیدی بنایا ۔ متفق علیہ ۔
ابواسید ؓ سے روایت ہے کہ جب غزوہ بدر کے موقع پر ہم اور قریش ایک دوسرے کے سامنے صف آراء ہوئے تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ جب وہ تمہارے قریب آ جائیں تو تم ان پر تیر برساؤ ، اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب وہ تمہارے قریب آ جائیں تو تم ان پر تیر برساؤ اور کچھ تیر اپنے پاس محفوظ رکھو ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
اور سعد ؓ سے مروی حدیث :’’ تمہاری مدد نہیں کی جاتی ...... ‘‘ ہم عنقریب باب فضل الفقراء میں ذکر کریں گے ، اور براء ؓ سے مروی حدیث ’’رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا .....‘‘ باب المعجزات میں ان شاء اللہ تعالیٰ ذکر کریں گے ۔
مہلّب ؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر دشمن تم پر شب خون مارے تمہارا شعار (کوڈ ورڈ) یہ ہونا چاہیے : حٰمٓ لَا یُنْصَرُوْنَ ۔‘‘ صحیح ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
سلمہ بن اکوع ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم نے نبی ﷺ کے دور میں ابوبکر ؓ کی معیت میں جہاد کیا ، ہم نے ان پر شب خون مارا ، ہم انہیں قتل کرتے ، اور اس رات ہمارا شعار تھا : أَمِتْ ، أَمِتْ یعنی مارو ، مارو ۔ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
سمرہ بن جندب ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مشرکین کے بوڑھوں کو قتل کرو اور ان کے بچوں کو زندہ رکھو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
عروہ ؒ بیان کرتے ہیں ، اسامہ ؓ نے مجھے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے وصیت کرتے ہوئے فرمایا :’’ اُبنٰی پر صبح کے وقت حملہ کر اور (ان کی کھیتیاں اور درخت) جلا دے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
ابواُسید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے غزوہ بدر کے موقع پر فرمایا :’’ جب وہ تمہارے قریب آ جائیں تو پھر ان پر تیر چلاؤ اور جب تک وہ تمہارے بہت قریب نہ آ جائیں تلواریں نہ سونتو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
رباح بن ربیع ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ، آپ نے لوگوں کو کسی چیز کے گرد جمع دیکھا تو آپ ﷺ نے ایک آدمی بھیجا اور فرمایا : دیکھ وہ لوگ کس لیے جمع ہیں ؟‘‘ وہ آیا تو اس نے عرض کیا : ایک مقتولہ عورت کے گرد جمع ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ تو جنگجو نہ تھی ۔‘‘ ہر اول دستے پر خالد بن ولید ؓ تھے ، آپ ﷺ نے ایک آدمی بھیجا اور اسے فرمایا :’’ خالد سے کہو : کسی عورت کو قتل کرو نہ کسی اجیر (اجرتی) کو ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ کے نام کے ساتھ ، اللہ کی توفیق سے اور رسول اللہ ﷺ کی ملت پر چلو ، کسی بہت بوڑھے شخص کو قتل کرو نہ کسی چھوٹے بچے کو اور نہ ہی کسی عورت کو ، اور نہ خیانت کرو ، اپنا مال غنیمت اکٹھا کرو ، (اپنے امور کی) اصلاح کرو اور احسان کرو کیونکہ اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، جب بدر کا دن تھا تو عتبہ بن ربیعہ آگے بڑھا ، اس کے پیچھے اس کا بیٹا (ولید بن عتبہ) اور اس کا بھائی (شیبہ بن ربیعہ) بھی آ گیا تو عتبہ نے کہا : مقابلے پر کون آتا ہے ؟ اس کی اس للکار کا انصار کے نوجوانوں نے جواب دیا تو اس نے پوچھا ، تم کون ہو ؟ انہوں نے اسے بتایا تو اس نے کہا : ہمارا تم سے کوئی سروکار نہیں ، ہم تو اپنے چچا زادوں سے لڑنا چاہتے ہیں ، تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ حمزہ ! اٹھو ، علی ! اٹھو ، عبیدہ بن حارث ! اٹھو ۔‘‘ حمزہ ؓ عتبہ کی طرف متوجہ ہوئے اور میں شیبہ کی طرف ، جبکہ عبیدہ ؓ اور ولید کے درمیان دو دو وار ہوئے اور اِن دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے مقابل کو زخمی کیا ، پھر ہم ولید پر پل پڑے اور اسے قتل کر دیا اور ہم نے عبیدہ ؓ کو اٹھا لیا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد و ابوداؤد ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک لشکر میں روانہ کیا ، لوگ میدانِ جنگ سے بھاگ گئے اور ہم نے مدینہ منورہ پہنچ کر پناہ لی ، اور ہم نے کہا : ہم مارے گئے ، پھر ہم نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم تو فرار ہونے والے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ نہیں ، بلکہ تم دوبارہ حملہ کرنے والے ہو ، اور میں تمہاری جماعت ہوں (کہ فرار کے زمرے میں نہیں ، بلکہ تم جماعت کے پاس آئے ہو) ۔‘‘ ترمذی ۔ اور ابوداؤد کی روایت میں اسی طرح ہے ، اور فرمایا :’’ بلکہ جانے والے ہو ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، ہم قریب ہوئے اور ہم نے آپ ﷺ کے دست مبارک کو بوسہ دیا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں مسلمانوں کی جماعت ہوں ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
اور ہم امیہ بن عبداللہ سے مروی حدیث ((کان یستفتح)) اور ابودرداء ؓ سے مروی حدیث :’’ مجھے اپنے ضعفاء میں تلاش کرو ۔ باب فضل الفقراء میں ان شاءاللہ تعالیٰ ذکر کریں گے ۔