خولہ بنت قیس ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ یہ مال (غنیمت) خوش منظر اور خوش ذائقہ ہے ، چنانچہ جس نے اسے بقدر استحقاق حاصل کیا تو وہ اس کے لیے باعث برکت بنا دیا جائے گا ، اور بہت سے لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کے مال میں من پسند تصرف کرتے ہیں ، ان کے لیے روزِ قیامت آگ ہی ہے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے غزوہ بدر کے روز اپنی تلوار ذوالفقار حصہ سے زیادہ لی ۔ ابن ماجہ اور امام ترمذی نے یہ الفاظ زائد نقل کیے ہیں ، اور یہ وہی ہے جو آپ ﷺ نے غزوہ احد کے روز خواب میں دیکھی تھی ۔ اسنادہ حسن ، رواہ احمد و الترمذی و ابن ماجہ ۔
رویفع بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ مسلمانوں کے مالِ غنیمت کے کسی جانور پر سواری نہ کرے حتی کہ جب اسے لاغر کر دے تو اسے اس میں واپس لوٹا دے ، اور جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ مسلمانوں کے مالِ غنیمت میں سے کوئی کپڑا نہ پہنے حتی کہ جب اسے بوسیدہ کر دے تو اسے اس میں واپس کر دے ۔‘‘ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
محمد بن ابو مجاہد ، عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : میں نے عرض کیا : کیا تم رسول اللہ ﷺ کے دور میں طعام میں سے بھی پانچواں حصہ نکالتے تھے ؟ انہوں نے کہا : غزوہ خیبر میں ہمیں کھانا ملا ، ہر آدمی آتا اور وہ اپنی ضرورت کے مطابق اس سے لیتا اور پھر واپس چلا جاتا ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
عبدالرحمن کے آزاد کردہ غلام قاسم ، نبی ﷺ کے کسی صحابی سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : ہم جہاد میں اونٹ کا گوشت کھایا کرتے تھے اور ہم اسے تقسیم نہیں کیا کرتے تھے ، حتی کہ جب ہم اپنی منزلوں کو لوٹتے تو ہماری خورجیاں اس سے بھری ہوتی تھیں ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ فرمایا کرتے تھے :’’ دھاگہ اور سوئی بھی (مالِ غنیمت میں) جمع کرا دو اور خیانت سے بچو ، کیونکہ روزِ قیامت وہ خیانت کرنے والے کے لیے باعثِ عار ہو گی ۔‘‘ سندہ حسن ، رواہ الدارمی ۔
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : نبی ﷺ اونٹ کے قریب ہوئے تو آپ نے اس کی کوہان سے ایک بال پکڑا پھر فرمایا :’’ لوگو ! اس مالِ غنیمت سے میرے لیے کوئی چیز نہیں اور یہ (بال تک) بھی نہیں ۔ آپ ﷺ نے اپنی انگلی اٹھائی البتہ خمس ، اور خمس بھی تمہیں ہی لوٹا دیا جائے گا ، تم دھاگہ اور سوئی تک جمع کرا دو ۔‘‘ چنانچہ ایک آدمی کھڑا ہوا تو اس کے ہاتھ میں بالوں کا ایک ٹکڑا سا تھا ، اس نے عرض کیا : میں نے اسے جھل کو صحیح کرنے کے لیے لیا تھا ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ وہ چیز جو میری اور بنو عبد المطلب کی ہے وہ تیرے لیے ہے ۔‘‘ اس آدمی نے کہا : اگر معاملہ اس قدر سنگین ہے تو مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ، اور اس نے اسے پھینک دیا ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
عمرو بن عبسہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے مالِ غنیمت کے اونٹ کی طرف رخ کر کے ہمیں نماز پڑھائی ، اور جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ ﷺ نے اونٹ کے پہلو سے چند بال پکڑے پھر فرمایا :’’ تمہارے اموال غنیمت میں سے خمس کے علاوہ میرے لیے اتنی چیز بھی حلال نہیں ، جبکہ خمس بھی تمہارے مصالح پر خرچ کیا جاتا ہے ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
جبیر بن مطعم ؓ بیان کرتے ہیں ، جب رسول اللہ ﷺ نے رشتہ داروں کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب کے درمیان تقسیم کر دیا تو میں اور عثمان بن عفان ؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بنو ہاشم قبیلے کے ہمارے یہ بھائی ، آپ کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے ان کی فضیلت کا ہمیں انکار نہیں کیونکہ اللہ نے آپ کو ان میں پیدا فرمایا ، بنو مطلب کے ہمارے بھائیوں کے بارے میں بتائیں کہ آپ نے انہیں عطا فرما دیا جبکہ ہمیں چھوڑ دیا حالانکہ ہماری اور ان کی قرابت ایک ہی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر اپنی انگلیوں کو ایک دوسری میں داخل کر کے فرمایا :’’ بنو ہاشم اور بنو مطلب اس طرح ایک چیز ہیں ۔‘‘ شافعی ۔ ابوداؤد اور نسائی کی روایت اسی طرح ہے ، اور اس میں ہے : ہم اور بنو مطلب نہ تو دور جاہلیت میں الگ تھے اور نہ اسلام میں الگ ہیں ۔ اور ہم اور وہ ایک چیز ہیں ، آپ ﷺ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں ۔ حسن ، رواہ الشافعی و ابوداؤد و النسائی ۔
عبدالرحمن بن عوف ؓ بیان کرتے ہیں ، میں غزوۂ بدر کے روز صف میں کھڑا تھا ، میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو میں انصار کے دو نو عمر لڑکوں کے درمیان تھا ، میں نے تمنا کی کہ میں اِن دونوں سے زیادہ قوی آدمیوں کے درمیان ہوتا ، اتنے میں اِن میں سے ایک نے مجھے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا : چچا جان ! آپ ابوجہل کو جانتے ہیں ؟ میں نے کہا : ہاں ، لیکن بھتیجے تمہیں اس سے کیا کام ؟ اس نے کہا : مجھے پتہ چلا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیتا ہے ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میں الگ نہیں ہوں گا حتی کہ ہم سے جلد اجل کو پہنچنے والا فوت ہو جائے ۔ اس کی اس بات سے مجھے بہت تعجب ہوا ، بیان کرتے ہیں ، پھر دوسرے نے مجھے اشارہ کیا اور اس نے بھی مجھ سے وہی بات کی ، اتنے میں میں نے ابوجہل کو لوگوں میں چکر لگاتے ہوئے دیکھا تو میں نے کہا : کیا تم دیکھ نہیں رہے یہ وہی شخص ہے جس کے بارے میں تم مجھ سے پوچھ رہے تھے ، وہ بیان کرتے ہیں ، وہ دونوں اپنی تلواروں کے ساتھ اس کی طرف لپکے اور اس پر وار کیا حتی کہ انہوں نے اسے قتل کر دیا ، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور آپ کو بتایا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے ؟‘‘ اِن دونوں میں سے ہر ایک نے کہا : میں نے اسے قتل کیا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم نے اپنی تلواریں صاف کر لی ہیں ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : نہیں ، چنانچہ آپ ﷺ نے دونوں کی تلواریں دیکھ کر فرمایا :’’ تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے ۔‘‘ اور رسول اللہ ﷺ نے ابوجہل کے سازو سامان کے متعلق معاذ بن عمرو بن جموح کے حق میں فیصلہ فرمایا ، جبکہ وہ دونوں آدمی (لڑکے) معاذ بن عمرو بن جموح اور معاذ بن عفراء تھے ۔ متفق علیہ ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، بدر کے دن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کون دیکھ کر ہمیں یہ بتائے گا کہ ابوجہل کس حالت میں ہے ؟‘‘ ابن مسعود ؓ گئے تو انہوں نے دیکھا کہ عفراء کے دونوں بیٹوں نے اس پر حملہ کیا ہے جس کی وجہ سے وہ ٹھنڈا (قریب المرگ) ہو گیا ہے ، راوی بیان کرتے ہیں ، انہوں نے اسے داڑھی سے پکڑ کر کہا : تو ابوجہل ہے ؟ اس نے کہا : تم نے ایک آدمی ہی تو قتل کیا ہے ؟ ایک دوسری روایت میں ہے : اس نے کہا : کاش کوئی غیر کاشکار مجھے قتل کرتا ۔ متفق علیہ ۔
سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ایک جماعت کو کچھ دیا اور میں بیٹھا ہوا تھا ، رسول اللہ ﷺ نے ان میں سے ایک آدمی کو چھوڑ دیا وہ مجھے ان میں سے زیادہ پسندیدہ تھا ، چنانچہ میں کھڑا ہوا اور عرض کیا : فلاں شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ اللہ کی قسم ! میں اسے مومن سمجھتا ہوں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بلکہ (میں اسے) مسلمان (سمجھتا ہوں) ۔‘‘ سعد ؓ نے تین بار ایسے ہی عرض کیا ، اور آپ نے انہیں ایسے ہی جواب ارشاد فرمایا ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک میں آدمی کو دیتا ہوں ، جبکہ دوسرا شخص (جسے میں نہیں دیتا) اس کی نسبت مجھے زیادہ پیارا ہوتا ہے ، اس اندیشے کے پیشِ نظر دیتا ہوں کہ وہ اپنے چہرے کے بل جہنم میں نہ ڈالا جائے ۔‘‘ بخاری ، مسلم ۔ متفق علیہ ۔
اور صحیحین کی روایت میں ہے ، امام زہری ؒ نے فرمایا : ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام کلمہ ہے جبکہ ایمان عمل صالح ہے ۔
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ غزوہ بدر کے روز رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا :’’ بے شک عثمان ، اللہ اور اس کے رسول کے کام سے گئے ہوئے ہیں ، اور میں ان کی بیعت کرتا ہوں ، پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے حصہ مقرر فرمایا ، جبکہ آپ نے ان کے علاوہ کسی اور غیر حاضر شخص کے لیے حصہ مقرر نہیں فرمایا ۔ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ انبیا ؑ میں سے کسی ایک نبی نے جہاد کیا تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا : وہ شخص میرے ساتھ نہ جائے جس نے شادی کی اور وہ اسے اپنے گھر لانا چاہتا ہے مگر وہ اسے تاحال اپنے گھر نہیں لا سکا اور وہ شخص بھی میرے ساتھ نہ جائے جس نے گھر بنایا اور اس نے اس کی چھتیں بلند نہیں کیں ، اور نہ وہ شخص میرے ساتھ جائے جس نے بکری یا حاملہ اونٹنی خریدی ہے اور وہ اس کے بچے کا منتظر ہے ۔ انہوں نے جہاد کا ارادہ کیا ، اور وہ نماز عصر یا اس کے قریب اس بستی کے قریب پہنچے (جس کے ساتھ جہاد کرنا تھا) اور انہوں نے سورج سے فرمایا : تو بھی مامور ہے اور میں بھی مامور ہوں ، اے اللہ ! اسے ٹھہرا دے ، لہذا اسے ٹھہرا دیا گیا حتی کہ اللہ نے انہیں فتح عطا فرمائی ، انہوں نے مال غنیمت جمع کیا ، آگ اسے جلانے کے لیے آئی مگر اس نے اسے نہ جلایا ۔ انہوں نے فرمایا : تم میں سے کوئی خائن ہے ، ہر قبیلے سے ایک آدمی میری بیعت کرے ، ایک آدمی کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے ساتھ چمٹ گیا ، نبی نے فرمایا : تم میں خائن ہے ۔ وہ گائے کے سر کے برابر سونے کا ایک سر لائے اور اسے مالِ غنیمت میں رکھا گیا ، پھر آگ آئی اور اسے کھا گئی ۔ اور ایک روایت میں یہ زیادہ نقل کیا ہے :’’ ہم سے پہلے مالِ غنیمت کسی کے لیے حلال نہیں تھا ، پھر اللہ نے ہمارے لیے مالِ غنیمت حلال فرما دیا ، اس نے ہماری کمزوری اور عاجزی دیکھی تو اسے ہمارے لیے حلال قرار دے دیا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، عمر ؓ نے مجھے حدیث بیان کی ، انہوں نے فرمایا : جب غزوہ خیبر کا دن تھا تو نبی ﷺ کے صحابہ کی ایک جماعت آئی اور انہوں نے کہا : فلاں شہید ہے ، فلاں شہید ہے ، حتی کہ وہ ایک شخص کے پاس سے گزرے تو انہوں نے کہا : فلاں شہید ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہرگز نہیں ، میں نے اسے ایک چادر کی وجہ سے ، جو اُس نے خیانت کی تھی ، جہنم میں دیکھا ہے ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ ابنِ خطاب ! جاؤ اور تین بار اعلان عام کر دو کہ جنت میں (کامل) مومن داخل ہوں گے ۔‘‘ وہ بیان کرتے ہیں ، میں نکلا اور تین بار اعلان کیا : سن لو ! جنت میں صرف مومن ہی جائیں گے ۔ رواہ مسلم ۔