انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ ہمارے ساتھ تکلف نہیں برتتے تھے (گھل مل کر رہتے تھے) حتی کہ آپ میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے : ابوعمیر ! ’’ چڑیا نے کیا کیا ؟‘‘ ابوعمیر کی ایک چڑیا تھی وہ اس کے ساتھ کھیلا کرتا تھا وہ مر گئی ۔ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، صحابہ ؓ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ تو ہم سے خوش طبعی کر لیتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں حق بات ہی کہتا ہوں ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے سواری طلب کی تو آپ نے فرمایا :’’ میں تمہیں اونٹنی کے بچے پر سوار کروں گا ۔‘‘ اس نے عرض کیا : میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اونٹنیاں ہی اونٹ کو جنم دیتی ہیں ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔
انس ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے ایک بڑھیا عورت سے فرمایا :’’ کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی ۔‘‘ اس (عورت) نے عرض کیا : ان کے لیے کیا (مانع) ہے ؟ اور وہ قرآن پڑھتی تھی ، آپ ﷺ نے اسے فرمایا :’’ کیا تم قرآن نہیں پڑھتی ہو ؟ بے شک ہم نے ان (حوروں) کو ایک خاص طریقے پر پیدا کیا ہے ، پھر ان کو کنوارا رکھا ۔‘‘ رزین ۔ شرح السنہ میں مصابیح کے الفاظ ہیں ۔ ضعیف ، رواہ رزین و فی شرح السنہ ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ زاہر بن حرام نامی ایک گنوار شخص جنگل سے نبی ﷺ کے لیے تحائف لایا کرتا تھا ، اور جب وہ واپسی کا ارادہ کرتا تو رسول اللہ ﷺ اسے (سامان) دیا کرتے تھے ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ زاہر جنگل میں ہمارا کارندہ ہے اور ہم شہر میں اس کے کار پرداز ہیں ۔‘‘ اور نبی ﷺ اس سے محبت کیا کرتے تھے ، حالانکہ وہ کوئی خوبصورت نہیں تھا ، چنانچہ ایک روز نبی ﷺ تشریف لائے تو وہ اپنا سامان فروخت کر رہا تھا ، آپ نے اس کے پیچھے سے اپنے حصار میں لے لیا اور وہ آپ کو نہیں دیکھتا تھا ، اس نے عرض کیا : مجھے چھوڑ دو ، یہ کون ہے ؟ اس نے ایک طرف سے دیکھا تو پہچان لیا کہ وہ نبی ﷺ ہیں ، جب اس نے آپ کو پہچان لیا تو وہ بڑے اہتمام کے ساتھ اپنی پشت نبی ﷺ کے سینہ مبارک کے ساتھ لگانے لگا ، اور نبی ﷺ فرمانے لگے :’’ اس غلام کو کون خریدے گا ؟‘‘ اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم ! میری بہت کم قیمت آپ کو ملے گی ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ لیکن تم اللہ کے ہاں کم قیمت کے نہیں ہو ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ فی شرح السنہ ۔
عوف بن مالک اشجعی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ چمڑے کے چھوٹے سے خیمے میں تھے ، میں نے سلام عرض کیا تو آپ ﷺ نے مجھے سلام کا جواب دیا اور فرمایا :’’ اندر آ جاؤ ۔‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں سارا (اندر آ جاؤں) ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم سارے کے سارے (اندر آ جاؤ) ۔‘‘ میں اندر چلا گیا ، عثمان بن ابی عاتکہ (راوی) بیان کرتے ہیں ، اس نے کہا : کیا میں چھوٹے سے خیمے میں سارے کا سارا آ جاؤں ؟ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
نعمان بن بشیر ؓ بیان کرتے ہیں ، ابوبکر ؓ نے نبی ﷺ سے آنے کی اجازت طلب کی اور انہوں نے عائشہ ؓ کی آواز بلند ہوتے ہوئے سنی ، جب وہ اندر تشریف لے آئے ، تو انہوں نے عائشہ ؓ کو پکڑا تا کہ انہیں طمانچہ ماریں ، اور انہوں نے فرمایا : میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی آواز پر آواز بلند کرتے ہوئے نہ دیکھوں ۔ نبی ﷺ ابوبکر ؓ کو روکنے لگے اور وہ غصے کی حالت میں باہر تشریف لے گئے ، جب ابوبکر ؓ باہر نکل گئے تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ تم نے مجھے کیسے دیکھا کہ میں نے تمہیں اس آدمی (یعنی ابوبکر ؓ) سے بچایا ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، ابوبکر ؓ چند دنوں کے بعد پھر تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو ان دونوں (رسول اللہ ﷺ اور عائشہ ؓ) کو صلح کی حالت میں پایا اور انہوں نے ان دونوں سے کہا : تم مجھے اپنی صلح میں داخل کرو جیسے تم نے اپنی لڑائی میں مجھے داخل کیا تھا ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ ہم کر چکے ، ہم کر چکے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
ابن عباس ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنے (مسلمان) بھائی سے جھگڑا نہ کر اور نہ اس سے (تکلیف دہ) مذاق نہ کر اور نہ ہی اس سے ایسا وعدہ کر جس کی تو خلاف ورزی کرے ۔‘‘ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔