ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ابوالقاسم ﷺ نے فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم (نافرمانوں کے عذاب کے متعلق) جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم زیادہ روؤ اور کم ہنسو ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ام علاء انصاریہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا ، اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا جبکہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں کہ میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟‘‘ رواہ البخاری ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میرے سامنے جہنم کی آگ پیش کی گئی تو میں نے اس میں بنی اسرائیل کی ایک عورت کو اس کی ایک بلی کی وجہ سے عذاب میں مبتلا دیکھا ، اس نے اسے باندھ رکھا تھا ، اس نے اسے نہ خود کھلایا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ حشرات الارض کھا سکے اسی حال وہ بھوکی مر گئی ، اور میں نے عمرو بن عامر الخزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا تھا ، اور وہ پہلا شخص ہے جس نے بتوں کے نام پر جانور چھوڑنے کی رسم ایجاد کی ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
زینب بنت جحش ؓ سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ گھبراہٹ کے عالم میں میرے پاس تشریف لائے ، آپ ﷺ فرما رہے تھے :’’ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، عربوں کے لیے اس شر کے سبب تباہی ہے جو کہ قریب پہنچ چکی ہے ؟ آج یاجوج ماجوج کا بند اس قدر کھول دیا گیا ۔‘‘ اور آپ ﷺ نے اپنی دو انگلیوں ، انگوٹھے اور انگشت شہادت سے حلقہ بنایا ، زینب ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا ہم ہلاک کر دیے جائیں گے جبکہ صالح لوگ ہم میں موجود ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں ، جب فسق و فجور زیادہ ہو جائے گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابو عامر یا ابو مالک اشعری ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ میری امت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جوخز (ہلکی قسم کا ریشم) اور عام ریشم ، شراب اور آلات موسیقی کو حلال سمجھیں گے ، اور کچھ لوگ پہاڑ کے دامن کی طرف اتریں گے ان کے ساتھ ان کے مویشی آئیں گے ، ایک آدمی کسی ضرورت کے تحت ان کے پاس آئے گا ، تو وہ کہیں گے ، کل آنا ، اللہ انہیں راتوں رات عذاب میں مبتلا کر دے گا اور پہاڑ ان پر گرا دے گا جبکہ باقی لوگوں کی صورتیں مسخ کر کے روز قیامت تک بندر اور خنزیر بنا دے گا ۔‘‘ بخاری ۔
اور مصابیح کے بعض نسخوں میں ’’خز‘‘ کے بجائے ’’حر‘‘ ہے اور یہ تصحیف ہے ، جبکہ صحیح ’’خز‘‘ ہے ، الحمیدی اور ابن اثیر نے اس حدیث میں اسی کو راجح قرار دیا ہے ، اور کتاب الحمیدی میں امام بخاری کی سند سے ، اور اسی طرح بخاری کی شرح للخطابی میں ہے : ((تَرُوْحُ عَلَیْھِمْ سَارِحَۃٌ لَھُمْ یَأْتِیْھِمْ لِحَاجَۃِ)) رواہ البخاری و فی مصابیح السنہ ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب اللہ کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو تمام لوگ اس عذاب کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں ، پھر وہ اپنے اپنے اعمال کے مطابق (روز قیامت) اٹھائے جائیں گے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نے جہنم کی مثل کوئی چیز نہیں دیکھی کہ جس سے بھاگنے والا خواب غفلت میں ہو ، اور نہ ہی جنت کی نعمتوں و سرور کے مثل کوئی چیز دیکھی ہے جس کا چاہنے والا خواب غفلت میں ہو ۔‘‘ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو میں دیکھ رہا ہوں وہ تم نہیں دیکھتے اور جو میں سنتا ہوں وہ تم نہیں سنتے ، آسمان نے آواز نکالی اور اسے چر چرانے کی آواز نکالنی بھی چاہیے ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! وہاں ہر چار انگشت پر فرشتہ اپنی پیشانی رکھے ہوئے اللہ کے حضور سر بسجود ہے ، اللہ کی قسم ! اگر تم جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم کم ہنسو اور زیادہ روؤ ، تم بستروں پر عورتوں (بیویوں) سے لطف اندوز ہونا چھوڑ دو اور تم صحراؤں کی طرف نکل جاؤ اور اللہ کے حضور (دعاؤں کے ذریعے) آہ و زاری کرو ۔‘‘ ابوذر ؓ نے کہا : کاش ! میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا ۔ حسن ، رواہ احمد و الترمذی و ابن ماجہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص (رات کے آخری حصے میں سفر کرنے سے) ڈرتا ہو وہ رات کے ابتدائی حصے میں سفر کا آغاز کرتا ہے اور جو شخص رات کے ابتدائی حصے میں سفر کرتا ہے تو وہ منزل پر پہنچ جاتا ہے ، سن لو ! اللہ کا سامان قیمتی ہے ، سن لو ! اللہ کا سامان جنت ہے ۔‘‘ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
انس ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ ، اس کا ذکر عظیم الشان ہو ، فرمائے گا : ہر اس شخص کو جہنم کی آگ سے نکال دو جس نے (اخلاص کے ساتھ) کسی ایک روز بھی مجھے یاد کیا ہو یا وہ کسی جگہ مجھ سے ڈرا ہو ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی و البیھقی فی کتاب البعث و النشور ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس آیت :’’ وہ لوگ دیتے ہیں ، جو کچھ دیتے ہیں ، اور اس پر ان کے دل خوفزدہ ہیں ۔‘‘ کے متعلق دریافت کیا ، کیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ صدیق کی بیٹی ! نہیں ، بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ کرتے ہیں ، اور وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسے نہ ہو کہ وہ ان سے قبول نہ ہو ، یہی لوگ نیکیوں میں جلدی کرتے ہیں ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ۔
ابی بن کعب ؓ بیان کرتے ہیں : نبی ﷺ کا معمول تھا کہ جب دو تہائی رات گزر جاتی تو آپ ﷺ کھڑے ہو جاتے اور فرماتے :’’ لوگو ! اللہ کا ذکر کرو ، اللہ کا ذکر کرو ، زلزلہ آنے والا ہے ، اس کے متصل بعد دوسرا زلزلہ آنے والا ہے ، اور موت اپنی سختیوں کے ساتھ آ گئی اور موت اپنی سختیوں کے ساتھ آ گئی ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ابوسعید ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نماز کے لیے تشریف لائے تو آپ نے لوگوں کو دیکھا گویا وہ ہنس رہے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سن لو ! اگر تم لذتوں کو قطع کر دینے والی (موت) کا کثرت سے ذکر کرتے تو وہ تمہیں اس چیز (ہنسنے) سے ، جو میں نے دیکھی ہے ، تمہیں باز رکھتی ، تم لذتوں کو قطع کرنے والی چیز یعنی موت کا کثرت سے ذکر کرو ، کیونکہ قبر ہر روز کہتی ہے : میں غیر مانوس کا گھر ہوں ، میں تنہائی کا گھر ہوں ، میں مٹی کا گھر ہوں اور میں کیڑوں مکوڑوں کا گھر ہوں ، اور جب بندہ مومن دفن کیا جاتا ہے تو قبر اسے خوش آمدید کہتی ہے ، سن لو ! میری سطح پر چلنے والے افراد سے تو مجھے سب سے زیادہ پسند تھا ، آج تو میرے سپرد کر دیا گیا ہے ، اور تو میرے پاس آ گیا ہے ، تو اپنے ساتھ میرا سلوک دیکھے گا ۔‘‘ فرمایا :’’ وہ اس کی حد نظر تک اس کے لیے فراخ کر دی جاتی ہے اور اس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے ، اور جب فاجر بندہ یا کافر شخص دفن کیا جاتا ہے تو قبر اسے کہتی ہے : تیرے لیے کسی قسم کا خیر مقدم نہیں ، سن لے ! میری سطح پر چلنے والے تمام افراد سے تو مجھے زیادہ ناپسند تھا ، تو آج میرے سپرد کیا گیا ہے ، اور تو میرے پاس آ گیا ہے ، تو عنقریب اپنے ساتھ میرا سلوک دیکھ لے گا ۔‘‘ فرمایا :’’ وہ اس پر تنگ ہو جاتی ہے ، حتیٰ کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، اور رسول اللہ ﷺ نے یہ کیفیت کر کے دکھائی کہ آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیں ، اور فرمایا :’’ اس پر ستر اژدھے مسلط کر دیے جائیں گے ، اور اگر ان میں سے ایک زمین پر پھونک مار دے تو وہ (زمین) رہتی دنیا تک کوئی چیز نہ اگائے ، وہ اسے ڈستے اور نوچتے رہیں گے حتیٰ کہ اسے حساب تک پہنچا دیا جائے گا ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قبر تو باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گھڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ابو جحیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، صحابہ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! آپ بوڑھے ہو گئے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سورۂ ہود اور اس جیسی سورتوں نے مجھے بوڑھا کر دیا ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، ابوبکر ؓ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ تو بوڑھے ہو گئے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سورۂ ہود ، واقعہ ، مرسلات ، عم یتساءلون اور سورۂ شمس نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے ۔‘‘ ترمذی ، اور ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث :’’ جہنم میں داخل نہیں ہو گا ۔‘‘ باب الجھاد میں ذکر کی گئی ہے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
انس ؓ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا : تم ایسے اعمال کرتے ہو جو تمہاری نظروں میں بال سے بھی زیادہ باریک ہیں (یعنی نہایت معمولی ہیں) جبکہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ہم انہیں مہلک شمار کیا کرتے تھے ۔ رواہ البخاری ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ عائشہ ! چھوٹے گناہوں سے بھی اجتناب کرو کیونکہ ان گناہوں کے لیے بھی اللہ کی طرف سے (عذاب کا) مطالبہ کرنے والا ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابن ماجہ و الدارمی و البیھقی فی شعب الایمان ۔
ابوبردہ بن ابو موسیٰ بیان کرتے ہیں ، عبداللہ بن عمر ؓ نے مجھے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ میرے والد نے آپ کے والد سے کیا فرمایا تھا ؟ انہوں نے کہا : مجھے علم نہیں ، انہوں نے فرمایا : میرے والد نے آپ کے والد سے کہا : ابوموسیٰ کیا یہ بات تمہیں خوش کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی معیت میں ہمارا اسلام ، آپ کی معیت میں ہماری ہجرت اور آپ کی معیت میں ہمارا جہاد اور آپ کے ساتھ ہم نے جو بھی عمل کیے وہ ہمارے لیے ثابت و برقرار رہیں ، اور ہم نے آپ ﷺ کے بعد جو عمل کیے ہیں ، ہم ان میں برابر برابر (گناہ نہ ثواب) رہ جائیں ؟ اس پر آپ کے والد نے میرے والد سے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم ! ہم نے رسول اللہ ﷺ کے بعد جہاد کیا ، نمازیں پڑھیں ، روزے رکھے ، بہت سے نیک کام کیے اور بہت سے لوگوں نے ہمارے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا ، اور ہم ان کاموں کے ثواب کی امید رکھتے ہیں ، میرے والد نے کہا : لیکن میں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں عمر ؓ کی جان ہے ! یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ اعمال (جو ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کیے) ہمارے لیے ثابت رہیں ، اور وہ تمام اعمال جو ہم نے آپ ﷺ کے بعد کیے ، ان میں ہم برابر برابر نجات پا جائیں ، میں (ابوبردہ) نے کہا : بے شک آپ کے والد (عمر ؓ) ، اللہ کی قسم ! میرے والد سے بہتر تھے ۔ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میرے رب نے مجھے نو چیزوں کا حکم فرمایا : پوشیدہ و اعلانیہ ہر حالت میں اللہ کا ڈر رکھنا ، غضب و رضا میں حق بات کرنا ، فقر و مال داری میں میانہ روی اختیار کرنا ، جو شخص مجھ سے قطع تعلق کرے میں اس کے ساتھ تعلق قائم کروں ، جو شخص مجھے محروم رکھے میں اسے عطا کروں ، جس شخص نے مجھ پر ظلم کیا میں اسے معاف کروں ، میرا خاموش رہنا غور و فکر کا پیش خیمہ ہو ، میرا بولنا ذکر ہو اور میرا دیکھنا عبرت ہو ، اور یہ کہ میں نیکی کا حکم دوں ۔‘‘ لم اجدہ ، رواہ رزین ۔
عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس مومن بندے کی آنکھوں سے اللہ کے ڈر کے پیش نظر آنسو نکل آئیں ، خواہ وہ مکھی کے سر کے برابر ہوں ، پھر وہ اس کے چہرے پر آ جائیں تو اللہ اس شخص کو جہنم کی آگ پر حرام قرار دے دیتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابن ماجہ ۔