عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ روز قیامت جس کسی سے حساب لیا گیا وہ مارا گیا ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا :’’ (جس کسی کو نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا) اس سے آسان حساب لیا جائے گا ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ تو صرف پیش کرنا ہو گا ، لیکن جس کی حساب میں جانچ پڑتال کی گئی وہ ہلاک ہو گا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عدی بن حاتم ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کا رب کلام فرمائے گا ، اس کے اور اس (بندے) کے درمیان کوئی ترجمان ہو گا نہ کوئی حجاب ہو گا جو اسے چھپا سکے ، اپنے دائیں دیکھے گا تو وہ اپنے اعمال ہی دیکھے گا جو اس نے آگے بھیجے تھے ، وہ اپنے بائیں دیکھے گا تو وہ آگے بھیجے ہوئے اپنے اعمال ہی دیکھے گا ، وہ اپنے آگے چہرے کے سامنے دیکھے گا تو اسے (جہنم) کی آگ ہی نظر آئے گی ، تم (جہنم کی) آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے ہو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک اللہ مومن کو قریب کر لے گا ، اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا اور اسے چھپا کر فرمائے گا : کیا تم فلاں گناہ پہچانتے ہو ؟ کیا تم کو فلاں گناہ یاد ہے ؟ وہ عرض کرے گا ، رب جی ! جی ہاں ، حتی کہ جب وہ اسے اس کے گناہوں کا اعتراف و اقرار کرا لے گا تو وہ شخص اپنے دل میں سوچے گا کہ وہ تو مارا گیا ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں نے دنیا میں تیرے گناہوں پر پردہ ڈالے رکھا اور آج میں تیرے گناہ معاف کرتا ہوں ، اسے اس کی نیکیوں کی کتاب (اعمال نامہ) دے دی جائے گی ، البتہ کفار اور منافقین تو انہیں ساری مخلوق کے سامنے بلایا جائے گا اور کہا جائے گا :’’ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا تھا ، سن لو ! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوموسیٰ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب قیامت کا دن ہو گا تو اللہ ہر مسلمان کو ایک یہودی یا ایک عیسائی دے گا اور فرمائے گا : اس کے بدلے میں (جہنم کی) آگ سے تیری آزادی ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوسعید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ روزِ قیامت نوح ؑ کو لایا جائے گا تو ان سے کہا جائے گا : کیا آپ نے (اللہ تعالیٰ کے احکامات و تعلیمات) پہنچا دیے تھے ؟ وہ کہیں گے : جی ہاں ، میرے پروردگار ! ان کی امت سے پوچھا جائے گا : کیا انہوں نے تمہیں اللہ تعالیٰ کے احکامات پہنچا دیے تھے ؟ وہ کہیں گے : ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے (آگاہ کرنے) والا آیا ہی نہیں ۔ ان سے کہا جائے گا : آپ کا گواہ کون ہے ؟ وہ کہیں گے : محمد (ﷺ) اور ان کی اُمت ۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ پھر تمہیں لایا جائے گا ، تو تم گواہی دو گے کہ انہوں نے پہنچا دیا تھا ۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :’’ ہم نے اسی طرح تمہیں امت وسط بنایا تا کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول اللہ تم پر گواہ ہوں ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے تو آپ ہنس دیے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم جانتے ہو کہ میں کس وجہ سے ہنس رہا ہوں ؟‘‘ انس ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم نے کہا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، فرمایا : بندے کے اپنے رب سے مخاطب ہونے سے ، وہ عرض کرے گا : رب جی ! کیا آپ مجھے ظلم سے نہیں بچائیں گے ؟‘‘ فرمایا :’’ وہ (رب تعالیٰ) فرمائے گا : کیوں نہیں ، ضرور ۔‘‘ فرمایا :’’ وہ عرض کرے گا : میں اپنے خلاف صرف اپنے نفس ہی کی گواہی قبول کروں گا ، فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ فرمائے گا :’’ آج تیرا نفس ہی تیرے خلاف گواہی دینے کے لیے کافی ہے ۔ اور لکھنے والے معزز فرشتے بھی گواہی کے لیے کافی ہیں ۔‘‘ فرمایا :’’ اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی ، اور اس کے اعضاء سے کہا جائے گا ، کلام کرو ۔‘‘ فرمایا :’’ وہ اس کے اعمال کے متعلق بولیں گے ، پھر اس (بندے) کے اور اس کی زبان کے درمیان سے پابندی اٹھا لی جائے گی ۔‘‘ فرمایا :’’ وہ (اپنی زبان سے بول کر) کہے گا : تمہارے لیے دوری ہو اور ہلاکت ہو ، میں تو تمہاری ہی طرف سے جھگڑا تھا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، صحابہ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا ہم روزِ قیامت اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم ، دوپہر کے وقت جبکہ مطلع ابر آلود نہ ہو ، سورج دیکھنے میں کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : نہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم ، چودھویں رات جبکہ مطلع ابر آلود بھی نہ ہو ، چاند دیکھنے میں کوئی تکلیف محسوس کرتے ہو ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : نہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم اپنے رب کے دیدار میں بس اتنی تکلیف محسوس کرو گے ، جس طرح تم ان دونوں (سورج اور چاند) میں سے کسی ایک کو دیکھنے میں تکلیف محسوس کرتے ہو ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ بندے سے ملاقات کرے گا تو وہ فرمائے گا : اے فلاں ! کیا میں نے تمہیں عزت نہیں بخشی تھی ؟ کیا میں نے تمہیں سردار نہیں بنایا تھا ؟ کیا میں نے تجھے بیوی نہیں دی تھی ؟ کیا میں نے گھوڑے اور اونٹ تیرے لیے مسخر نہیں کیے تھے ؟ کیا میں نے تجھے (تیری قوم پر) سردار نہیں بنایا تھا ؟ اور تو ان سے چوتھا حصہ وصول کرتا تھا ؟ وہ کہے گا : کیوں نہیں ۔‘‘ فرمایا :’’ رب تعالیٰ فرمائے گا : کیا تو جانتا تھا کہ تو مجھ سے ملاقات کرنے والا ہے ؟ وہ کہے گا : نہیں ، پھر رب تعالیٰ فرمائے گا : میں نے (آج) تجھے بھلا دیا جس طرح تم نے مجھے (دنیا میں) بھلا رکھا تھا ، پھر رب تعالیٰ دوسرے سے ملاقات کرے گا ، اور اسی (پہلے) کی مثل ذکر کیا ، پھر وہ تیسرے سے ملاقات کرے گا تو وہ اس سے بھی اسی کی مثل کہے گا : وہ عرض کرے گا : رب جی ! میں آپ پر ، آپ کی کتاب پر اور آپ کے رسولوں پر ایمان لایا ، میں نے نماز پڑھی ، روزہ رکھا ، صدقہ کیا ، اور وہ جس قدر ہو سکا اپنی تعریف کرے گا ، رب تعالیٰ فرمائے گا : یہیں ٹھہرو ، پھر کہا جائے گا : ہم ابھی تجھ پر گواہ پیش کرتے ہیں ، وہ اپنے دل میں غور و فکر کرے گا ، وہ کون ہے جو میرے خلاف گواہی دے گا ، اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی ، اور اس کی ران سے کہا جائے گا ، بولو ، چنانچہ اس کی ران ، اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے عمل کے مطابق کلام کریں گی ، اور یہ اس لیے ہو گا تا کہ اللہ تعالیٰ اس کے نفس کی طرف سے اس کا عذر زائل کر دے ، اور یہ منافق شخص ہو گا ، اور یہ وہ ہو گا جس پر اللہ ناراض ہو گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
اور ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث ((یدخل من امتی الجنۃ)) بروایت ابن عباس ؓ ، باب التوکل میں ذکر کی گئی ہے ۔
ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ میرے رب نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ میری امت سے ستر ہزار افراد حساب و عذاب کے بغیر جنت میں لے جائے گا ۔ اور ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے ۔ اور مزید یہ کہ میرے رب کی طرف سے تین چلو ہوں گے ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد و الترمذی و ابن ماجہ ۔
حسن بصری ؒ ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ روزِ قیامت لوگ تین بار (اللہ کے حضور) پیش کیے جائیں گے ، پہلی دو مرتبہ کی پیشی میں جھگڑا اور معذرت ہو گی اور تیسری پیشی کے وقت ہاتھوں کی طرف اعمال نامے اڑیں گے ، چنانچہ کوئی انہیں اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑنے والا ہو گا اور کوئی بائیں میں ۔‘‘ اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث اس وجہ سے صحیح نہیں کہ حسن بصری ؒ نے ابوہریرہ ؓ سے نہیں سنا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد ۔
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ روزِ قیامت اللہ میری امت کے ایک آدمی کو ساری مخلوق کے سامنے لائے گا اور اس کے ننانوے رجسٹر کھولے گا ، اور ہر رجسٹر کی لمبائی حد نظر تک ہو گی ، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تم ان میں سے کسی چیز کا انکار کرتے ہو (کہ تم نے نہ کی ہو) ؟ یا میرے لکھنے والوں نے ، حفاظت کرنے والوں نے تم پر کوئی ظلم کیا ہو ؟ وہ عرض کرے گا ، رب جی ! نہیں ، اللہ فرمائے گا : کیا تیرے پاس کوئی عذر ہے ؟ وہ عرض کرے گا : رب جی ؟ نہیں ، اللہ فرمائے گا : ہاں ہمارے پاس تیری ایک نیکی ہے ، کیونکہ آج تم پر کوئی ظلم نہیں ہو گا ، ایک کارڈ نکالا جائے گا ، اس پر درج ہو گا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور یہ کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ اللہ فرمائے گا : وزن پر حاضر ہو ، وہ عرض کرے گا : رب جی ! ان رجسٹروں کے مقابلے میں اس کارڈ کی کیا حیثیت ہے ؟ چنانچہ اللہ وہ فرمائے گا : آج تم پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا ، فرمایا : ایک پلڑے میں وہ دفاتر رکھے جائیں گے اور دوسرے پلڑے میں وہ کارڈ رکھا جائے گا تو وہ دفاتر ہلکے پڑ جائیں گے اور وہ کارڈ بھاری ہو جائے گا ، اللہ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز بھاری نہیں ہو سکتی ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے جہنم کی آگ کو یاد کیا تو وہ رو پڑیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تمہیں کون سی چیز رلا رہی ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، میں نے جہنم کی آگ کو یاد کیا تو میں رو پڑی ، تو کیا روزِ قیامت آپ اپنے اہل خانہ کو یاد رکھیں گے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ سن لو ! تین مقامات ہیں ، جہاں کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا ، میزان کے موقع پر حتی کہ وہ جان لے کہ آیا اس کی میزان ہلکی پڑتی ہے یا وہ بھاری ہوتی ہے ، نامہ اعمال کے وقت ، جب کہا جائے گا :’’ آؤ اپنا نامہ اعمال پڑھو ۔‘‘ حتی کہ وہ جان لے کہ اس کا نامۂ اعمال کہاں دیا جاتا ہے ، اس کے دائیں ہاتھ میں یا اس کی پشت کے پیچھے سے اس کے بائیں ہاتھ میں ملتا ہے ، اور پل صراط کے موقع پر جب اسے جہنم پر رکھا جائے گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، ایک آدمی آیا اور وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا تو اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میرے کچھ غلام ہیں ، وہ میرے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں ، خیانت کرتے ہیں ، اور میری نافرمانی کرتے ہیں ، جبکہ میں انہیں برا بھلا کہتا ہوں اور انہیں مارتا ہوں ، ان کی وجہ سے (اللہ تعالیٰ کے ہاں) میرا معاملہ کیسا ہو گا ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب روزِ قیامت ہو گا تو انہوں نے تجھ سے جو خیانت کی ہو گی ، تیری نافرمانی کی ہو گی اور تجھ سے جھوٹ بولا ہو گا ان کا اور تو نے جو انہیں سزا دی ہو گی اس کا حساب کیا جائے گا ، اگر تیری سزا ان کی غلطیوں کے مطابق ہوئی تو پھر معاملہ برابر رہے گا تیرے لیے کوئی ثواب و عقاب نہیں ہو گا اور اگر تیری سزا ان کی خطاؤں سے کم رہی تو پھر تجھے زائد حق حاصل ہو گا اور اگر تیری سزا ان کے گناہوں سے زیادہ ہوئی تو پھر اس کی زیادتی کا تجھ سے انہیں بدلہ دلایا جائے گا ۔‘‘ (یہ سن کر) وہ آدمی (مجلس سے) دور ہو کر چیخنے اور رونے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا :’’ کیا تم اللہ کا فرمان نہیں پڑھتے :’’ ہم روز ِ قیامت انصاف کا ترازو قائم کریں گے تو کسی جان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا ، اگر (عمل و ظلم) رائی کے دانے کے برابر بھی ہو ، تو ہم اسے لے آئیں گے اور کافی ہیں ہم حساب کرنے والے ۔‘‘ چنانچہ اس آدمی نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں اپنے لیے اور ان کے لیے ، ان کی علیحدگی سے بہتر کوئی چیز نہیں پاتا ، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ وہ سارے آزاد ہیں ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو ان کی کسی نماز میں یہ دعا ((اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَّسِیْرًا)) ’’ اے اللہ ! میرا آسان حساب لینا ۔‘‘ کرتے ہوئے سنا تو میں نے عرض کیا ، اللہ کے نبی ! آسان حساب سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ (اس سے مراد یہ ہے کہ) (اللہ تعالیٰ) اس کے نامہ اعمال پر نظر ڈال کر اس سے درگزر فرمائے گا ، کیونکہ عائشہ ! اس روز جس کے حساب کی جانچ پڑتال کی گئی تو وہ مارا گیا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ احمد ۔
ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے تو انہوں نے عرض کیا : مجھے بتائیں کہ اللہ عزوجل نے جو یہ فرمایا ہے :’’ اس دن لوگ رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے ۔‘‘ تو روزِ قیامت کھڑے ہونے کی کون طاقت رکھے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ (قیامت کا دن) مومن پر ہلکا کر دیا جائے گا حتی کہ وہ اس پر فرض نماز کی طرح ہو گا ۔‘‘ حسن ، رواہ البیھقی فی البعث و النشور ۔
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ سے اس دن کے متعلق دریافت کیا گیا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہو گی کہ اس دن کی طوالت کس قدر ہو گی (کیا لوگ اتنا لمبا قیام کر سکیں گے) ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اس (دن) کو مومن پر اس قدر آسان کر دیا جائے گا کہ وہ اس پر فرض نماز سے بھی ہلکا ہو جائے گا جو اس نے دنیا میں پڑھی تھی ۔‘‘ دونوں احادیث کو امام بیہقی نے ’’ کتاب البعث و النشور ‘‘ میں نقل کیا ہے ۔ حسن ، رواہ البیھقی فی البعث و النشور ۔
اسماء بنت یزید ؓ ، رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتی ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ روزِ قیامت تمام لوگوں کو ایک جگہ پر جمع کیا جائے گا تو اعلان کرنے والا اعلان کرے گا : وہ تہجد گزار کہاں ہیں ؟ وہ کھڑے ہوں گے اور وہ قلیل ہوں گے ، اور وہ بغیر حساب جنت میں جائیں گے ، پھر باقی لوگوں کے حساب کے متعلق حکم فرمایا جائے گا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔