جابر بن عبداللہ ؓ ، رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ مجھے اجازت دی گئی کہ میں اللہ کے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کا ذکر کروں جو حاملین عرش میں سے ہے ، اس کے کانوں کی لو اور اس کے کندھوں کے درمیان سات سو سال کی مسافت ہے ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
زرارہ بن اوفی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جبریل ؑ سے پوچھا :’’ کیا تم نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟‘‘ (اس سوال سے) جبریل ؑ لرز گئے اور فرمایا : محمد ! میرے اور اس کے درمیان نور کے ستر پردے ہیں ، اگر میں ان میں سے کسی کے قریب چلا جاؤں تو میں جل جاؤں ۔‘‘ المصابیح میں اس طرح ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی مصابیح السنہ ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ نے اسرافیل ؑ کو پیدا فرمایا ، اس نے جس روز سے اسے پیدا فرمایا وہ اس وقت سے اپنے قدموں پر کھڑا ہے اور وہ اپنی نظر تک نہیں اٹھاتا ، اس کے اور اس کے رب تبارک و تعالیٰ کے درمیان ستر نور ہیں ، جو اس نور کے قریب جاتا ہے تو وہ جل جاتا ہے ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ جب اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ اور اس کی اولاد کو پیدا فرمایا تو فرشتوں نے عرض کیا ، رب جی ! تو نے انہیں پیدا فرمایا ہے ، وہ کھاتے پیتے ، شادیاں کرتے اور سواری کرتے ہیں ، اور تو ان کے لیے دنیا مقرر کر دے اور ہمارے لیے آخرت مقرر فرما دے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں اس (مخلوق) کو ، جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے تخلیق کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی ، اسے میں اس مخلوق کے برابر نہیں کروں گا جسے میں نے کہا بن جا اور وہ بن گئی ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :’’ اللہ نے مٹی (زمین) کو ہفتے کے دن پیدا فرمایا ، اتوار کے روز اس میں پہاڑ پیدا فرمائے ، پیر کے دن درخت پیدا فرمائے ، مکروہ چیزیں منگل کے دن پیدا فرمائیں ، بدھ کے روز نور پیدا فرمایا ، جمعرات کے روز اس میں چوپائے پھیلائے اور آدم ؑ کو جمعہ کے دن عصر کے بعد مخلوق میں سب سے آخر پر پیدا فرمایا ، اور دن کی آخری گھڑی عصر اور شام کے درمیان ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، اس اثنا میں کہ نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک بادل آیا تو اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ عنان ہے ، یہ زمین کو سیراب کرنے والا ہے ، اللہ اس کو اس قوم کی طرف ہانک کر لے جاتا ہے جو نہ تو اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور نہ اس سے دعا کرتے ہیں ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ کیا تم جانتے ہو تمہارے اوپر کیا ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ رقیع (آسمان کا نام) ایک محفوظ چھت اور تھمی ہوئی موج ہے ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے اور اس کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، فرمایا :’’ تمہارے اور اس کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ کیا تم جانتے ہو کہ اس کے اوپر کیا ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، فرمایا :’’ آسمان اور ان دونوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے ۔‘‘ راوی بیان کرتا ہے کہ پھر آپ ﷺ نے اسی طرح فرمایا حتی کہ آپ نے سات آسمان گنے ۔’’ اور ہر دو آسمان کے درمیان اتنی ہی مسافت ہے جتنی آسمان اور زمین کے درمیان ہے ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ کیا تم جانتے ہو اس کے اوپر کیا ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس کے اوپر عرش ہے ، اس کے اور آسمان کے درمیان اتنی ہی مسافت ہے جتنی دو آسمانوں کے درمیان ہے ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے نیچے کیا ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، فرمایا :’’ وہ زمین ہے ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ کیا تم جانتے ہو اس کے نیچے کیا ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، فرمایا :’’ اس کے نیچے ایک دوسری زمین ہے ، ان دونوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے ۔‘‘ حتی کہ آپ ﷺ نے سات زمینیں شمار کیں ۔’’ اور ہر دو زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے ! اگر تم نچلی زمین کی طرف رسی لٹکاؤ تو وہ اللہ کے علم میں ہے ۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی :’’ وہی اول ، وہی آخر ، وہی ظاہر ، وہی باطن ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے ۔‘‘
اور امام ترمذی نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کی قراءتِ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ وہ اللہ کے علم ، اس کی قدرت اور اس کی بادشاہت میں گرتی ہے ، اور اللہ کا علم و قدرت اور اس کی بادشاہت ہر جگہ پر ہے جبکہ وہ عرش پر (مستوی) ہے ، جیسا کہ اس نے اپنے متعلق اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی ۔
ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! سب سے پہلے نبی کون تھے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ آدم ؑ ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا وہ نبی تھے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں ، ایسے نبی تھے جن پر صحیفہ نازل کیا گیا تھا ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! رسول کتنے تھے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تین سو اور دس سے کچھ اوپر کا جم غفیر تھا ۔‘‘ اور ابوامامہ ؓ کی روایت میں ہے ، ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! انبیا ؑ کی کل تعداد کتنی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ایک لاکھ چوبیس ہزار ، ان میں سے رسولوں کی تعداد تین سو پندرہ ایک جم غفیر ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ خبر ، مشاہدے کی طرح نہیں ہوتی ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موسی ؑ کو ان کی قوم کے بچھڑے کو معبود بنانے کے متعلق بتایا تو انہوں نے الواح (تختیاں) نہیں پھینکیں ، جب انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا جو انہوں نے کیا تھا ، تو انہوں نے تختیاں پھینک دیں اور وہ ٹوٹ گئیں ۔‘‘ تینوں (بلکہ چاروں) احادیث کو امام احمد ؒ نے نقل کیا ہے ۔ صحیح ، رواہ احمد ۔