جبیر بن مطعم ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ میرے بہت سے نام ہیں : میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں اللہ میرے ذریعے کفر کو مٹا دے گا ، میں حاشر ہوں کہ تمام لوگ میرے بعد اٹھائے جائیں گے ، اور میں عاقب ہوں ۔‘‘ اور عاقب اسے کہتے ہیں جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔ متفق علیہ ۔
ابوموسی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ اپنی ذات مبارکہ کے نام ہمیں بتایا کرتے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں آخر پر آنے والا ہوں ، (میرے بعد کوئی نبی نہیں) ، میں حاشر ہوں ، میں نبی توبہ ہوں (اللہ کے حضور بہت زیادہ رجوع کرنے والا) اور نبی رحمت ہوں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تم تعجب نہیں کرتے کہ اللہ قریش کے سب و شتم اور ان کے لعن طعن کرنے کو کس طرح مجھ سے دور کرتا ہے ؟ وہ مذمم (نعوذ باللہ جس کی مذمت کی گئی ہو) کہہ کر سب و شتم اور لعن طعن کرتے ہیں ، جبکہ میں محمد (ﷺ) ہوں ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے سر مبارک اور داڑھی کے اگلے حصے کے کچھ بال سفید ہو چکے تھے ، جب آپ تیل لگاتے تھے تو وہ نظر نہیں آتے تھے ، اور جب آپ کے سر کے بالوں میں کنگھی نہیں کی ہوتی تھی تو وہ نظر آ جاتے تھے ، آپ کی داڑھی کے بال گھنے تھے ، کسی آدمی نے کہا : آپ کا چہرہ مبارک (چمک کے لحاظ سے) تلوار کی طرح تھا ، جابر ؓ نے فرمایا : نہیں ، بلکہ سورج اور چاند کی طرح چمکتا تھا ، رخ انور گول تھا ، میں نے آپ کے کندھے کے پاس مہر نبوت دیکھی جو کہ کبوتری کے انڈے کی طرح تھی اور وہ آپ کے جسم اطہر (کے رنگ) کے مشابہ تھی ۔ رواہ مسلم ۔
عبداللہ بن سرجس ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی ﷺ کو دیکھا اور آپ کے ساتھ گوشت روٹی کھائی ، یا کہا : ثرید کھائی ، پھر میں گھوم کر آپ کے پچھلی جانب گیا اور میں نے آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان بائیں کندھے کی نرم ہڈی کے پاس مہر نبوت دیکھی ، وہ بند مٹھی کی طرح تھی اس پر دو تل تھے ، جیسے مسّے ہوں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ام خالد بنت خالد بن سعید ؓ بیان کرتی ہیں ، نبی ﷺ کے پاس کچھ کپڑے لائے گئے ان میں ایک چھوٹی سی کالی چادر تھی ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ام خالد کو میرے پاس لاؤ ، اسے اٹھا کر لایا گیا ، آپ نے اپنے دست مبارک سے وہ چادر پکڑی اور اسے پہنا دی ، اور فرمایا :’’ تم اسے بوسیدہ کرو اور تم اسے پرانا کرو (دیر تک جیتی رہو) ، تم اسے بوسیدہ کرو اور اسے پرانا کرو ۔‘‘ اس (چادر) میں سبز یا زرد رنگ کے نشانات تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ام خالد ! یہ ’’سناہ‘‘ ہے ۔‘‘ اور یہ (سناہ) حبشی زبان کا لفظ ہے یعنی خوبصورت ؟ وہ بیان کرتی ہیں ، میں مہر نبوت کے ساتھ کھیلنے لگی تو میرے والد نے مجھے ڈانٹا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اسے چھوڑ دو ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ زیادہ لمبے قد کے تھے نہ چھوٹے قد کے نہ بالکل سفید تھے اور نہ گندمی رنگ کے ، آپ کے بال نہ بہت زیادہ گھنگریالے تھے نہ سیدھے ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو چالیس سال کی عمر میں مبعوث فرمایا ، آپ نے مکہ میں دس سال قیام فرمایا اور مدینہ میں بھی دس سال قیام فرمایا ، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ساٹھ سال کی عمر میں وفات دی اور (اس وقت) آپ کے سر اور داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہیں تھے ۔
ایک دوسری روایت میں انس ؓ نے نبی ﷺ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا : آپ کا قد درمیانہ تھا نہ لمبا تھا اور نہ چھوٹا ، کھلتا اور چمکتا ہوا رنگ تھا ، اور رسول اللہ ﷺ کے بال کانوں کے نصف تک تھے ، ایک دوسری روایت میں ہے ، آپ ﷺ کے بال دونوں کانوں اور کندھوں کے درمیان تھے ۔
اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے : آپ ﷺ کا سر اور پاؤں ضخیم تھے ، میں نے آپ کے بعد یا پہلے آپ جیسا کوئی دوسرا شخص نہیں دیکھا ، آپ ﷺ کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں ، صحیح بخاری کی دوسری روایت میں ہے : آپ ﷺ کے پاؤں اور ہاتھ موٹے تھے ۔ متفق علیہ ۔
براء ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ درمیانے قد کے تھے ، آپ کی چھاتی کشادہ تھی ، آپ کے سر کے بال کانوں کی لو تک تھے ، میں نے آپ کو سرخ جوڑے میں دیکھا ، میں نے آپ سے زیادہ حسین کسی کو نہیں دیکھا ۔ اور مسلم کی روایت میں ہے ، میں نے کانوں کی لو تک بالوں والے اور سرخ جوڑے میں ملبوس کسی شخص کو رسول اللہ ﷺ سے زیادہ حسین نہیں دیکھا آپ کے بال آپ کے کندھوں پر پڑتے تھے ، آپ کی چھاتی کشادہ تھی ، اور آپ نہ زیادہ لمبے تھے اور نہ چھوٹے تھے ۔ متفق علیہ ۔
سماک بن حرب ، جابر بن سمرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا ، رسول اللہ ﷺ ضلیع الفم ، اشکل العین اور منھوش العقبین تھے ۔ سماک ؒ سے پوچھا گیا ، ضلیع الفم سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے کہا : کشادہ چہرے والے ، پوچھا گیا ، اشکل العین سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا : آپ ﷺ کی آنکھیں بڑی اور طویل تھیں ، پھر پوچھا گیا : منھوش العقبین سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے کہا : آپ ﷺ کی ایڑھیاں پتلی تھیں ۔ رواہ مسلم ۔
ثابت ؓ بیان کرتے ہیں کہ انس ؓ سے رسول اللہ ﷺ کے خضاب کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : آپ کے بال اس قدر سفید نہیں تھے کہ انہیں خضاب کیا جاتا ، اگر میں آپ کی داڑھی کے سفید بال گننا چاہتا ، تو گن سکتا تھا ۔ ایک دوسری روایت میں ہے : اگر میں آپ ﷺ کے سر کے سفید بال گننا چاہتا تو گن سکتا تھا ۔
اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے ، آپ ﷺ کے عنفقہ (نچلے ہونٹ اور تھوڑی کے درمیان) میں ، آپ کی کن پٹیوں میں اور آپ کے سر میں چند سفید بال تھے ۔ متفق علیہ ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کی رنگت میں چمک دمک تھی آپ کے پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح تھے ، جب آپ چلتے تو آگے کی طرف جھک کر چلتے تھے ، میں نے رسول اللہ ﷺ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ، دیباج اور ریشم کو بھی نہیں پایا اور نبی ﷺ کے بدن اطہر سے زیادہ معطر ، کستوری یا عنبر کی خوشبو نہیں سونگھی ۔ متفق علیہ ۔
ام سلیم ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ان کے ہاں تشریف لایا کرتے اور وہیں قیلولہ فرمایا کرتے تھے ، وہ چمڑے کی چٹائی بچھا دیتیں اور آپ اس پر قیلولہ فرماتے ، آپ کو پسینہ بہت آتا تھا ، وہ آپ کا پسینہ جمع کر لیتیں اور پھر اسے خوشبو میں شامل کر لیتیں ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ ام سلیم ! یہ کیا ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : آپ کا پسینہ ہے ، ہم اسے اپنی خوشبو کے ساتھ ملا لیتے ہیں ، آپ کا پسینہ ایک بہترین خوشبو ہے ، ایک دوسری روایت میں ہے ۔ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم اس کے ذریعے اپنے بچوں کے لیے برکت حاصل کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم نے ٹھیک کیا ۔‘‘ متفق علیہ ۔
جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز اولی (فجر یا ظہر) پڑھی ، پھر آپ اپنے اہل خانہ کی طرف تشریف لے گئے ، میں بھی آپ کے ساتھ ہی (مسجد سے) نکل آیا ، راستے میں کچھ بچے آپ سے ملے تو آپ نے باری باری ان کے رخساروں پر دست شفقت پھیرا جبکہ آپ نے میرے دونوں رخساروں پر دستِ شفقت پھیرا ۔ میں نے آپ ﷺ کے دست مبارک کی ٹھنڈک اور خوشبو ایسے محسوس کی گویا آپ نے اسے عطار کے ڈبے سے نکالا ہے ۔ رواہ مسلم ۔
جابر ؓ سے مروی حدیث : ((سموا باسمی .....)) ’’باب الاسامی‘‘ میں اور سائب بن یزید ؓ سے مروی حدیث ((نظرت الیٰ خاتم النبوۃ .....)) ’’باب احکام المیاہ‘‘ میں بیان کی گئی ہے ۔
علی بن ابی طالب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ لمبے قد کے تھے نہ چھوٹے قد کے ، سر مبارک ضخیم تھا ، داڑھی گھنی تھی ، ہاتھ اور پاؤں بھاری تھے ، سرخ و سفید رنگ تھا ، ہڈیوں کے جوڑ مضبوط تھے ، آپ کے سینے سے ناف تک بالوں کی لمبی لکیر تھی ، جب آپ چلتے تو آگے کو جھکے ہوتے گویا آپ بلندی سے نیچے اتر رہے ہیں ، اور میں نے آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں آپ جیسا کوئی دیکھا نہ آپ کے بعد ۔ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ حسن ، رواہ الترمذی ۔
علی بن ابی طالب ؓ جب نبی ﷺ کے اوصاف بیان کرتے تو فرماتے : آپ ﷺ زیادہ لمبے تھے نہ زیادہ چھوٹے تھے بلکہ آپ درمیانہ قد تھے ، آپ کے بال بالکل گھنگریالے تھے نہ بالکل سیدھے بلکہ ان دونوں صورتوں کے درمیان تھے ، آپ کا چہرہ مبارک بالکل گول نہیں تھا ، بلکہ قدرے گولائی میں تھا ، آپ کا رنگ سرخی مائل سفید تھا ، آنکھیں سیاہ ، دراز پلکیں ، جوڑوں کی ہڈیاں اٹھی ہوئی مضبوط تھیں ، کندھوں کا درمیانی حصہ بھی بڑا اور مضبوط تھا ، آپ کے بدن پر بال نہیں تھے ، بس سینے اور ناف تک ایک لکیر تھی ، ہاتھ اور پاؤں بھاری تھے ، جب آپ چلتے تو پاؤں اٹھا کر رکھتے گویا آپ بلندی سے اتر رہے ہیں ، جب آپ کسی کی طرف التفات فرماتے تو مکمل توجہ فرماتے ، آپ کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی ، اور آپ خاتم النبیین ہیں ، آپ سب سے بڑھ کر دل کے سخی تھے ، سب سے زیادہ صاف گو تھے ، سب سے زیادہ نرم مزاج تھے ، قبیلے کے لحاظ سے سب سے زیادہ معزز تھے ، جو آپ کو اچانک دیکھتا تو وہ ہیبت زدہ ہو جاتا ، جو آپ کی صحبت اختیار کرتا اور واقفیت حاصل کر لیتا تو وہ آپ سے والہانہ محبت کرنے لگتا ، اور آپ کے وصف بیان کرنے والا (آخر پر) یہ کہتا : میں نے آپ ﷺ جیسا آپ کی حیات مبارکہ میں کوئی دیکھا نہ آپ کے بعد ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جس راہ سے گزر جاتے تو آپ کے بعد اس راہ سے گزرنے والا آپ کی خوشبو سے یا آپ کے معطر پسینے سے پہچان لیتا کہ آپ ﷺ یہاں سے گزرے ہیں ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔
ابو عبیدہ بن محمد بن عمار بن یاسر بیان کرتے ہیں ، میں نے ربیع بنت معوذ بن عفراء ؓ سے کہا : آپ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے اوصاف سے آگاہ کریں ، انہوں نے فرمایا : بیٹے ! اگر تم انہیں دیکھتے تو تم (ان کے چہرے مبارک کو) چمکتا ہوا سورج دیکھتے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الدارمی ۔
جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے چاندنی رات میں نبی ﷺ کو دیکھا تو میں (باری باری) رسول اللہ ﷺ اور چاند کی طرف دیکھنے لگا ، آپ نے سرخ جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا ، اور اس وقت میری نظر میں آپ چاند سے بھی زیادہ خوبصورت تھے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی و الدارمی ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ حسین چیز کوئی نہیں دیکھی ، گویا آپ کے چہرے مبارک پر سورج جلوہ ریز ہے ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ تیز رفتار کسی کو نہیں دیکھا گویا آپ کے لیے زمین لپیٹی جا رہی ہے ، ہم پوری طرح تیز چلنے کی کوشش کرتے لیکن آپ ﷺ پروا کیے بغیر چلتے رہتے (پھر بھی ہم آپ تک نہیں پہنچ سکتے تھے) ۔ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کی پنڈلیاں پتلی تھیں آپ ﷺ صرف تبسم فرمایا کرتے تھے ، جب میں آپ کو دیکھتا تو میں کہتا کہ آپ نے آنکھوں میں سرمہ لگایا ہوا ہے ، حالانکہ آپ نے سرمہ نہیں لگایا ہوتا تھا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے سامنے کے دو دانت کشادہ تھے ، جب آپ گفتگو فرماتے تو ایسے معلوم ہوتا کہ آپ کے دو دانتوں سے نور برس رہا ہے ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الدارمی ۔
کعب بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں ، جب رسول اللہ ﷺ خوش ہوتے تھے تو آپ کا چہرہ چمک جاتا اور رخ انور ایسے لگتا جیسے کہ وہ چاند کا ٹکڑا ہے اور ہم یہ چیز پہچان لیتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا ، نبی ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا ، وہ بیمار ہو گیا تو نبی ﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے آپ نے اس کے والد کو اس کے سر کے پاس تورات پڑھتے دیکھ کر فرمایا :’’ اے یہودی ! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسی ؑ پر تورات نازل فرمائی ، (بتاؤ) کیا تم تورات میں میری ذات و صفات کے متعلق کچھ لکھا ہوا پاتے ہو ؟‘‘ اس نے کہا : نہیں لیکن وہ لڑکا کہنے لگا ، اللہ کی قسم ! اللہ کے رسول ! ہم آپ ﷺ کی ذات و صفات اور آپ کی تشریف آوری کے متعلق تورات میں لکھا ہوا پاتے ہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور آپ اللہ کے رسول ہیں ، نبی ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا :’’ اس کو اس (لڑکے) کے سرہانے سے اٹھا دو اور تم اپنے (اسلامی) بھائی کی (تجہیز و تکفین کے متعلق) سر پرستی کرو ۔‘‘ حسن ، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ ۔