عمرو بن سعید ، انس ؓ سے روایت کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کسی کو اپنے بچوں کے ساتھ مہربان نہیں دیکھا ، آپ کے بیٹے ابراہیم مدینے کے دیہات میں زیر رضاعت تھے ، آپ (وہاں) تشریف لے جایا کرتے تھے ، ہم بھی آپ کے ساتھ ہوتے تھے ، آپ اس گھر میں داخل ہو جاتے ، اس میں دھواں ہوتا تھا ، کیونکہ ابراہیم کی دایہ کا شوہر لوہار تھا ، آپ ﷺ اسے پکڑتے اس کا بوسہ لیتے اور پھر واپس آ جاتے تھے ۔ عمرو بیان کرتے ہیں ، جب ابراہیم فوت ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میرا بیٹا ابراہیم چونکہ شیر خوارگی کے عالم میں فوت ہوا ہے اس لئے جنت میں اس کے لیے دو دایہ ہیں جو مدت رضاعت مکمل کریں گی ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
علی ؓ سے روایت ہے کہ فلاں نام سے موسوم ایک یہودی عالم تھا ، اس کا رسول اللہ ﷺ پر کچھ دینار قرض تھا ، اس نے نبی ﷺ سے تقاضا کیا تو آپ ﷺ نے اسے فرمایا :’’ یہودی ! تمہیں دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ۔‘‘ اس نے کہا : محمد ! میں تو لے کر ہی یہاں سے ہلوں گا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اچھا پھر میں تمہارے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں ۔‘‘ آپ اس کے ساتھ بیٹھ گئے ، رسول اللہ ﷺ نے ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء اور فجر کی نماز اس کے ساتھ ادا کی ، رسول اللہ ﷺ کے صحابہ اسے ڈراتے دھمکاتے رہے ، رسول اللہ ﷺ کو صحابہ کرام کے اس عمل کی اطلاع ہو گئی ، تو انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ایک یہودی نے آپ کو روک رکھا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میرے رب نے کسی ذمی وغیرہ پر ظلم کرنے سے مجھے منع فرمایا ہے ۔‘‘ جب سورج بلند ہوا (دن چڑھا) تو اس یہودی نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ میرا نصف مال اللہ کی راہ میں وقف ہے ؟ سن لو ، اللہ کی قسم ! میں نے آپ کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا وہ محض اس لیے کیا تا کہ میں تورات میں آپ کا مذکورہ تعارف دیکھ سکوں ، محمد بن عبداللہ ان کی جائے پیدائش مکہ ، دارِ ہجرت طیبہ (مدینہ منورہ) ، ان کی سلطنت شام تک ، وہ بد زبان ہیں نہ سخت دل اور نہ ہی بازاروں میں شور و غل کرنے والے ہیں ، وہ فحش پوش ہیں نہ فحش گو ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ، اور یہ مال ہے آپ اللہ کے احکامات کی روشنی میں اس میں جس طرح چاہیں تصرف فرمائیں ، اور یہودی بہت زیادہ مال دار تھا ۔ اسنادہ موضوع ، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ ۔
عبداللہ بن ابی اوفی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ ذکر کثرت سے کیا کرتے تھے ، بے مقصد بات بہت ہی کم کیا کرتے تھے ، نماز (خاص طور پر جمعہ کی نماز) لمبی پڑھا کرتے تھے ۔ خطبہ مختصر دیا کرتے تھے ، آپ بیواؤں اور مساکین کے ساتھ چلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے اور آپ ان کے کام کرتے اور ان کی ضرورتیں پوری کرتے تھے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ النسائی و الدارمی ۔
علی ؓ سے روایت ہے کہ ابوجہل نے نبی ﷺ سے کہا : ہم آپ کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ ہم تو اس چیز کی تکذیب کرتے ہیں ، جو آپ لے کر آئے ہیں ، تب اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی :’’ یہ لوگ آپ کی تکذیب نہیں کرتے ، بلکہ ظالم لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ عائشہ ! اگر میں چاہوں تو سونے کے پہاڑ میرے ساتھ چلیں ، ایک فرشتہ میرے پاس آیا ، اس کی کمر (کی چوڑائی) کعبہ (کے طول) کے برابر تھی ، اس نے (آ کر) کہا : تمہارا رب تمہیں سلام کہتا ہے ، اور وہ کہتا ہے : اگر آپ چاہیں تو آپ کو عابد نبی بنا دیتے ہیں اور اگر آپ پسند فرمائیں تو آپ کو بادشاہ پیغمبر بنا دیتے ہیں ، میں نے جبریل ؑ کی طرف دیکھا تو انہوں نے میری طرف اشارہ کیا کہ اپنے آپ کو پست و عاجز رکھو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
اور ابن عباس ؓ کی روایت میں ہے ، رسول اللہ ﷺ نے جبریل ؑ کی طرف دیکھا جیسے آپ ان سے مشورہ کر رہے ہیں ، جبریل ؑ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ آپ تواضع اختیار کریں ، میں نے کہا : میں عبادت گزار نبی بننا پسند کرتا ہوں ۔ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ ٹیک لگا کر نہیں کھایا کرتے تھے ، اور فرمایا کرتے تھے :’’ میں ایسے کھاؤں گا ، جیسے (عام) بندہ ، کھاتا ہے ، اور میں ایسے بیٹھوں گا ، جیسے بندہ بیٹھتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔