ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اس (دین یا خلافت) کے معاملے میں لوگ قریش کے تابع ہیں ، ان (لوگوں) کے مسلمان ، قریشی مسلمانوں کے تابع ہیں ، اور ان (عام لوگوں) کے کافر ، ان (قریش کے) کافروں کے تابع ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
معاویہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے :’’ یہ خلافت قریش میں رہے گی جب تک وہ دین کو قائم رکھیں گے ، اور جو شخص ان کی مخالفت کرے گا اللہ اسے چہرے کے بل اوندھا کر کے ذلیل کر دے گا ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ بارہ خلیفوں تک اسلام غالب رہے گا اور وہ سب قریش سے ہوں گے ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے :’’ لوگوں کے معاملات صحیح اور درست چلتے رہیں گے جب تک بارہ آدمی ان کے حکمران رہیں گے ، وہ سب قریش سے ہوں گے ۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے :’’ قیامت تک دین قائم رہے گا اور ان پر بارہ خلیفے ہوں گے اور وہ سب قریش سے ہوں گے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قبیلہ غفار جو ہے ، اللہ نے انہیں معاف فرما دیا ، قبیلہ اسلم کو اللہ نے سلامت رکھا اور جو قبیلہ عصیہ ہے اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قریش ، انصار ، جہینہ ، مزینہ ، اسلم ، غفار اور اشجع قبیلے میرے حمایتی ہیں ، اور اللہ اور اس کے رسول کے سوا ان کا کوئی حمایتی نہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوبکرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اسلم ، غفار ، مزینہ ، اور جہینہ قبیلے ، بنو تمیم اور بنو عامر قبیلوں سے بہتر ہیں ، اور وہ دو حلیفوں بنو اسد اور غطفان سے بھی بہتر ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے بنو تمیم کے متعلق جب سے رسول اللہ ﷺ سے تین خصلتیں سنی ہیں ، تب سے میں انہیں محبوب رکھتا ہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میری امت میں سے وہ دجال پر سب سے زیادہ سخت ہوں گے ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، ان کے صدقات آئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ ہماری قوم کے صدقات ہیں ۔‘‘ اور عائشہ ؓ کے پاس ان کے کچھ قیدی تھے ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ انہیں آزاد کر دو کیونکہ وہ اسماعیل ؑ کی اولاد میں سے ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اے اللہ ! تو نے (بدر و احزاب میں) قریش کے پہلے افراد کو عذاب میں مبتلا کیا ، تو ان کے بعد والوں کو انعام عطا فرما ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی ۔
ابوعامر اشعری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اسد اور اشعر قبیلے اچھے ہیں ، وہ میدان جہاد سے فرار ہوتے ہیں نہ خیانت کرتے ہیں ، وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ۔‘‘ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ازد قبیلہ زمین پر اللہ کا لشکر ہے ، لوگ چاہتے ہیں کہ وہ انہیں نیچا دکھائیں لیکن اللہ نے اس بات کا انکار فرما دیا ہے ، وہ انہیں رفعت ہی عطا فرماتا ہے ، لوگوں پر ایک ایسا وقت بھی آئے گا کہ آدمی خواہش کرے گا کہ کاش میرا والد ازدی ہوتا اور کاش میری والدہ ازدی ہوتی ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
عمران بن حصین ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے وفات پائی تو وہ تین قبیلوں کو ناپسند فرماتے تھے ، ثقیف ، بنو حنیفہ اور بنو امیہ ۔ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ثقیف (قبیلے) میں ایک شخص کذاب اور ایک ظالم ہو گا ۔‘‘ عبداللہ بن عصمہ نے کہا : کذاب سے مراد مختار بن ابی عبید اور ظالم سے مراد حجاج بن یوسف ہے ، ہشام بن حسان نے کہا : حجاج نے جن افراد کو باندھ کر قتل کیا ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تک پہنچتی ہے ۔ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
امام مسلم ؒ نے صحیح مسلم میں روایت کیا ہے ، جب حجاج نے عبداللہ بن زبیر ؓ کو قتل کیا تو اسماء ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حدیث بیان کی کہ ثقیف قبیلے میں ایک کذاب اور ایک ظالم ہو گا ۔ رہا کذاب تو ہم نے اسے دیکھ لیا اور رہا ظالم تو میرا خیال ہے کہ یہ وہی ہے ۔ رواہ مسلم ۔
اور مکمل حدیث تیسری فصل میں آئے گی ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، صحابہ ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ثقیف قبیلے کے تیروں نے ہمیں جلا کر رکھ دیا ہے ، آپ ان کے لیے اللہ سے بددعا فرمائیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اے اللہ ! ثقیف قبیلے کو ہدایت عطا فرما ۔‘‘ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
عبدالرزاق ، اپنے والد سے ، وہ میناء سے اور وہ ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا : ہم نبی ﷺ کے پاس تھے کہ آدمی آپ کے پاس آیا میرا خیال ہے قیس قبیلے سے تھا ، اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! حمیر قبیلے پر لعنت فرمائیں ، آپ نے اس سے اعراض فرمایا ، پھر وہ دوسری جانب سے آیا تو آپ نے اس سے اعراض فرمایا ، پھر وہ دوسری جانب سے آیا تو آپ ﷺ نے اس سے اعراض فرمایا ، نیز فرمایا :’’ اللہ حمیر پر رحم فرمائے ، ان کے منہ سلام کرتے ہیں ، ان کے ہاتھ کھانا کھلاتے ہیں ، اور وہ امن و امان والے ہیں ۔‘‘ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ، اور ہم اسے صرف عبدالرزاق کے طریق سے پہچانتے ہیں ، اور اس میناء سے منکر احادیث روایت کی جاتی ہیں ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الترمذی ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے مجھے فرمایا :’’ تم کس قبیلے سے ہو ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، دوس سے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نہیں سمجھتا تھا کہ دوس قبیلے کے کسی شخص میں بھلائی ہو ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
سلمان ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا :’’ مجھے ناراض نہ کرنا ورنہ تم اپنے دین سے نکل جاؤ گے ۔‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں آپ کو کیسے ناراض کر سکتا ہوں ، آپ کی وجہ سے اللہ نے ہمیں ہدایت نصیب فرمائی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم عربوں سے دشمنی رکھو گے تو تم مجھ سے دشمنی رکھو گے ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
عثمان بن عفان ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس نے عربوں کو فریب دیا تو وہ میری شفاعت میں داخل ہو گا نہ اسے میری مودّت نصیب ہو گی ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ ہم اس حدیث کو صرف حصین بن عمر کے طریق سے پہچانتے ہیں ، اور وہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الترمذی ۔
طلحہ بن مالک کی آزاد کردہ لونڈی ام الحریر بیان کرتی ہیں ، میں نے اپنے مالک کو بیان کرتے ہوئے سنا ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ عربوں کی ہلاکت قرب قیامت کی علامت ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ خلافت قریش میں ہے ، قضاء انصار میں ، اذان حبشیوں میں اور امانت ازد یعنی یمن میں ہے ۔‘‘ یہ روایت موقوف ہے ، امام ترمذی نے اسے روایت کیا ، اور فرمایا : اس کا موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
عبداللہ بن مطیع اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے کہا ، میں نے فتح مکہ کے روز رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ اس روز کے بعد روز قیامت تک کسی قریشی کو باندھ کر قتل نہ کیا جائے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابو نوفل معاویہ بن مسلم بیان کرتے ہیں ، میں نے عبداللہ بن زبیر ؓ کو مدینے کی گھاٹی پر (سولی پر لٹکتے ہوئے) دیکھا ، قریشی اور دوسرے لوگ ان کے پاس سے گزرتے رہے حتیٰ کہ عبداللہ بن عمر ؓ ان کے پاس سے گزرے اور وہاں ٹھہر کر فرمایا : ابو خبیب ! تم پر سلام ، ابو خبیب ! تم پر سلام ، ابو خبیب ! تم پر سلام ، اللہ کی قسم ! کیا میں تمہیں اس (خلافت کے معاملے) سے منع نہیں کرتا تھا ، اللہ کی قسم ! کیا میں نے تمہیں اس سے منع نہیں کیا تھا ؟ اللہ کی قسم ! میں تمہیں بہت روزے رکھنے والا ، بہت زیادہ قیام کرنے والا اور صلہ رحمی کرنے والا ہی جانتا ہوں ، سن لو ! اللہ کی قسم ! جو لوگ تجھے برا خیال کرتے ہیں حقیقت میں وہ خود برے ہیں ۔ ایک دوسری روایت میں ہے ، (جو تمہیں برا سمجھتے ہیں کیا) وہ لوگ اچھے ہیں ؟ پھر عبداللہ بن عمر ؓ چلے گئے ، حجاج کو عبداللہ کا مؤقف اور ان کی بات پہنچی تو اس نے انہیں بلا بھیجا ، ان (عبداللہ بن زبیر ؓ) کو سولی سے اتار دیا گیا اور انہیں یہودیوں کے قبرستان میں ڈال دیا گیا ۔ پھر حجاج نے ان کی والدہ اسماء بنت ابی بکر ؓ کو بلا بھیجا تو انہوں نے آنے سے انکار کر دیا ، پھر اس نے دوبارہ پیغام بھیجا کہ آپ آ جائیں ورنہ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جو تمہیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹ لائے گا ، راوی بیان کرتے ہیں ، انہوں نے انکار کیا اور کہا ، اللہ کی قسم ! میں تیرے پاس نہیں آؤں گی حتیٰ کہ تو اس شخص کو میرے پاس بھیجے جو میرے بالوں سے پکڑ کر مجھے گھسیٹے ، راوی بیان کرتے ہیں ، حجاج نے کہا : میرے جوتے مجھے دو ، اس نے اپنے جوتے پہنے اور تیز تیز چلتا ہوا ان تک پہنچ گیا ، اور کہا : بتاؤ ! اللہ کے دشمن کے ساتھ میں نے کیسا سلوک کیا ؟ اسماء ؓ نے فرمایا : میں سمجھتی ہوں کہ تو نے عبداللہ ؓ کی دنیا خراب کی اور اس نے تیری آخرت برباد کر دی ۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ تو (توہین کے انداز میں) اسے ذات النطاقین (دو ازار والی) کا بیٹا کہتا ہے ، اللہ کی قسم ! میں ذات النطاقین ہوں ، ان (ازار بندوں) میں سے ایک کے ساتھ میں رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ کے کھانے کو چوپایوں سے بچانے کے لیے ، اور رہا دوسرا تو اس سے کوئی بھی عورت بے نیاز نہیں ہو سکتی ، سن لو ! کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حدیث بیان فرمائی کہ ’’ثقیف میں ایک کذاب اور ایک ظالم ہو گا ۔‘‘ رہا کذاب تو ہم اسے دیکھ چکے ، اور رہا ظالم تو میرا خیال ہے کہ وہ تم ہی ہو ۔ راوی بیان کرتے ہیں ، وہ ان کے پاس سے چلا گیا اور پھر ان کے پاس دوبارہ نہیں آیا ۔ رواہ مسلم ۔
نافع ؒ سے روایت ہے کہ ابن زبیر ؓ کے فتنے سے پہلے دو آدمی ابن عمر ؓ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا : لوگوں نے جو کچھ کیا آپ اسے دیکھ رہے ہیں اور آپ عمر ؓ کے بیٹے اور رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں ، آپ کو نکلنے سے کون سی چیز مانع ہے ؟ انہوں نے فرمایا : میرے لیے یہ چیز مانع تھی کہ اللہ نے مسلمان کو قتل کرنا مجھ پر حرام قرار دیا ہے ، ان دونوں نے کہا : کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا :’’ ان سے قتال کرو حتیٰ کہ فتنہ ختم ہو جائے ۔‘‘ ابن عمر ؓ نے فرمایا : ہم نے قتال کیا حتیٰ کہ فتنہ (شرک) ختم ہو گیا اور دین خالص اللہ کے لیے ہو گیا ، اور تم چاہتے ہو کہ تم لڑو حتیٰ کہ فتنہ پیدا ہو اور دین غیر اللہ کے لیے ہو جائے ۔ رواہ البخاری ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، طفیل بن عمرو دوسی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے عرض کیا : دوس قبیلہ ہلاک ہو گیا ، اس نے نافرمانی کی اور انکار کیا ، آپ ان کے لیے بددعا کریں ، لوگوں نے سمجھا کہ آپ ان کے لئے بددعا کریں گے ۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اے اللہ ! دوس کو ہدایت نصیب فرما اور انہیں (مسلمان بنا کر) لے آ ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ عربوں کے ساتھ تین خصلتوں کی وجہ سے محبت کرو ، کیونکہ میں عربی ہوں ، قرآن عربی (زبان میں) ہے اور اہل جنت کا کلام عربی میں ہو گا ۔‘‘ اسنادہ موضوع ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔