عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور اس وقت آپ کی رانوں یا پنڈلیوں سے کپڑا اٹھا ہوا تھا ، ابوبکر ؓ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو انہیں اجازت دے دی گئی اور آپ اسی حالت میں رہے ، انہوں نے بات چیت کی ، پھر عمر ؓ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور آپ اسی حالت میں رہے ، انہوں نے بات چیت کی ، پھر عثمان ؓ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو رسول اللہ ﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے ، اپنے کپڑے درست کیے ، جب وہ (آپ ﷺ کے پاس سے اٹھ کر) چلے گئے تو عائشہ ؓ نے عرض کیا ، ابوبکر ؓ آئے تو آپ نے ان کی خاطر کوئی حرکت نہ کی اور نہ ان کی کوئی پرواہ کی ، پھر عمر ؓ تشریف لائے تو آپ نے ان کی خاطر کوئی حرکت کی نہ ان کی کوئی پرواہ کی ، پھر عثمان ؓ تشریف لائے تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کیے ، (کیا معاملہ ہے ؟) آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں ؟‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے : آپ نے فرمایا :’’ عثمان حیا دار شخص ہے ، مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے انہیں اسی حالت میں اندر آنے کی اجازت دے دی تو ہو سکتا ہے کہ (شرم کے مارے) وہ اپنے کسی کام کے بارے میں اپنی بات مجھے نہ پہنچا سکیں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
طلحہ بن عبید اللہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہر نبی کا ایک رفیق (خاص) ہوتا ہے اور میرے رفیق یعنی جنت میں ، عثمان ؓ ہیں ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
عبد الرحمن بن خباب ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نبی ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ غزوۂ تبوک کے لیے آمادہ کر رہے تھے ، عثمان ؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! سو اونٹ مع سازو سامان اللہ کی راہ میں میرے ذمے ہیں ، پھر آپ نے لشکر کے لیے آمادہ کیا تو عثمان ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا ، اللہ کی راہ میں دو سو اونٹ مع سازو سامان میرے ذمے ہیں ، پھر آپ نے ترغیب دلائی تو عثمان ؓ کھڑے ہوئے تو عرض کیا ، اللہ کی راہ میں تین سو اونٹ میرے ذمے ہیں ۔ راوی بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ منبر سے اترتے فرما رہے تھے :’’ عثمان ؓ نے اس کے بعد جو بھی عمل کیا اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ، عثمان ؓ اس کے بعد جو بھی عمل کرے اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ۔ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
عبد الرحمن بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، جب نبی ﷺ نے جیش العسرہ تیار فرمایا تو عثمان نے اپنی جیب میں ایک ہزار دینار لا کر آپ کی خدمت میں پیش کیے اور آپ کی گود میں ڈھیر کر دیے ، میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ اپنی گود میں انہیں پلٹ رہے تھے اور فرما رہے تھے :’’ عثمان نے جو بھی عمل کیا آج کے بعد وہ اس کے لیے نقصان دہ نہیں ۔‘‘ آپ ﷺ نے دو مرتبہ ایسے فرمایا ۔ اسنادہ حسن ، رواہ احمد ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، جب رسول اللہ ﷺ نے بیعت رضوان کے لیے حکم فرمایا تو عثمان ؓ مکہ کی طرف رسول اللہ ﷺ کے قاصد بن کر گئے تھے ، صحابہ کرام ؓ نے بیعت کی ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بلاشبہ عثمان اللہ اور اس کے رسول کے کام گئے ہوئے ہیں ، آپ ﷺ نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مارا ، رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ ، عثمان ؓ کی خاطر ان کے اپنی ذات کی خاطر ہاتھوں سے بہتر تھا ۔ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ثمامہ بن حزن قشیری ؒ بیان کرتے ہیں ، میں اس وقت گھر کے پاس تھا ، جب عثمان ؓ نے (اپنے گھر سے) جھانک کر فرمایا : میں تمہیں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں ، کیا تم جانتے ہو کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینے تشریف لائے تو رومہ کنویں کے علاوہ وہاں میٹھا پانی نہیں تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص رومہ کنویں کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دے گا تو اس کے لیے جنت میں اس سے بہتر ہو گا ۔‘‘ میں نے اپنے خالص مال سے اسے خریدا ، اور آج تم مجھے اس کا پانی پینے سے روک رہے ہو حتیٰ کہ میں سمندری پانی پی رہا ہوں ، انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! ایسے ہی ہے ، پھر عثمان ؓ نے فرمایا : میں تمہیں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں : کیا تم جانتے ہو کہ مسجد اپنے نمازیوں کے لیے تنگ تھی ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص آل فلاں سے زمین کا قطعہ خرید کر اس سے مسجد کی توسیع کر دے گا تو اس کے لیے جنت میں اس سے بہتر ہو گا ۔‘‘ میں نے اپنے خالص مال سے اسے خریدا ، اور آج تم مجھے اس میں دو رکعت نماز ادا کرنے سے روک رہے ہو ، انہوں نے کہا : ہاں ! ایسے ہی ہے ، آپ نے فرمایا : میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تمہیں پوچھتا ہوں ، کیا تم جانتے ہو کہ جیش العسرہ کو میں نے اپنے مال سے تیار کیا تھا ؟ انہوں نے کہا : ہاں ! عثمان ؓ نے فرمایا : میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں : کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ مکہ کے پہاڑ پر تھے ، اور اس وقت ابوبکر ، عمر اور میں آپ کے ساتھ تھے ، پہاڑ نے حرکت کی حتیٰ کہ زمین پر کچھ ٹکڑے گر گئے تو آپ ﷺ نے اپنے پاؤں سے اسے ٹھوکر مار کر فرمایا :’’ پہاڑ ٹھہر جا ، تجھ پر ایک نبی ہے ، ایک صدیق ہے اور دو شہید ہیں ؟‘‘ انہوں نے کہا : ہاں ! ایسے ہی ہے ، آپ نے تین بار فرمایا : اللہ اکبر ! رب کعبہ کی قسم ! انہوں نے گواہی دے دی کہ میں شہید ہوں ۔ حسن ، رواہ الترمذی و النسائی و الدارقطنی ۔
مرہ بن کعب ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ نے فتنوں کا ذکر کیا اور ان کے قریب ہونے کا ارشاد فرمایا ، اتنے میں ایک آدمی گزرا ، اس نے ایک کپڑا لپیٹ رکھا تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا یہ شخص اس (فتنے کے) دن ہدایت پر ہو گا ۔‘‘ میں ان کی طرف گیا ، دیکھا کہ وہ عثمان بن عفان ؓ ہیں ۔ راوی بیان کرتے ہیں ، میں نے ان کا چہرہ آپ کی طرف پھیر کر عرض کیا : یہ وہ (آدمی) ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں ۔‘‘ ترمذی ، ابن ماجہ ، اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ حسن ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ عثمان ! امید ہے کہ اللہ تمہیں قمیص پہنائے گا ، اگر وہ تم سے اسے اتروانا چاہیں تو تم ان کی خاطر اسے نہ اتارنا ۔‘‘ ترمذی ، ابن ماجہ ، اور امام ترمذی نے فرمایا : حدیث میں طویل قصہ ہے ۔ صحیح ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ایک فتنے کا ذکر کیا تو فرمایا :’’ یہ یعنی عثمان اس میں مظلوم شہید کر دیے جائیں گے ۔‘‘ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث حسن ہے اس کی سند غریب ہے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ابوسہلہ ؓ بیان کرتے ہیں ، عثمان ؓ نے محاصرے کے دن مجھے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا اور اس پر میں قائم ہوں ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
عثمان بن عبداللہ بن موہب ؒ بیان کرتے ہیں ، اہل مصر سے ایک آدمی حج کے ارادے سے آیا تو اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھ کر کہا : یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے بتایا : یہ قریشی ہیں ، اس نے کہا : ان میں الشیخ (معتبر عالم) کون ہے ؟ انہوں نے کہا : عبداللہ بن عمر ؓ ، اس آدمی نے کہا : ابن عمر ! میں تم سے کسی چیز کے متعلق سوال کرتا ہوں ، مجھے بتائیں ، کیا آپ جانتے ہیں کہ عثمان ؓ غزوۂ احد میں فرار ہو گئے تھے ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ، اس نے کہا کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ غزوۂ بدر میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ، اس نے کہا : کیا آپ جانتے ہیں کہ بیعت رضوان کے موقع پر بھی وہ موجود نہیں تھے ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ، اس نے کہا : اللہ اکبر : ابن عمر ؓ نے فرمایا : آؤ میں تمہیں واضح کرتا ہوں ، رہا ان کا غزوۂ احد سے فرار ہونا تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ نے انہیں معاف فرما دیا ہے ، رہا ان کا بدر سے غائب ہونا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی رقیہ ؓ ان کی اہلیہ تھیں اور وہ بیمار تھیں ، رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا :’’ آپ کے لیے غزوۂ بدر میں شریک ہونے والے مجاہد کے برابر اجر و ثواب ہے اور اس کے برابر آپ کے لیے مال غنیمت میں سے حصہ بھی ہے ۔‘‘ رہا ان کا بیعت رضوان کے وقت موجود نہ ہونا ، تو اگر مکہ میں عثمان ؓ سے زیادہ کوئی معزز ہوتا تو آپ اسے بھیجتے ، لیکن رسول اللہ ﷺ نے عثمان ؓ کو بھیجا ، اور بیعت رضوان عثمان ؓ کے مکہ چلے جانے کے بعد ہوئی تھی ، رسول اللہ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کے متعلق فرمایا :’’ یہ عثمان کا ہاتھ ہے ۔‘‘ اور اسے اپنے ہاتھ پر مارا اور فرمایا :’’ یہ عثمان کے لیے ہے ۔‘‘ پھر ابن عمر ؓ نے فرمایا : اب یہ (جوابات) اپنے ساتھ لے جانا (اور انہیں یاد رکھنا) ۔ رواہ البخاری ۔
عثمان ؓ کے آزاد کردہ غلام ابوسہلہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ عثمان ؓ سے مخفی طور پر کوئی بات کر رہے تھے ، اور عثمان ؓ کا رنگ متغیر ہو رہا تھا ، جب محاصرے کا دن تھا تو ہم نے کہا : کیا ہم لڑائی نہیں کریں گے ؟ انہوں نے فرمایا : نہیں ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک امر کی وصیت کی ہے اور میں اپنے آپ کو اس کا پابند رکھوں گا ۔ صحیح ، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ ۔
ابو حبیبہ سے روایت ہے کہ وہ گھر میں داخل ہوئے جبکہ عثمان اس میں محصور تھے ، اور انہوں نے ابوہریرہ ؓ کو سنا کہ وہ عثمان ؓ سے بات کرنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں ، انہیں اجازت مل گئی ، وہ کھڑے ہوئے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی ، پھر فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ میرے بعد تم فتنہ اور اختلاف دیکھو گے ۔‘‘ یا فرمایا :’’ اختلاف اور فتنہ دیکھو گے ۔‘‘ کسی نے آپ سے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہمارے لیے کیا حکم ہے یا آپ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم امیر اور اس کے ساتھیوں کو لازم پکڑو ۔‘‘ اور آپ اس (امیر) کے متعلق عثمان ؓ کی طرف اشارہ فرما رہے تھے ۔ امام بیہقی نے دونوں احادیث دلائل النبوۃ میں روایت کی ہیں ۔ اسنادہ حسن ، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ ۔