سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے علی ؓ سے فرمایا :’’ آپ میرے لیے ایسے ہیں جیسے موسی ؑ کے لیے ہارون ؑ تھے ، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
زر بن حبیش بیان کرتے ہیں ، علی ؓ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس نے دانے کو اگایا اور ہر ذی روح کو پیدا فرمایا ! نبی امی ﷺ نے مجھے عہد دیا کہ مومن شخص ہی مجھ سے محبت کرے گا اور صرف منافق شخص ہی مجھ سے دشمنی رکھے گا ۔ رواہ مسلم ۔
سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ خیبر کے موقع پر فرمایا :’’ میں کل ایک ایسے شخص کو پرچم عطا کروں گا جس کے ہاتھوں اللہ فتح عطا فرمائے گا ، وہ شخص اللہ اور رسول سے محبت کرتا ہے ، اور اللہ اور اس کا رسول اسے محبوب رکھتے ہیں ۔‘‘ چنانچہ جب صبح ہوئی تو تمام لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اور وہ سب پرامید تھے کہ وہ (پرچم) اسے عطا کیا جائے گا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ انہیں بلاؤ ۔‘‘ وہ آپ کے پاس لائے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب لگایا تو وہ ایسے شفایاب ہوئے کہ گویا انہیں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں ، آپ ﷺ نے پرچم انہیں عطا فرمایا تو علی ؓ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیا میں ان سے لڑتا رہوں حتیٰ کہ وہ ہمارے جیسے (یعنی مسلمان) ہو جائیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ یونہی چلتے رہو حتیٰ کہ تم ان کے میدان میں اترو ، پھر انہیں اسلام کی دعوت پیش کرو اور انہیں بتاؤ کہ اللہ کے کیا حقوق ان پر واجب ہیں ، اللہ کی قسم ! اگر تمہارے ذریعے اللہ کسی ایک آدمی کو ہدایت عطا فرما دے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
اور براء ؓ سے مروی حدیث آپ ﷺ نے علی ؓ سے فرمایا :’’ تو مجھ سے اور میں تم سے ہوں ‘‘ باب بلوغ الصغیر میں ذکر کی گئی ہے ۔
حُبشی بن جنادہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ علی مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ، اور میری طرف سے کوئی ادائیگی نہ کرے سوائے میرے اور علی کے ۔‘‘ ترمذی ، اور امام احمد نے اسے ابوجناوہ سے روایت کیا ہے ۔ حسن ، رواہ الترمذی و احمد ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا تو علی ؓ اشکبار آنکھوں کے ساتھ آئے اور عرض کیا : آپ ﷺ نے اپنے صحابہ ؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا ہے ، لیکن آپ نے میرے اور کسی اور کے درمیان بھائی چارہ قائم نہیں فرمایا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میرے دنیا اور آخرت میں بھائی ہو ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ کے پاس ایک بھنا ہوا پرندہ تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اے اللہ ! اپنی مخلوق میں سے اپنے محبوب ترین شخص کو میرے پاس بھیج جو میرے ساتھ اس پرندے کو کھائے ۔‘‘ علی ؓ ان کے پاس تشریف لائے اور انہوں نے آپ کے ساتھ تناول فرمایا ۔ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ حسن ، رواہ الترمذی ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں جب رسول اللہ ﷺ سے کوئی چیز طلب کرتا تو آپ مجھے عطا فرماتے اور جب میں خاموش رہتا تو آپ طلب کیے بغیر مجھے عطا فرما دیتے تھے ۔ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں دار حکمت ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں ۔‘‘ امام ترمذی ؒ نے کہا : یہ حدیث غریب ہے ، اور انہوں نے فرمایا : بعض راویوں نے اس حدیث کو شریک سے روایت کیا ہے ، اور انہوں نے اس میں عن الصنابحی کا ذکر نہیں کیا ، اور ہم شریک کے علاوہ یہ حدیث کسی ثقہ راوی سے نہیں جانتے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، طائف کے روز رسول اللہ ﷺ نے علی ؓ کو بلایا اور ان سے سرگوشی فرمائی ۔ لوگوں نے کہا : آپ کی اپنے چچا زاد کے ساتھ سرگوشی طویل ہو گئی ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نے اس سے سرگوشی نہیں کی ، بلکہ اللہ نے اس سے سرگوشی کی ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ابوسعید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے علی ؓ سے فرمایا :’’ علی ! میرے اور تمہارے سوا کسی کے لیے درست نہیں کہ وہ حالت جنابت میں اس مسجد میں سے گزرے ۔‘‘ علی بن منذر بیان کرتے ہیں ، میں نے ضرار بن صرد سے پوچھا : اس حدیث کا کیا معنی ہے ؟ انہوں نے فرمایا : میرے اور تیرے سوا کسی کے لیے درست نہیں کہ وہ حالت جنابت میں مسجد سے راستے کا کام لے ۔ ترمذی ، اور انہوں نے کہا : یہ حدیث حسن غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ام عطیہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر روانہ کیا ، اس میں علی ؓ بھی تھے ، ام عطیہ ؓ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہوئے سنا :’’ اے اللہ ! مجھے موت نہ دینا حتیٰ کہ تو مجھے علی ؓ کو دکھا دے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ منافق شخص علی سے محبت کرے گا نہ مومن شخص ان سے دشمنی رکھے گا ۔‘‘ احمد ، ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث سند کے لحاظ سے حسن غریب ہے ۔ ضعیف ، رواہ احمد و الترمذی ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں عیسیٰ ؑ کی ایک مشابہت ہے ، یہودی ان سے دشمنی رکھتے ہیں ، حتیٰ کہ وہ ان کی والدہ (مطہرہ) پر تہمت لگاتے ہیں جبکہ نصاریٰ ان سے محبت کرتے ہیں ، حتیٰ کہ انہوں نے انہیں ایسے مقام پر فائز کر دیا جس کے وہ حق دار نہیں ۔‘‘ پھر علی ؓ نے فرمایا : دو قسم کے لوگ میرے (حق کے) متعلق ہلاک ہو جائیں گے ، افراط سے کام لینے والا محبّ وہ میرے متعلق ایسا افراط کرے گا جو مجھ میں نہیں ہے ، اور دشمنی رکھنے والا کہ میری دشمنی اسے اس پر آمادہ کرے گی کہ وہ مجھ پر بہتان لگائے گا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد ۔
براء بن عازب اور زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب غدیر خم پر پڑاؤ ڈالا تو آپ ﷺ نے علی ؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :’’ کیا تم نہیں جانتے کہ میرا مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق ہے ؟‘‘ انہوں نے کہا : کیوں نہیں ! ضرور ہے ، پھر فرمایا :’’ کیا تم نہیں جانتے کہ میرا ہر مومن پر اس کی جان سے بھی زیادہ حق ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، کیوں نہیں ! ضرور ہے ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اے اللہ ! میں جس شخص کا دوست ہوں علی اس کے دوست ہیں ، اے اللہ ! جو شخص اس کو دوست بنائے تو اسے دوست بنا ، اور جو شخص اس سے دشمنی رکھے تو انہیں دشمن بنا ۔‘‘ اس کے بعد عمر ؓ علی سے ملے تو انہوں نے علی ؓ سے کہا : ابن ابی طالب ! آپ کو مبارک ہو آپ صبح و شام (ہر وقت) ہر مومن اور ہر مومنہ کے دوست بن گئے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد ۔
بریدہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ابوبکر و عمر ؓ نے فاطمہ ؓ سے شادی کا پیغام بھیجا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ تو چھوٹی (کم سن) ہیں ۔‘‘ پھر علی ؓ نے انہیں پیغام بھیجا تو آپ نے ان کی شادی ان سے کر دی ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ النسائی ۔
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے باب علی کے سوا تمام دروازے بند کرنے کا حکم فرمایا ۔ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ حسن ، رواہ الترمذی ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے ہاں جو میرا مقام و مرتبہ تھا وہ مخلوق میں سے کسی اور کا نہیں تھا ، میں سحری کے اول وقت (رات کے آخری چھٹے حصے) میں آپ ﷺ کے پاس آتا تو میں کہتا ، اللہ کے نبی ! آپ پر سلامتی ہو ، اگر آپ کھانس دیتے تو میں اہل خانہ کے پاس واپس چلا جاتا ، ورنہ میں آپ کے ہاں داخل ہو جاتا ۔ اسنادہ حسن ، رواہ النسائی ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں مریض تھا ، رسول اللہ ﷺ میرے پاس سے گزرے ، اور اس وقت میں کہہ رہا تھا ، اے اللہ ! اگر میری موت کا وقت آ چکا ہے تو مجھے (موت کے ذریعے) راحت عطا فرما ، اور اگر ابھی دیر ہے تو پھر مجھے صحت عطا فرما ، اور اگر یہ آزمائش ہے تو پھر مجھے صبر عطا فرما ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم نے کیسے کہا ہے ؟‘‘ میں نے آپ کو دوبارہ سنا دیا ، آپ نے اسے اپنا پاؤں مارا اور فرمایا :’’ اے اللہ ! انہیں عافیت عطا فرما ۔‘‘ یا فرمایا :’’ اسے شفا عطا فرما ۔‘‘ راوی کو اس میں شک ہوا ہے ، وہ بیان کرتے ہیں ، اس کے بعد مجھے تکلیف نہیں ہوئی ۔ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔