عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، ان حضرات سے ، جن پر رسول اللہ ﷺ مرتے دم تک خوش رہے ، اس امر خلافت کا کوئی شخص حق دار نہیں ، انہوں نے نام گنوائے ، علی ، عثمان ، زبیر ، طلحہ ، سعد اور عبد الرحمن ؓ ۔ رواہ البخاری ۔
قیس بن ابی حازم ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے طلحہ ؓ کا ہاتھ شل دیکھا جس کے ساتھ انہوں نے غزوۂ احد میں نبی ﷺ کو (دشمن کے وار سے) بچایا تھا ۔ رواہ البخاری ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے غزوۂ احزاب کے روز فرمایا :’’ کون شخص میرے پاس لشکر کی خبر لائے گا ؟‘‘ زبیر ؓ نے عرض کیا : میں ! نبی ﷺ نے فرمایا :’’ ہر نبی کا ایک حواری (مخلص معاون) ہوتا ہے اور میرے حواری زبیر ؓ ہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
زبیر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کون شخص بنو قریظہ جائے اور ان کے متعلق خبر میرے پاس لائے ؟‘‘ میں گیا ، اور جب میں واپس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے میرے لیے فرمایا :’’ تجھ پر میرے والدین فدا ہوں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی ﷺ کو سعد بن مالک ؓ کے علاوہ کسی اور شخص کے لیے اپنے والدین کو ایک ساتھ جمع کرتے (یعنی میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں) نہیں سنا ، کیونکہ غزوۂ احد کے موقع پر میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ سعد ! تیر اندازی کرو ، میرے والدین تم پر قربان ہوں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ (کسی غزوہ سے واپس) مدینہ آئے تو رات بھر جاگتے رہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کاش کوئی مرد صالح میرے لیے پہرہ دیتا ، اتنے میں ہم نے ہتھیاروں کی آواز (جھنکار) سنی ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ کون ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : میں سعد ہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ آپ یہاں کیسے آئے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : میرے دل میں رسول اللہ ﷺ کے متعلق خوف سا پیدا ہوا تو میں آپ کے لیے پہرہ دینے آیا ہوں ، رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی پھر سو گئے ۔ متفق علیہ ۔
ابن ابی ملیکہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عائشہ ؓ سے اس وقت سنا جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ اگر رسول اللہ ﷺ کسی کو خلیفہ نامزد کرتے تو آپ کسے نامزد فرماتے ؟ انہوں نے فرمایا : ابوبکر ؓ ، پوچھا گیا : پھر ابوبکر ؓ کے بعد کون ؟ انہوں نے فرمایا : عمر ؓ ، پوچھا گیا : عمر ؓ کے بعد کون ؟ انہوں نے فرمایا : ابوعبیدہ بن جراح ؓ ۔ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ اور زبیر ؓ حرا پر تھے کہ پتھر نے حرکت کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ٹھہر جا ، تجھ پر نبی ، صدیق اور شہید ہیں ۔‘‘ اور بعض راویوں نے سعد بن ابی وقاص ؓ کا اضافہ نقل کیا ہے اور علی ؓ کا ذکر نہیں کیا ۔ رواہ مسلم ۔
عبد الرحمن بن عوف ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ ابوبکر جنت میں ، عمر جنت میں ، عثمان جنت میں ، علی جنت میں ، طلحہ جنت میں ، زبیر جنت میں ، عبد الرحمن بن عوف جنت میں ، سعد بن ابی وقاص جنت میں ، سعید بن زید جنت میں اور ابوعبیدہ (عامر) بن جراح جنت میں ہیں ۔‘‘ اسناہ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
انس ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میری امت میں سے میری امت پر سب سے زیادہ مہربان ابوبکر ہیں ، اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں ، ان میں سے سب سے زیادہ با حیا عثمان ہیں ، علم میراث کے سب سے بڑے عالم زید بن ثابت ہیں ، سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں ، حلال و حرام کے متعلق سب سے زیادہ علم رکھنے والے معاذ بن جبل ہیں ، اور ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں ۔‘‘ احمد ، ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ احمد و الترمذی ۔
اور معمر سے قتادہ کی سند سے مرسل روایت ہے ، اور اس میں ہے : قضا میں سب سے زیادہ عالم علی ؓ ہیں ۔‘‘
زبیر ؓ بیان کرتے ہیں ، غزوۂ احد کے موقع پر نبی ﷺ نے دو زرہیں پہنی ہوئی تھیں ، آپ ایک چٹان کی طرف متوجہ ہوئے لیکن آپ اس پر چڑھ نہ سکے تو طلحہ ؓ آپ کے نیچے بیٹھ گئے حتیٰ کہ آپ اس چٹان پر پہنچ گئے ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ طلحہ نے (جنت کو) واجب کر لیا ۔‘‘ حسن ، رواہ الترمذی ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے طلحہ بن عبیداللہ ؓ کی طرف دیکھا تو فرمایا :’’ جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ وہ روئے زمین پر چلتے ہوئے ایسے شخص کو دیکھے جو اپنا عہد نبھا چکا تو وہ اس شخص کو دیکھ لے ۔‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے :’’ جو شخص روئے زمین پر چلتے پھرتے شہید کو دیکھنا چاہے تو وہ طلحہ بن عبیداللہ ؓ کو دیکھ لے ۔‘‘ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، میرے کانوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ طلحہ اور زبیر جنت میں میرے ہمسائے ہیں ۔‘‘ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ احد کے موقع پر فرمایا :’’ اے اللہ ! اس (سعد ؓ) کو تیر اندازی میں قوی بنا اور اس کی دعا قبول فرما ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ فی شرح السنہ ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے صرف سعد ؓ کے لیے اپنے والدین کو (فدا ہونے پر) اکٹھا ذکر کیا ، آپ ﷺ نے غزوۂ احد کے موقع پر انہیں فرمایا :’’ میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں تیر اندازی کرو ۔‘‘ اور آپ ﷺ نے انہیں فرمایا :’’ قوی نوجوان ! تیر پھینکو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، سعد ؓ آئے تو نبی ﷺ نے فرمایا :’’ یہ میرے ماموں ہیں ، کوئی مجھے ان جیسا اپنا ماموں دکھائے ۔‘‘ امام ترمذی ؒ نے فرمایا : سعد ؓ بنو زہرہ قبیلے سے تھے ، اور نبی ﷺ کی والدہ محترمہ بھی بنو زہرہ قبیلے سے تھیں ، اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا :’’ یہ میرے ماموں ہیں ۔‘‘ اور مصابیح میں ((فَلْیُرِنِیْ)) کے بجائے : ((فَلْیُکْرِمَنَّ)) کے الفاظ ہیں ۔ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔
قیس بن ابی حازم ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے سعد بن ابی وقاص ؓ کو فرماتے ہوئے سنا : میں عرب میں سب سے پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر اندازی کی ، اور ہماری یہ حالت تھی کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے تھے اور ہمارا کھانا کیکر کا پھل اور کیکر کے پتے ہوتے تھے ، اور ہم میں سے ہر شخص بکری کی طرح اجابت (مینگنیاں) کیا کرتا تھا وہ (خشک ہونے کی وجہ سے) ایک دوسری کے ساتھ جڑی ہوئی نہیں ہوتی تھیں ، پھر یہ وقت آیا کہ بنو اسد میرے اسلام کے متعلق مجھ پر نکتہ چینی کرتے ہیں ، اگر ایسے ہو تو میں نامراد ہوا اور میرے عمل برباد ہو گئے ، اور وہ (بنو اسد) ان (سعد ؓ) کے متعلق عمر ؓ سے شکایت کیا کرتے تھے اور وہ یہ کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
سعد ؓ بیان کرتے ہیں ، میں جانتا ہوں کہ اسلام قبول کرنے والا میں تیسرا شخص ہوں ، جس دن میں نے اسلام قبول کیا اسی روز دوسرے بھی اسلام میں داخل ہوئے ، اور میں سات دن تک اسی حالت میں رہا کہ میں اسلام قبول کرنے والا تیسرا شخص ہوں ۔ رواہ البخاری ۔
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی ازواج مطہرات سے فرمایا کرتے تھے :’’ میں اپنے بعد تمہارے بارے میں بہت فکر مند ہوں ، صبر کرنے والے اور صدیقین ہی ان مشکل معاملات میں تمہارا ساتھ دیں گے ۔‘‘ عائشہ ؓ نے فرمایا : یعنی صدقہ کرنے والے ، پھر عائشہ ؓ نے ابوسلمہ بن عبد الرحمن ؓ سے فرمایا : اللہ تمہارے والد کو جنت کے چشمے سلسبیل سے پلائے ، اور ابن عوف ؓ نے امہات المومنین کے لیے ایک باغ وقف کیا تھا جو چالیس ہزار میں فروخت کیا گیا تھا ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی ازواج مطہرات سے فرماتے ہوئے سنا :’’ جو شخص میرے بعد تم پر خرچ کرے گا تو وہ شخص سچا اور احسان کرنے والا ہے ، اے اللہ ! عبد الرحمن بن عوف کو جنت کے چشمے سلسبیل سے جام پلا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد ۔
حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں ، نجران والے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کسی امین شخص کو ہماری طرف مبعوث فرمانا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں تمہاری طرف ایسے امین شخص کو بھیجوں گا جو کہ حقیقی معنی میں امین ہو گا ۔‘‘ صحابہ کرام ؓ اس (امارت) کے خواہش مند تھے ، راوی بیان کرتے ہیں ، آپ نے ابوعبیدہ بن جراح کو بھیجا ۔ متفق علیہ ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! ہم آپ کے بعد کسے خلیفہ مقرر فرمائیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اگر تم ابوبکر کو امیر بنا لو تو تم انہیں امین ، دنیا سے بے رغبتی رکھنے والا اور آخرت سے رغبت رکھنے والا پاؤ گے ۔ اور اگر تم عمر کو امیر مقرر کرو گے تو تم انہیں قوی امین پاؤ گے ، وہ اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف زدہ نہیں ہوتے ۔ اور اگر تم علی کو امیر بناؤ گے ، حالانکہ میں نہیں سمجھتا کہ تم انہیں بناؤ گے ، تو تم انہیں ہادی اور ہدایت یافتہ پاؤ گے ، وہ تمہیں صراط مستقیم پر چلائیں گے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ ابوبکر پر رحم فرمائے ، انہوں نے اپنی بیٹی سے میری شادی کی ، دار ہجرت کی طرف مجھے اٹھا کر (اپنے اونٹ پر سوار کر کے) لے گئے ، غار میں میرے ساتھ رہے ، اور اپنے مال سے بلال کو آزاد کرایا ۔ اور عمر پر رحم فرمائے ، وہ حق فرماتے ہیں خواہ وہ کڑوا ہو ، حق گوئی نے انہیں تنہا چھوڑ دیا اس لیے ان کا کوئی دوست نہیں ، اللہ عثمان پر رحم فرمائے ، فرشتے بھی ان سے حیا کرتے ہیں ، اللہ علی پر رحم فرمائے ، اے اللہ ! وہ جہاں بھی جائیں حق ان کے ساتھ ہی رہے ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔