ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے چند صحابہ کو شب قدر بحالت خواب رمضان کے آخری ہفتہ (سات ایام) میں دکھائی گئی ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے خواب آخری ہفتہ میں متفق و موافق ہیں ، پس جو شخص اسے تلاش کرنا چاہے تو وہ اسے آخری ہفتے ہیں تلاش کرے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اس (شب قدر) کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو ، شب قدر باقی رہنے والی نویں رات ، ساتویں رات ، پانچویں رات (یعنی اکیسویں ، تئیسویں اور پچیسویں رات) میں ہے ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا ، پھر آپ نے درمیانے عشرے میں ایک چھوٹے سے خیمے میں اعتکاف کیا ، پھر آپ نے اپنا سر باہر نکال کر فرمایا :’’ میں نے پہلا عشرہ اعتکاف کیا ، میں اس رات کو تلاش کرنا چاہتا تھا ، پھر میں نے درمیانے عشرے کا اعتکاف کیا ، پھر میرے پاس فرشتہ آیا تو مجھے کہا گیا کہ وہ آخری عشرے میں ہے ، جو شخص میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے تو وہ آخری عشرہ اعتکاف کرے ، مجھے یہ رات دکھائی گئی تھی ، پھر مجھے بھلا دی گئی ، میں نے اس کی صبح خود کو کیچڑ میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے ، اسے آخری عشرے میں تلاش کرو اور اسے ہر طاق رات میں تلاش کرو ۔‘‘ راوی بیان کرتے ہیں ، اس رات بارش ہوئی ، مسجد کی چھت شاخوں سے بنی ہوئی تھی وہ ٹپکنے لگی ، میری آنکھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ کی پیشانی پر کیچڑ کا نشان تھا اور یہ اکیسویں کی رات (یعنی اکیسویں تاریخ) تھی ۔ متفق علیہ ۔
معنی کے لحاظ سے بخاری ، مسلم ، اس پر متفق اور ((فقیل لی انھا فی العشر الا واخر)) تک مسلم کے الفاظ ہیں ، جب کہ باقی صحیح بخاری کے الفاظ ہیں ۔
زرّ بن حبیش بیان کرتے ہیں ، میں نے ابی بن کعب ؓ سے دریافت کیا : آپ کے بھائی ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص پورا سال تہجد پڑھے گا وہ شب قدر پا لے گا ، تو انہوں نے فرمایا : اللہ اس پر رحم فرمائے انہوں نے یہ ارادہ کیا کہ لوگ اس پر ہی اعتماد نہ کر لیں ، حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ (شب قدر) رمضان میں ہے اور آخری عشرے میں ہے اور وہ ستائیسویں رات ہے ، پھر انہوں نے ان شاء اللہ کہے بغیر قسم اٹھا کر کہا وہ ستائیسویں شب ہے ، میں نے کہا : ابومنذر ! آپ یہ کیسے کہتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : اس کی علامت یا نشانی کی بنا پر جو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتائی تھی کہ اس روز سورج طلوع ہو گا تو اس کی شعائیں نہیں ہوں گی ۔ رواہ مسلم ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، جب آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو رسول اللہ ﷺ (عبادت کے لیے) کمر بستہ ہو جاتے ، شب بیداری فرماتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی بیدار رکھتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! مجھے بتائیں اگر میں جان لوں کہ کون سی رات شب قدر ہے تو میں اس میں کیا دعا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کہو :اے اللہ ! بے شک تو درگزر فرمانے والا ہے ، درگزر کو پسند فرماتا ہے پس مجھ سے بھی درگزر فرما ۔‘‘ احمد ، ابن ماجہ ، ترمذی ، اور انہوں نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ۔
ابوبکرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ شب قدر کو اکیسویں یا تیئسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا انتیسویں رات میں تلاش کرو ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ الترمذی ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ سے شب قدر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ پورے رمضان میں ہے ۔‘‘ ابوداؤد ، اور انہوں نے فرمایا : سفیان اور شعبہ نے ابواسحاق کی سند سے ابن عمر سے موقوف روایت کیا ہے ۔ سندہ ضعیف ۔
عبداللہ بن انیس ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! میں اپنے جنگل میں رہتا ہوں ، اور میں الحمد للہ وہیں نماز پڑھتا ہوں ، آپ مجھے ایک رات کے متعلق حکم فرمائیں کہ میں اس رات اس مسجد میں قیام کروں ، آپ نے فرمایا :’’ تئیسویں رات کو قیام کر ۔‘‘ ان کے بیٹے سے پوچھا گیا ، آپ کے والد کیسے کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے بتایا : جب آپ عصر پڑھ لیتے تو مسجد میں داخل ہو جاتے اور پھر آپ کسی حاجت کے لیے وہاں سے نہ نکلتے حتیٰ کہ نماز فجر پڑھ لیتے ، جب فجر پڑھ لیتے تو وہ مسجد کے دروازے پر اپنی سواری پاتے اور اس پر سوار ہو کر اپنے جنگل میں آ جاتے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد ۔
عبادہ بن صامت ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ شب قدر کے متعلق ہمیں بتانے کیلئے تشریف لائے تو دو مسلمان باہم جھگڑ رہے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ میں تمہیں شب قدر کے متعلق بتانے کے لیے آیا تھا ، لیکن فلاں اور فلاں باہم جھگڑ پڑے تو وہ مجھ سے اٹھا لی گئی اور ممکن ہے کہ تمہارے لیے بہتر ہو ، لہذا تم اسے اکیسویں ، تیئسویں اور پچیسویں رات میں تلاش کرو ۔‘‘ رواہ البخاری ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب شب قدر ہوتی ہے تو جبریل ؑ فرشتوں کی جماعت میں تشریف لاتے ہیں تو وہ اللہ عزوجل کے ذکر میں مصروف ہر کھڑے بیٹھے شخص پر رحمت بھیجتے ہیں ، جب ان کی عید کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے اپنے فرشتوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے : میرے فرشتو ! اس مزدور کی کیا جزا ہونی چاہیے جو اپنا کام پورا کرتا ہے ؟ وہ عرض کرتے ہیں ، پروردگار ! اس کی جزا یہ ہے کہ اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے فرشتو ! میرے بندوں اور میری لونڈیوں نے میری طرف سے ان پر عائد فریضے کو پورا کر دیا پھر وہ دعائیں پکارتے ہوئے نکلے ہیں ، مجھے میری عزت و جلال ، میرے کرم و علو اور اپنے بلند مقام کی قسم ! میں ان کی دعائیں قبول کروں گا ، وہ فرماتا ہے : واپس چلے جاؤ ، میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہاری خطاؤں کو نیکیوں میں بدل دیا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ اس حال میں واپس آتے ہیں کہ ان کی مغفرت ہو چکی ہوتی ہے ۔‘‘ اسنادہ موضوع ۔