Blog
Books
Search Hadith

{وَیُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہٖ} کی تفسیر

11 Hadiths Found

۔ (۸۶۴۲)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَ قْبَلَتْ یَہُودُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: یَا أَ بَا الْقَاسِمِ! إِنَّا نَسْأَ لُکَ عَنْ خَمْسَۃِ أَ شْیَائَ، فَإِنْ أَ نْبَأْتَنَا بِہِنَّ عَرَفْنَا أَ نَّکَ نَبِیٌّ وَاتَّبَعْنَاکَ، فَأَ خَذَ عَلَیْہِمْ مَا أَ خَذَ إِسْرَائِیلُ عَلٰی بَنِیہِ إِذْ قَالُوْا: {اللّٰہُ عَلٰی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ} قَالَ: ((ہَاتُوْا۔)) قَالُوْا: أَ خْبِرْنَا عَنْ عَلَامَۃِ النَّبِیِّ، قَالَ: ((تَنَامُ عَیْنَاہُ وَلَا یَنَامُ قَلْبُہُ۔))، قَالُوْا: أَ خْبِرْنَا کَیْفَ تُؤَنِّثُ الْمَرْأَ ۃُ وَکَیْفَ تُذْکِرُ؟ قَالَ: ((یَلْتَقِی الْمَائَ انِِ فَإِذَا عَلَا مَائُ الرَّجُلِ مَائَ الْمَرْأَ ۃِ أَ ذْکَرَتْ، وَإِذَا عَلَا مَائُ الْمَرْأَ ۃِ آنَثَتْ۔))، قَالُوْا: أَ خْبِرْنَا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلٰی نَفْسِہِ، قَالَ: ((کَانَ یَشْتَکِی عِرْقَ النَّسَا فَلَمْ یَجِدْ شَیْئًا یُلَائِمُہُ إِلَّا أَ لْبَانَ کَذَا وَکَذَا۔)) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْن أَ حْمَد: قَالَ أَبِی: قَالَ بَعْضُہُمْ: یَعْنِی الْإِبِلَ فَحَرَّمَ لُحُومَہَا، قَالُوْا: صَدَقْتَ، قَالُوْا: أَ خْبِرْنَا مَا ہٰذَا الرَّعْدُ؟ قَالَ: ((مَلَکٌ مِنْ مَلَائِکَۃِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مُوَکَّلٌ بِالسَّحَابِ بِیَدِہِ، أَ وْ فِییَدِہِ مِخْرَاقٌ مِنْ نَارٍ، یَزْجُرُ بِہِ السَّحَابَ، یَسُوقُہُ حَیْثُ أَ مَرَ اللّٰہُ۔)) قَالُوْا: فَمَا ہٰذَا الصَّوْتُ الَّذِییُسْمَعُ؟ قَالَ: ((صَوْتُہُ۔))، قَالُوْا: صَدَقْتَ، إِنَّمَا بَقِیَتْ وَاحِدَۃٌ وَہِیَ الَّتِی نُبَایِعُکَ إِنْ أَ خْبَرْتَنَا بِہَا، فَإِنَّہُ لَیْسَ مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا لَہُ مَلَکٌ یَأْتِیہِ بِالْخَبَرِ، فَأَ خْبِرْنَا مَنْ صَاحِبُکَ؟ قَالَ: ((جِبْرِیلُ علیہ السلام ۔)) قَالُوْا: جِبْرِیلُ؟ ذَاکَ الَّذِییَنْزِلُ بِالْحَرْبِ وَالْقِتَالِ وَالْعَذَابِ عَدُوُّنَا۔ لَوْ قُلْتَ: مِیکَائِیلَ الَّذِییَنْزِلُ بِالرَّحْمَۃِ وَالنَّبَاتِ وَالْقَطْرِ لَکَانَ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۴۸۳)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ یہودی لوگ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: اے ابوالقاسم! ہم آپ سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال کریں گے، اگر آپ ان کے جوابات دیں گے تو ہم پہچان جائیں گے کہ آپ برحق نبی ہیں اور ہم آپ کی اتباع بھی کریں گے، آپ نے ان سے اس طرح عہد لیا، جس طرح یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے عہد لیا تھا، جب انھوں نے کہا تھا ہم جو بات کر رے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ وکیل ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: و ہ سوال پیش کرو۔ (۱) انہوں نے کہا: ہمیں نبی کی نشانی بتائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نبی کی آنکھیں سوتی ہیں اور اس کا دل نہیں سوتا۔ (۲) انھوں نے کہا: یہ بتائیں کہ نر اورمادہ کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مردوزن کا آب جو ہر دونوں ملتے ہیں، جب آدمی کا پانی عورت کے پانی پر غالب آتا ہے، تو نر پیدا ہوتا ہے اور جب عورت کا آب جو ہر غالب آتا ہے تو مادہ پیدا ہوتی ہے۔ (۳) انہوں نے کہا: ہمیں بتائو کہ یعقوب علیہ السلام نے خود پر کیا حرام قرار دیا تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انہیں عرق نساء کی بیماری تھی، انہیں صرف اونٹنیوں کا دودھ موافق آیا، تو صحت ہونے پر اونٹوں کا گوشت خود پر حرام قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا: آپ سچ کہتے ہیں، (۴) اچھا یہ بتائیں کہ یہ رعد کیا ہے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے، جس کے سپرد بادل ہیںیا اس فرشتہ کے ہاتھ میں آگ کا ہنٹرہے، جس کے ساتھ وہ بادلوں کو چلاتا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا: یہ آواز کیا ہے جو سنی جاتی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اسی ہنٹر کی آواز ہے۔ انہوں نے کہا: آپ نے سچ کہا ہے۔ (۵) انہوں نے کہا: ایک بات رہ گئی ہے، اگر آپ اس کا جواب دیں گے تو ہم آپ کی بیعت کریں گے، وہ یہ ہے کہ ہر نبی کے لئے ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، جواس کے پاس بھلائییعنی وحی لے کر آتا ہے، آپ بتائیں آپ کا فرشتہ ساتھی کون سا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام ہیں۔ اب کی بار انھوں نے کہا: جبریل،یہ تو جنگ، لڑائی اور عذاب لے کر آتا ہے، یہ تو ہمارا دشمن ہے، اگر آپ میکائیل کہتے جو کہ رحمت، نباتات اور بارش کے ساتھ نازل ہوتا ہے، تو پھر بات بنتی، اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیت نازل کی: {قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہٗنَزَّلَہٗعَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَیَدَیْہِ وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ۔} (سورۂ بقرہ: ۹۷) کہہ دے جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو بے شک اس نے یہ کتاب تیرے دل پر اللہ کے حکم سے اتاری ہے، اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے ہے اور مومنوں کے لیے سرا سر ہدایت اور خوشخبری ہے۔

Haidth Number: 8642

۔ (۱۰۹۶۸)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ حَدَّثَنِی أَبِیْ حَدَّثَنَا یَحْیٰی حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ حَدَّثَنِی أَبِی قَالَ: أَتَیْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما وَہُوَ فِیْ بَنِی سَلَمَۃَ فَسَأَلْنَاہُ عَنْ حَجَّۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَحَدَّثَنَا أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَکَثَ بِالْمَدِیْنَۃِ تِسْعَ سِنِیْنَ لَمْ یَحُجَّ ثُمَّ أُذِّنَ فِیْ النَّاسِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَاجٌّ ہٰذَا الْعَامَ، قَالَ: فَنَزَلَ الْمَدِیْنَۃَ بَشَرٌ کَثِیْرٌ کُلُّہُمْ یَلْتَمِسُ أَنْ یَحُجَّ وَیَأْتَمَّ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَیَفْعَلَ مِثْلَ مَا یَفْعَلُ، فَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعَشْرٍ بَقِیْنَ مِنْ ذِیْ الْقَعْدَۃِ وَخَرَجْنَا مَعَہُ حَتّٰی أَتٰی ذَا الْحُلَیْفَۃِ نَفِسَتْ أَسْمَائُ بِنْتُ عُمَیْسٍ بِمُحَمَّدِ بْنِ أَبِی بَکْرٍ، فَأَرْسَلَتْ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : کَیْفَ أَصْنَعُ؟ قَالَ: ((اِغْتَسِلِیْ، ثُمَّ اسْتَذْفِرِی بِثَوْبٍ ثُمَّ أَہِلِّی۔)) فَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی إِذَا اسْتَوَتْ بِہِ نَاقَتُہُ عَلَی الْبَیْدَائِ أَہَلَّ بِالتَّوْحِیْدِ ((لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ، لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ۔)) وَلَبَّی النَّاسُ، وَالنَّاسُ یَزِیْدُوْنَ ذَا الْمَعَارِجِ، وَنَحْوَہُ مِنَ الْکَلَامِ وَالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَسْمَعُ فَلَمْ یَقُلْ لَہُمْ شَیْئًا، فَنَظَرْتُ مَدَّ بَصَرِی، وَبَیْنَیَدَی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ رَاکِبٍ وَمَاشٍ، وَمِنْ خَلْفِہِ مِثْلُ ذَالِکَ، وَعَنْ یَمِیْنِہِ مِثْلُ ذَالِکَ وَعَنْ شِمَالِہِ مِثْلُ ذَالِکَ، قَالَ جَابِرٌ: رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَ أَظْہُرِنَا عَلَیْہِیَنْزِلُ الْقُرْاَنَ وَہُوَ یَعْرِفُ تَأْوِیْلَہُ وَمَا عَمِلَ بِہِ مِنْ شَیْئٍ عَمِلْنَا بِہِ، فَخَرَجْنَا لَا نَنْوِی إِلَّا الْحَجَّ حَتّٰی أَتَیْنَا الْکَعْبَۃَ فَاسْتَلَمَ نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ وَسَلَّمَ الْحَجَرَ الْأَسْوَدَ، ثُمَّ رَمَلَ ثَلَاثَۃً وَمَشٰی أَرْبَعَۃً حَتّٰی إِذَا فَرَغَ عَمَدَ إِلٰی مَقَامِ إِبْرَاہِیْمَ فَصَلّٰی خَلْفَہُ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ قَرَأَ {وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی} قَالَ أَبِی: قَالَ أَبُوْ عَبْدِ اللّٰہِ یَعْنِی جَعْفَرًا، فَقَرَأَ فِیْہِمَا بِالتَّوْحِیْدِ، وَ {قُلْ یَآ أَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ} ثُمَّ اسْتَلَمَ الْحَجَرَ، وَخَرَجَ إِلَی الصَّفَا ثُمَّ قَرَأَ: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ} ثُمَّ قَالَ: ((نَبَدَأُ بِمَا بَدَأَ اللّٰہُ بِہِ۔)) فَرَقِیَ عَلَی الصَّفَا حَتّٰی إِذَا نَظَرَ إِلَی الْبَیْتِ کَبَّرَ قَالَ: ((لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، أَنْجَزَ وَعْدَہُ وَصَدَّقَ عَبْدَہُ، وَغَلَبَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ۔)) ثُمَّ دَعَا، ثُمَّ رَجَعَ إِلٰی ہٰذَا الْکَلَامِ ، ثُمَّ نَزَلَ حَتّٰی إِذَا انْصَبَّتْ قَدَمَاہُ فِی الْوادِی رَمَلَ، حَتّٰی إِذَا صَعِدَ مَشٰی حَتّٰی أَتٰی الْمَرْوَۃَ فَرَقِیَ عَلَیْہَا حَتّٰی نَظَرَ إِلَی الْبَیْتِ فَقََالَ عَلَیْہَا کَمَا قَالَ عَلَی الصَّفَا، فَلَمَّا کَانَ السَّابِعُ عِنْدَ الْمَرْوَۃِ، قَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! إِنِّی لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِی مَا اسْتَدْبَرْتُہٗ لَمْ أَسُقِ الْہَدْیَ، وَلَجَعَلْتُہَا عُمْرَۃً فَمَنْ لَمْ یَکُنْ مَعَہُ ہَدْیٌ فَلْیَحْلِلْ، وَلْیَجْعَلْہَا عُمْرَۃً۔)) فَحَلَّ النَّاسُ کُلُّہُمْ، فَقَالَ سَرَاقَۃُ بْنُ مَالِکِ بْنِ جُعْشُمٍ وَہُوَ فِیْ أَسْفَلِ الْمَرْوَۃِ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَلِعَامِنَا ہٰذَا أَمْ لِلْاَبَدِ؟ فَشَبَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَصَابِعَہُ فَقَالَ: ((لِلْاَبَدِ۔)) ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ: ((دَخَلَتِ الْعُمْرَۃُ فِی الْحَجِّ إِلٰییَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔)) قَالَ: وَقَدِمَ عَلِیٌّ مِنَ الْیَمَنِ فَقَدِمَ بِہَدْیٍ، وَسَاقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَہُ مِنَ الْمَدِیْنَۃِ ہَدْیًا، فَإِذَا فَاطِمَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَدْ حَلَّتْ وَلَبِسَتْ ثِیَابَہَا صَبِیْغًا، وَاکْتَحَلَتْ فَأَنْکَرَ ذَالِکَ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَلَیْہَا، فَقَالَتْ: أَمَرَنِی بِہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ بِالْکُوْفَۃِ، قَالَ جَعْفَرٌ قَالَ أَبِی ہٰذَا الْحَرْفُ لَمْ یَذْکُرْہُ جَابِرٌ، فَذَہَبْتُ مُحَرِّشًا، أَسْتَفْتِی بِہِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الَّذِیْ ذَکَرَتْ فَاطِمَۃُ، قُلْتُ إِنَّ فَاطِمَۃُ لَبِسَتْ ثِیَابَہَا صَبِیْغًا وَ اکْتَحَلَتْ وَقَالَتْ: أَمَرَنِی بِہِ أَبِی، قَالَ: ((صَدَقَتْ صَدَقَتْ أَنَا أَمَرَتُہَا بِہِ۔)) قَالَ جَابِرٌ: وَقَالَ لِعَلِیٍّ: ((بِمَ أَہْلَلْتَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: اَللّٰہُمَّ إِنِّی اُھِلُّ بِمَا أَہَلَّ بِہِ رَسُوْلُکَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَمَعَی الْہَدْیُ، قَالَ: ((فَلَا تَحِلَّ۔)) قَالَ: فَکَانَتْ جَمَاعَۃُ الْہَدْیِ الَّذِیْ أَتٰی بِہِ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ مِنَ الْیَمِنْ ِوَالَّذِی أَتٰی بِہِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَائَۃً فَنَحَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَدِ ہِ ثَلَاثَۃً وَسِتِّیْنَ، ثُمَّ أَعْطٰی عَلِیًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ، وَأَشْرَکَہُ فِی ہَدْیِہِ، ثُمَّ اََمَرَ مِنْ کُلِّ بَدَنَۃٍ بِبَضْعَۃٍ، فَجُعِلَتْ فِیْ قِدْرٍ َأَکَلَا مِنْ لَحْمِھَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِہَا، ثُمَّ قَالَ نَبِیُّ اللّٰہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖوَصَحْبِہِوَسَلَّمَ: ((قَدْنَحَرْتُھٰھُنَاوَمِنًی کُلُّھَا مَنْحَرٌ۔)) وَوَقَفَ بِعَرَفَۃَ ‘ فَقَالَ: ((وَقَفْتُ ھٰھُنَا وَعَرَفَۃُ کُلُّہَا مَوْقِفٌ۔)) وَوَقَفَ بِالْمُزْدَلِفَۃِ، فَقَالَ: ((وَقَفْتُ ہٰہُنَا، وَالْمُزْدَلِفَۃُ کُلُّہَا مَوْقِفٌ۔)) (مسند احمد: ۱۴۴۹۳)

جعفر کے والد کہتے ہیں: ہم سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گئے، جبکہ وہ ان دنوں بنو سلمہ محلے میں مقیم تھے، ہم نے ان سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حج کے متعلق پوچھا، انہوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ منورہ میں نو سال بسر کئے اور اس عرصہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حج نہیں کیا،اس کے بعد لوگوں میں اعلان کر دیا گیا کہ اس سال رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حج کے لئے تشریف لے جا رہے ہیں،یہ اعلان سن کر بے شمار لوگ مدینہ منورہ میں جمع ہو گئے، ہر آدمی چاہتا تھا کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اقتدا کرے اور وہی افعال کرے جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سر انجام دیں، چنانچہ ذی قعدہ کے دس روز باقی تھے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سفر شروع کر دیا،ہم بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں روانہ ہو گئے۔ جب ہم ذوالحلیفہ مقام پر پہنچے تھے کہ سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے محمد بن ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جنم دیا، انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف یہ پیغام بھیجا کہ اب وہ کیا کرے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: غسل کرکے لنگوٹ کس لے اور احرام باندھ لے۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں سے آگے بڑھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سواری بیدائ پر سیدھی ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ کلمہٗتوحید پڑھا: لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ، لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ (میں حاضر ہوں، اے اللہ ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریکنہیں، میں حاضر ہوں، تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے لیے ہیں اور بادشاہت بھی تیرے لیے ہے، تیرا کوئی شریک نہیں) ،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ لوگوں نے بھی تلبیہ پڑھا، لوگ اپنے تلبیہ میں ذَا الْمَعَارِجِ (اے بلندیوں والے) وغیرہ کے الفاظ بھی بڑھا رہے تھے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے یہ الفاظ سنے، مگر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو کچھ نہیں کہا، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں دیکھا، تاحدِّ نظر انسان ہی انسان تھے، کوئی سوار تھا اورکوئی پیدل۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے درمیان تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر قرآن نازل ہوتا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہی اس کی بہترین تفسیر جانتے تھے، جیسے جیسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عمل کئے، ہم بھی اسی کے مطابق کرتے گئے، ہم حج کی نیت سے روانہ ہوئے تھے، جب ہم کعبہ پہنچے تونبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حجر اسود کو بوسہ دیا، پھر تین چکروں میں ذرا تیز اور چار چکروں میں ذرا آہستہ چال چل کر بیت اللہ کا طواف کیا، اس سے فارغ ہو کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مقام ابراہیم کے پاس آئے اور اس کے پیچھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی اور پھر یہ آیت تلاوت کی: {وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی} …( تم مقام ابراہیم کے پاس نماز ادا کرو۔) ((سورۂ بقرہ : ۱۲۵۔)) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طواف کی دو رکعتوں میں سورۂ اخلاص اور سورۂ کافرون کی تلاوت کی، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حجر اسود کا بوسہ لیا اور صفاکی طرف چلے گئے اور یہ آیت تلاوت کی: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ} … (بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں) (سورۂ بقرہ: ۱۵۸) پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس سے اللہ نے ابتدا کی، ہم بھی اسی سے آغاز کریں گے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صفا کے اوپر اس قدر چڑھ گئے کہ بیت اللہ دکھائی دینے لگا، وہاں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ اکبر کہا اور یہ دعا پڑھی: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، أَنْجَزَ وَعْدَہُ وَصَدَّقَ عَبْدَہُ، وَغَلَبَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ۔(اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلاہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت اسی کی ہے اور تعریف بھی اسی کی ہے، وہی ہر چیز پر قادر ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اس نے اپنے بندے یعنی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سچا کر دکھایا اور وہ اکیلا تمام جماعتوں اور گروہوں پر غالب رہا)اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں دعائیں کیں۔ بعد ازاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صفا سے نیچےتشریف لائے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وادی کے درمیان پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دوڑے، جب بلندی شروع ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آہستہ آہستہ چلنے لگے تاآنکہ مروہ پر پہنچ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مروہ کے اوپر چلے گئے یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بیت اللہ دکھائی دینے لگا،وہاں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسی طرح دعائیں کیں جیسے صفا پر کی تھیں۔ جب مروہ کے پاس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ساتواں چکر تھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! جو بات مجھے اب معلوم ہوئی ہے، اگر یہ مجھے پہلے معلوم ہوتی تو میںقربانی کا جانور ساتھ لے کر نہ آتا اور اس عمل کو عمرہ بنا دیتا، اب جن لوگوں کے پاس قربانی کا جانور نہیں ہے، وہ اپنے اس عمل کو عمرہ بنا لیں اور احرام کھول دیں، چنانچہ سب لوگ حلال ہو گئے۔سیدنا سراقہ بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو اس وقت مروہ سے نیچے تھے، نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان دنوں میں عمرہ کییہ اجازت اسی سال کے لئے ہے یا ہمیشہ کیلئے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر تین مرتبہ فرمایا: ہمیشہ کے لئے ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت تک عمرہ حج میں داخل ہو گیا ہے۔ اُدھر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یمن سے قربانی کے جانور ساتھ لے کر آئے تھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ یہ جانور لے کر آئے تھے۔سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عمرہ کے بعد احرام کھول دیا تھا اور رنگین لباس پہن لیا تھا اور سرمہ بھی ڈال لیا تھا، لیکن ان کا یہ عمل سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اچھا نہیں لگا، جب انہوںنے اس پر انکار کیا تو انہوں نے کہا: مجھے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کا حکم دیا ہے۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کوفہ میں یہ بات بیان کی تھی کہ وہ غصے کی حالت میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گیا اور کہا کہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے رنگ دار کپڑے پہن لئے ہیں اور سرمہ بھی ڈال لیا ہے اور کہتی ہے کہ اس کو اس کے والد( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ ٹھیک کہتی ہے، (تین بار فرمایا) میں نے ہی اسے یہ حکم دیا تھا۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھا: تم نے تلبیہ پڑھتے وقت کیا کہا تھا؟ انہوں نے کہا:میں نے کہا تھا کہ جس طرح کی نیت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ہے، میری بھی وہی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر میرے پاس تو قربانی کا جانور ہے، لہٰذا تم بھی احرام کی حالت میں ہی ٹھہرو۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ سے اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یمن سے جو جانور لے کر آئے تھے، ان کی مجموعی تعداد (۱۰۰) تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے (۶۳) اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر کئے اور باقی اونٹ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نحر کئے،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں قربانی میں شریک کیا تھا، پھرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہر اونٹ کا ایک ایک ٹکڑا لے کر پکانے کا حکم دیا، چنانچہ وہ گوشت ایک ہنڈیا میں ڈال کر پکایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے وہ گوشت کھایا اور اس کا شوربہ نوش کیا۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تو یہاں جانور ذبح کئے ہیں،تاہم پورامنی قربان گاہ ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عرفہ میں ایک مقام پر قیام کیا اورفرمایا: میں نے تو یہاں وقوف کیا ہے، تاہم پورا عرفہ وقوف کی جگہ ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزدلفہ میں ایک مقام پر وقوف کیا اور فرمایا: میں تو یہاں ٹھہرا ہوا ہوں، تاہم پورا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے۔

Haidth Number: 10968

۔ (۱۰۹۶۹)۔ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: تَمَتَّعَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ وَأَہْدٰی فَسَاقَ مَعَہُ الْہَدْیَ مِنْ ذِی الْحُلَیْفَۃَ، وَبَدَأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَہَلَّ بِالْعُمْرَۃِ، ثُمَّ أَہَلَّ بِالْحَجِّ وَتَمَتَّعَ النَّاسُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ، فَإِنَّ مِنَ النَّاسِ مَنْ أَہْدٰی فَسَاقَ الْہَدْیَ وَمِنْہُمْ مَنْ لَمْ یُہْدِ، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِلنَّاسِ: ((مَنْ کَانَ مِنْکُمْ أَہْدٰی فَإِنَّہُ لَا یَحِلُّ مِنْ شَیْئٍ حَرُمَ مِنْہُ حَتَّییَقْضِیَ حَجَّہ، وَمَنْ لَمْ یَکُنْ مِنْکُمْ أَہْدٰی فَلْیَطُفْ بِالْبَیْتِ وَبالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ وَلْیُقَصِّرْ وَلْیَحْلِلْ، ثُمَّ لِیُہِلَّ بِالْحَجِّ وَلْیُہْدِ، فَمَنْ لَمْ یَجِدْ ہَدْیًا فَلْیَصُمْ ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ فِیْ الْحَجِّ وَسَبَعَۃً إِذَا رَجَعَ إِلٰی أَہْلِہِ۔)) وَطَافَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ قَدِمَ مَکَّۃَ اسْتَلَمَ الرُّکْنَ أَوَّلَ شَیْئٍ ثُمَّ خَبَّ ثَلَاثَۃَ أَطْوَافٍ مِنَ السَّبْعِ وَمَشٰی أَرْبَعَۃَ أَطْوَافٍ، ثُمَّ رَکَعَ حِیْنَ قَضٰی طَوَافَہُ بِالْبَیْتِ عِنْدَ الْمَقَامِ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ سَلَّمَ فَانْصَرَفَ، فَأَتَی الصَّفَا فَطَافَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ ثُمَّ لَمْ یَحْلِلْ مِنْ شَیْئٍ حَرُمَ مِنْہُ حَتّٰی قَضٰی حَجَّہُ وَنَحَرَ ہَدْیَہُیَوْمَ النَّحْرِ وَأَفَاضَ فَطَافَ بِالْبَیْتِ ثُمَّ حَلَّ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ حَرُمَ مِنْہُ، وَفَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَنْ أَہْدٰی وَسَاقَ الْہَدْیَ مِنَ النَّاسِ۔ (مسند احمد: ۶۲۴۷)

سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر حج کے ساتھ عمرہ کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذوالحلیفہ سے قربانی کا جانور ہمراہ لے گئے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے احرام کے دوران پہلے عمرہ اور پھر حج کا تلبیہ پڑھا اور لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں حج کے ساتھ عمرہ بھی کیا، کچھ لوگ تو قربانی کا جانور ہمراہ لے گئے تھے، لیکن کچھ لوگوں کے پاس قربانی کے جانور نہیں تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مکہ مکرمہ پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں سے فرمایا: جن کے ساتھ قربانی کا جانور ہے، ان پر احرام کی وجہ سے جو حلال چیز حرام ہو چکی ہے، وہ حج پورا ہونے تک حلال نہیں ہو گی، لیکن جن کے ہمراہ قربانی کا جانور نہیں ہے، وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کے بعد بال کٹوا کر احرام کھول دیں، پھر وہ حج کے لیے علیحدہ احرام باندھیں گے اور قربانی کریں گے، جو آدمی قربانی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہو وہ تین روزے حج کے ایام میںاور سات روزے گھر جا کر رکھے گا۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مکہ مکرمہ آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیت اللہ کا طواف کیا، سب سے پہلے حجر اسود کا بوسہ لیا، اس کے بعد بیت اللہ کے گرد سات چکروں میں سے پہلے تین میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رمل کیا اور باقی چار میں عام رفتار سے چلے، طواف مکمل کرنے کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مقام ابراہیم کے قریب دو رکعتیں ادا کی اور جب سلام پھیر کر فارغ ہوئے تو صفا پر تشریف لے گئے، اور صفا مروہ کی سعی کی اور حج سے فارغ ہونے تک احرام کی وجہ سے حرام ہونے والی کوئی چیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر حلال نہیں ہوئی، دس ذوالحجہ کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قربانی کی اور بیت اللہ کا طواف کیا، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر احرام کی وجہ سے حرام ہونے والی ہر چیز حلال ہو گئی،جو لوگ قربانی کے جانور اپنے ساتھ لائے تھے، انھوں نے بھی اسی طرح کے اعمال سرانجام دیئے، جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ادا کیے تھے۔

Haidth Number: 10969
سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کابیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں فرمایا: وہ قیامت کے دن اہل علم سے ایک تیر کی پھینک پرآگے آگے جا رہے ہوں گے۔

Haidth Number: 11883
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت میں ابو بکر سب سے بڑھ کر مہربان ہیں،میری امت میں سے عمر دین کے بارے میں بڑے سخت ہیں،عثمان سب سے بڑھ کر حیا دار ہیں اور سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حلال و حرام کا علم سب سے زیادہ ہے۔

Haidth Number: 11884
سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مجھ سے ملاقات ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے معاذ! مجھے تم سے محبت ہے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں بھی آپ سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیں چند کلمات کی وصیت کرتا ہوں، تم ہر نماز (کے آخر میں) یہ کلمات کہا کرو: اَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ (یا اللہ! اپنا ذکر کرنے، اپنی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے اور اپنی عبادت بہتر طور کرنے میں میری مدد فرما)۔

Haidth Number: 11885
سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو یمن کی طرف روانہ فرمایا تو ان کو وصیتیں کرتے ہوئے گئے، سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سوار تھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی سواری کے ساتھ ساتھ چلتے جا رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی گفتگو سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا: معاذ! ممکن ہے کہ اس سال کے بعد تمہاری مجھ سے ملاقات نہ ہو سکے اور ہو سکتا ہے کہ تم میری اس مسجد یا قبر کے پاس سے گزرو۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جدائی کے خیال سے رنجیدہ ہو کر سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روپڑے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف منہ کر کے فرمایا: سب لوگوں میں میرے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے، جو تقویٰ کی صفت سے متصف ہوں، وہ جو بھی ہوں اور جہاں بھی ہوں۔

Haidth Number: 11886
سال کے بعد تمہاری مجھ سے ملاقات نہ ہو سکے اور ہو سکتا ہے کہ تم میری اس مسجد یا قبر کے پاس سے گزرو۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جدائی کے خیال سے رنجیدہ ہو کر سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روپڑے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف منہ کر کے فرمایا: سب لوگوں میں میرے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہوں گے، جو تقویٰ کی صفت سے متصف ہوں، وہ جو بھی ہوں اور جہاں بھی ہوں۔

Haidth Number: 11887
ابو منیب احدب سے مروی ہے کہ سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے شام میں خطاب کیا اور طاعون کا ذکر کرتے ہوئے کہا: طاعون تمہارے رب کی تم پر رحمت اور تمہارے نبی کی دعا ہے اور تم سے پہلے ابو منیب احدب سے مروی ہے کہ سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے شام میں خطاب کیا اور طاعون کا ذکر کرتے ہوئے کہا: طاعون تمہارے رب کی تم پر رحمت اور تمہارے نبی کی دعا ہے اور تم سے پہلے

Haidth Number: 11888
اسماعیل بن عبید اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم لوگ عنقریب ارض شام کی طرف ہجرت کر جائوگے اور وہ تمہارے ہاتھوں فتح ہوگا اور تمہارے اندر گوشت کے ٹکڑے کی مانند ایک بیماری (یعنی طاعون) داخل ہو گی، جو انسان کے پیٹ کے نچلے حصے پر ااثر انداز ہوگی، اللہ تعالیٰ اس بیماری کے ذریعے لوگوں کو مقام شہادت سے نوازے گا اور ان کے اعمال کا تزکیہ کر ے گا۔ یا اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ معاذ بن جبل نے واقعییہ حدیث رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے تو اسے اور اس کے اہل خانہ کو اس بیماری کا وافر حصہ عطا فرما،چنانچہ ان لوگوں کو طاعون کی بیماری نے آ لیا اور ان میں سے ایک بھی زندہ نہ بچا، سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی انگشت شہادت زخمی ہو گئی تو وہ کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ میری انگلی بچ جاتی اور مجھے سرخ اونٹ مل جاتے۔

Haidth Number: 11889
ابو عالیہ براء سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:عبداللہ بن زیاد نے نماز کو مؤخر کر دیا، عبداللہ بن صامت میرے پاس آئے، میں نے ان کے لیے کرسی بچھا دی، وہ اس پر تشریف فرما ہوئے تو میں نے ابن زیاد کے اس کام کا ان کے سامنے تذکرہ کردیا، تو وہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگے اور میری ران پر ہاتھ مار کر کہا: جیسے تم نے مجھ سے یہ بات پوچھی ہے، اسی طرح میں نے بھی سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا تھا: انہوں نے بھی میری ران پر اسی طرح ہاتھ مارا تھا، جیسے میں نے تمہاری ران پر ہاتھ مارا ہے، انہوںنے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے وہی سوال کیا تھا جو تم نے مجھ سے کیا ہے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری ران پر اسی طرح ہاتھ مارا، جیسے میں نے تیری ران پر مارا ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم وقت پر نماز ادا کر لینا، اس کے بعد اگر ان کے ساتھ بھی نماز پڑھنے کا موقع مل جائے تو نماز پڑھ لینا اور یہ نہ کہنا کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے، اس لیے نہیں پڑھتا۔

Haidth Number: 12436