Blog
Books
Search Hadith

{یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا} کی تفسیر

3 Hadiths Found
۔ نعمان بن سعد سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے یہ آیت پڑھی : {یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِینَ إِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا} … ہم پرہیز گاروں کو رحمن کی طرف جماعتوں کی صورت میں اکٹھا کریں گے۔ پھرانہوں نے کہا: اللہ کیقسم! یہ لوگ اپنے پائوں پریعنی پیدل جمع نہیں کئے جائیں گے،وہ ایسی اونٹنیوں پر سوار ہوں گے کہ لوگوں نے آج تک ان جیسی اونٹنیاں نہیں دیکھی ہوں گی، ان پر سونے کے کجاوے ہوں گے، وہ ان پر سوار ہو کر چل پڑیں گے، یہاں تک کہ جنت کے دروازوں پر دستک دیں گے۔

Haidth Number: 8678

۔ (۱۱۰۸۸)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وھُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ: ((اِنَّ اَخْوَفَ مَااَخَافُ عَلَیْکُمْ مَا یُخْرِجُ اللّٰہُ مِنْ نَبَاتِ الْاَرْضِ وَزَھْرَۃِ الدُّنْیَا۔)) فَقَالَ رَجُلٌ: اَیْ رَسُوْلَ اللّٰہ! اَوَ یَاْتِی الْخَیْرُ بِالشَّرِّ؟ فَسَکَتَ حَتّٰی رَاَیْنَا اَنَّہُ یَنْزِلُ عَلَیْہِ قَالَ: وَغَشِیَہُ بُھْرٌ وَعَرَقَ فَقَالَ: ((اَیْنَ السَّائِلُ؟)) فَقَالَ: ھَا اَنَا وَلَمْ اُرِدْ اِلَّا خَیْرًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ الْخَیْرَ لَا یَاْتِیْ اِلَّا بِالْخَیْرِ، اِنَّ الْخَیْرَ لَایَاْتِیْ اِلَّا بِالْخَیْرِ، اِنَّ الْخَیْرَ لَا یَاْتِیْ اِلَّا بِالْخَیْرِ، وَلٰکِنَّ الدُّنْیَا خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ وَکُلُّ مَا یُنْبِتُ الرَّبِیْعُیَقْتُلُ حَبَطًا اَوْ یُلِمُّ اِلَّا آکِلَۃَ الْخَضِرِ فَاِنَّھَا اَکَلَتْ حَتَّی امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاھَا وَاسْتَقْبَلَتِ الشَّمْسَ فَثَلَطَتْ وَبَالَتْ ثُمَّ عَادَتْ فَاَکَلَتْ فَمَنْ اَخَذَھَا بِحَقِّھَا بُوْرِکَ لَہُ فِیْہِ، وَمَنْ اَخَذَھَا بِغَیْرِ حَقِّھَا لَمْ یُبَارَکْ لَہُ۔)) وَکَانَ کَالَّذِیْیَاْ کُلُ وَلَا یَشْبَعُ۔)) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ (یَعْنِیْ ابْنَ الْاِمَامِ اَحْمَدِ بْنِ حَنْبَلٍ رحمہ اللہ): قَالَ اَبِیْ: قَالَ سُفْیَانُ: وَکَانَ الْاَعْمَشُ یَسْاَلُنِیْ عَنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ۔ (مسند احمد: ۱۱۰۴۹)

سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منبر پر فرمایا: بیشک مجھے سب سے زیادہ ڈر اس چیز کے بارے میں ہے، جو اللہ تعالیٰ زمین کی انگوریوں اور دنیا کے مال و متاع کی صورت میں نکالے گا۔ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا خیر بھی شرّ کو لاتی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش ہو گئے، یہاں تک کہ ہم نے دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل ہونے لگی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سانس پھولنے لگا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بہت زیادہ پسینہ آ گیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: سائل کہاں ہے؟ اس نے کہا: جی میں ہوں اور میرا ارادہ صرف خیر کا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک خیر صرف خیر لاتی ہے، بیشک خیر صرف خیر کو لاتی ہے، بیشک خیر صرف خیر کو ہی لاتی ہے، اصل بات یہ ہے کہ یہ دنیا سر سبزو شاداب اور میٹھی ہے، موسم بہار جو کچھ اگاتا ہے، وہ پیٹ پھولنے کی وجہ سے یا تو قتل کر دیتا ہے، یا قتل کے قریب کر دیتا ہے، ایک جانور چارہ کھاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کی کوکھیں بھر جاتی ہیں، پھر وہ سورج کے سامنے لیٹ جاتا ہے اورپتلا پاخانہ اور پیشاب کر کے پھر کھانا شروع کر دیتا ہے، بات یہ ہے کہ جو آدمی دنیا کو اس کے حق کے ساتھ حاصل کرے گا، اس کے لیے اس میں برکت کی جائے گی اور جو بغیر حق کے لے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہیں کی جائے گی، بلکہ وہ اس آدمی کی طرح ہو گا جو کھاتا ہے اور سیر نہیں ہوتا۔

Haidth Number: 11088

۔ (۱۱۹۷۹)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: کَانَ فِی بَرِیرَۃَ ثَلَاثُ قَضِیَّاتٍ، أَرَادَ أَہْلُہَا أَنْ یَبِیعُوہَا وَیَشْتَرِطُوا الْوَلَائَ، فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اشْتَرِیہَا فَأَعْتِقِیہَا فَإِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ۔)) قَالَ: وَعُتِقَتْ فَخَیَّرَہَا (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: وَکَانَتْ تَحْتَ عَبْدٍ فَلَمَّا اَعْتَقَتْہَا قَالَ لَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : اخْتَارِیْ فَاِنْ شِئْتِ أَنْ تَمْکُثِیْ تَحْتَ ھٰذَا الْعَبْدِ، وَاِنْ شِئْتِ أَنْ تُفَارِقِیْہِ فَاخْتَارَتْ نَفْسَہَا) رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاخْتَارَتْ نَفْسَہَا، قَالَتْ: وَکَانَ النَّاسُ یَتَصَدَّقُونَ عَلَیْہَا فَتُہْدِی لَنَا، فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((ہُوَ عَلَیْہَا صَدَقَۃٌ وَہُوَ لَکُمْ ہَدِیَّۃٌ فَکُلُوہُ۔)) (مسند احمد: ۲۴۶۹۱)

سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ بریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے واقعہ میں تین مسائل ہیں، اس کے اہل خانہ نے ان کو اس شرط پر فروخت کرنا چاہا کہ اس کی ولاء ان کا حق ہو گا، جب میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اسے خرید کر آزاد کر دو، ولاء کا تعلق اسی کے ساتھ ہوتا ہے، جو آزاد کرے۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: پس میں نے ان کو آزاد کیا تو وہ ان دنوں ایک غلام (مغیث) کی زوجیت میں تھیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: تمہیں اختیار ہے، تم چاہو تو اس غلام کی زوجیت میں رہ سکتی ہو اور اگر چاہو تو اس سے مفارقت اختیار کر سکتی ہو۔ انہوں نے اپنے لیے اس سے مفارقت کو پسند کر لیا،تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ سیدہ بریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو صدقات دیا کرتے تھے اور وہ انہی صدقات میں سے کچھ حصہ بطور تحفہ ہمیں دے دیاکرتی تھی، جب میں نے اس بات کا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے اور تمہارے لیے اس کی طرف سے ہدیہ اورتحفہ ہوتا ہے، پس تم یہ کھانا کھا سکتی ہو۔

Haidth Number: 11979